تلاش!

پیر 2 جون 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم


سوال بڑا دلچسپ تھا لیکن میرے پا س اس سوال کا کو ئی جواب نہیں تھا ۔میں نے دائیں بائیں دیکھا،اپنے ذہن پر زور دیا لیکن مجھ سے کوئی جواب نہ بن پایا ۔پروفیسر صاحب نے وہی سوال دوسرے انداز میں کیا ”اگر آپ سے کہا جائے آپ کے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں اور چوبیس گھنٹوں کے بعد آپ کی زندگی ختم ہو جائے گی تو آپ اپنے چوبیس گھنٹے کیسے گزارو گے “یہ سوال نسبتا آسان تھا میں نے عرض کیا ”سب سے پہلے اللہ کے سامنے گڑ گڑاوٴں گا ،اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا اور اسے راضی کرنے کی حتیٰ الامکان کو شش کر وں گا ۔

اس کے بعد اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے گلے مل کر رووٴں گا ،ان سے معافی مانگوں گا اور ان کی محبتوں ،عنایتوں اوران کے پیار کا شکریہ ادا کروں گااور سب سے آخر میں اپنے اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے دوستوں کے گلے لگ کر ان کی جدائی کا ماتم کروں گا ۔

(جاری ہے)

اپنے گھر ،گھرکے افراد ،اپنے بھانجوں بھتیجوں کو بار بار پیار کروں گا ،گھر کی دیواروں ،کھڑکیوں ،کمروں اور اپنے بستر کو بار بار دیکھوں گا ،ان کو چھو کر ان کی یاد تازہ کروں گا ،اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اور ہمسایوں کے گلے مل کر آنسو بہاوٴں گا ،ان سب سے معافی مانگوں گا اور مرنے سے ایک گھنٹہ پہلے موت کی تیاری کر کے عزرائیل کے انتظار میں بیٹھ جا وٴں گا “میرا جواب سن کر پروفیسر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوشگوار لہجے میں بولے ”مجھے یقین تھا تمہارا جواب یہی ہو گا لیکن مجھے افسوس بھی ہے کہ تم اپنے جوا ب میں فیل ہو گئے ہو ۔

تمہارے جواب کا صرف پہلا جملہ ٹھیک ہے اور اگلے پورے جواب میں تمہارے نمبر زیرو ہیں “پروفیسر صاحب نے میرے چہرے پے بنے سوالیہ نشان کو دیکھ کر خود ہی وضاحت کی ”اکسویں صدی کے ننانوے فیصد انسان اپنی زندگی سے ناخوش ہیں ،حالانکہ اکسویں صدی اور” سٹون ایج “میں بڑا فرق ہے ۔ہم دو ہزار سال پہلے کے زمانے کو ”زمانہ ء جا ہلیت “اور ”سٹون ایج “ کا نام دیتے ہیں لیکن اس دور کا انسان آج کے انسان سے ذیادہ خوش اور مطمئن تھا ۔

آپ آج سے دو ہزار سال پہلے کی ہسٹری اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو پوری تاریخ میں خودکشی کا ایک بھی کیس نظر نہیں آئے گا ۔ہم اسٹون ایج کی نسبت آج سہولتوں کی جنت میں رہتے ہیں ،ہمارا لباس پتوں سے تھری پیس کی طرف منتقل ہو گیا ،ہماری خوراک جنگلی جانوروں کے شکار سے فاسٹ فوڈ کی طرف منتقل ہو گئی ،ہم غاروں سے نکل کر ایک سو دس منزلہ بلڈنگوں میں شفٹ ہو گئے ،ہم اونٹ ،خچر اور گھوڑے سے اتر کر ہوائی جہاز ،ٹرین اور بی ایم ڈبلیو پر سوار ہو گئے ،ہم جہالت سے نکل کر ہارورڈ اور آکسفورڈ یو نیورسٹی کے زمانے میں پہنچ گئے، ہم نے سورج ،چاند ،ستاروں کو مسخر کر لیا،ہم ہواوٴں کو چیر کر آسمان اور چاند تک جا پہنچے ،ہم نے سمندروں کی گہرائیوں میں آبدوزیں چلا دی ،ہم نے پہاڑوں کو چیر کر ان سے سونا چاندی او ردیگر معدنیات نکال لی ،ہم نے آندھیوں ،سیلابوں اور زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے والا نظام نافذ کر لیا اور اکسویں صدی میں ہم نے مصنوعی بارش تک برسادی لیکن اس کے باوجود ہم ناخوش بھی ہیں ،شکوے بھی کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں سے پریشان بھی ۔

اللہ نے ہمیں سمجھ بھی دی ہے ،عقل اور فہم بھی لیکن اس کے باوجود ہم اپنی زندگیوں کو انجوائے نہیں کر پاتے اور اکسویں صدی کے انسان کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے “لیکن پروفیسر صاحب اس سارے فلسفے کا اس سوال کے ساتھ کیا تعلق ؟وہ بولے ”تم اکسویں صدی میں رہ رہے ہو اور اکسویں صدی کی تمام سہولیات دستیاب ہو نے کے باوجوتم اپنی زندگی اور اپنی زندگی کے آخر ی چوبیس گھنٹے ایک خوفزدہ اور ڈرپوک انسان بن کر گزارنا چاہتے ہو ۔

در اصل ہمارے پاس زندگی گزارنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ۔ایک ،ہم زندگی کو روتے ہوئے گزار دیں،ہم زندگی کی تمام سہولیات دستیاب ہو نے کے باوجود زمانے کی ستم ظریفیوں کا شکوہ کرتے رہیں ،ہم اپنی سستی اور کام چوری کو بیماری کا نام دے دیں اور ہم اپنی ناکامی کو تعویز دھاگے سے منسوب کردیں ۔ہم اپنی زندگی کو آخری چوبیس گھنٹوں کی طرح روتے ہوئے ،اپنے عزیزوں کو رلا تے ہوئے اور دوستوں کی جدائی کا ماتم کرتے ہوئے گزار دیں ۔

دو ،ہم اپنی زندگی اور زندگی کے آخری چوبیس گھنٹے رونے دھونے کی بجائے اللہ کو راضی کرتے اور زندگی انجوائے کرتے ہوئے گزاریں ،ہم آخری چوبیس گھنٹوں کے ایک ایک منٹ کو قیمتی بنائیں ،ہم پہلے سے زیادہ ہنسنا شروع کر دیں ،ہم والدین اور بہن بھائیوں کے گلے مل کر رونے کی بجائے ان سے خوب باتیں کریں ،ان کے ساتھ کھیلیں ،مل کر کھانا کھائیں ،اپنی فیملی کے ساتھ مل کر باغ کی سیر کو نکل جائیں ،برف پر اسکیٹنگ کریں ،تیراکی کے لیئے چلے جائیں ،دوستوں کے ساتھ مل کر گپ شپ کریں ،کوئی اچھی سی گیم کھیلیں اور جب چوبیس گھنٹوں میں سے آخری پانچ منٹ رہ جائیں تو ہم باوضو ہو کر موت کے انتظار میں کھڑے ہو جائیں اور جب موت کی گاڑی آئے ہم خوشی خوشی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے اس #####پر سوار ہو جائیں ۔

آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا استاد خوش ہے نہ طالب علم ،جج خوش ہے نہ وکیل ،سیاستدان خوش ہے نہ حکمران ،عالم خوش ہے نہ دانشور ،شاعر خوش ہے نہ فلسفی ،کیوں ؟کیوں کہ ہم نے زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں سیکھا ،ہم زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ زندگی اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کبھی زحمت نہیں ہوتی ۔ہمیں اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں خود تخلیق کرنی ہو تی ہیں ،ہم طالب علم ہیں تو ہمیں کلاس میں اپنی خوشیاں خود ڈھونڈنی ہیں ،ہم مصنف ،شاعر، جج ،وکیل ،استاد ،طالب علم ،انجینئر ،سائنسدان ،ڈاکٹر ،صحافی ،ڈرائیور اور مزدور کچھ بھی ہوں ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں خود تلاش کرنی ہیں ۔

اللہ نے ہر انسان کے حصے میں اس کی خوشیاں لکھی ہیں اگر ہم اپنے حصے کی ان خوشیوں کو نہیں سمیٹیں گے تو وہ خوشیاں کو ئی اور لے جائے گا ۔خوشی کی دیوی سب پر برابر مہربان ہو تی ہے اور وہ اپنے پر سب کے لیئے پھیلاتی ہے لیکن یہ ہم ہیں کہ خود کو کوستے رہتے ہیں ،دن میں بیس مرتبہ خودکشی کا سوچتے ہیں اور چالیس مرتبہ اپنے باس کو گالی دیتے ہیں “پروفیسر صاحب رکے تو میں نے عرض کیا ”سر بجا کہ نوے فیصد پریشانیاں اور مصیبتیں ہماری اپنی سو چ اور محض خیا لا ت کا نتیجہ ہو تی ہیں لیکن کچھ لو گ حقیقت میں ان مسائل کا شکار ہو تے ہیں تو ایسے لو گ کیسے خوش رہ سکتے ہیں “پرو فیسر صاحب نے گہری سانس لی اور بولے ”آج کیا تاریخ ہے “ میں نے عرض کیا ”یکم جون “ وہ بو لے ”تمہیں یاد ہے پچھلے سال یکم جون کو تم کہاں تھے ،کس حالت میں تھے اور کیا کر رہے تھے“میں نے کافی غو ر کیا لیکن میرا جواب نہیں تھا ، وہ بولے ”تمہیں معلوم ہے اگلے سال یکم جون کو تم کہاں ہو گے اور کیا کر رہے ہو گے “میر اجواب پھر نہیں تھا ۔

وہ بولے ”انسان دنیا میں جتنی مرضی تکلیفیں برداشت کر لے ،حتیٰ کہ وہ موت کے منہ میں بھی چلا جائے لیکن آخر کار وہ انہیں بھو ل جاتا ہے اور وہ سب دکھ ،تکلیفیں اور مصیبتیں ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں لہذٰ آپ کا ماضی زیرو ہے ،مستقبل کا آپ کو پتا نہیں ،باقی بچا آپ کا حال (موجودہ زمانہ )تو آپ صرف اپنے حال کو ٹھیک کر یں ،اسے انجوائے کریں اوراس میں اپنی خوشیاں تلاش کریں ،یقین کرو اگر تم نے اپنے حال کی خوشیوں کو کیش کر لیا تو تمہاری زندگی میں خوشیوں کا ایسا سیلاب آئے گا کہ تم سر سے پاوٴں تک خوشیوں میں ڈوب جاوٴ گے “پرو فیسر صاحب بات کر کے خاموش ہو گئے اور میں اپنے حصے کی خوشیاں تلاش کر نے کے لیئے کمرے سے باہر نکل آیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :