عزیمت کا پہاڑ

ہفتہ 31 مئی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

حسب وعدہ ایک پر عزم،باہمت اور حصول علم کے لیے جہد مسلسل کرنے والے طالب علم کی کہانی پیش خدمت ہے۔ محمد جواد بھٹی کا شمار ان سیکڑوں طلبہ میں ہوتا ہے جن کی سچی داستانوں نے مجھے فخر اور اعتماد کے احساسات سے نوازا۔
محمد جواد بھٹی نے ملتان کے نواح میں واقع چھوٹے سے قصبے شجاع آباد کے ایک مزدور کے گھر میں جنم لیا۔ محمد جواد بھٹی تندرست پیدا ہوا تھا لیکن تین سال کی عمر میں اسے بخار ہوا اور اس کی دونوں ٹانگیں مردہ ہوگئیں۔

غریب باپ نے ملتان ،فیصل آباد اور لاہور سمیت کئی شہروں میں علاج کروایا لیکن محمدجوادبھٹی پولیو کے حملے سے بچ نہ سکا۔ رینگنا اس کا مقدر بن گیا ،اس کے بہن بھائی سکول چلے جاتے اور وہ گھر میں بے بس پڑا رہتا۔ جب اس کی عمر سات سال ہوگی تواس نے سکول میں داخل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا والدین اس کو درزیوں کا ہنر سکھانا چاہتے تھے تاکہ وہ معذوری کے باوجود اپنا روزگار کما سکے لیکن وہ سکول داخل ہونے پربضد رہا۔

(جاری ہے)

اسے سکول داخل کروانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ کوئی فرد اسے سکول چھوڑنے اور واپس گھر لانے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ محمد جواد بھٹی کے بے حد اسرار پر اسے گھر کے قریب ایک نجی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کی ٹانگوں کے نیچے ٹیوب کا ٹکڑا با ندھ دیا جاتااور وہ گود میں بستہ رکھ کر رینگتا ہوا سکول چلا جاتا۔
سکول انتظامیہ نے بھی اسے ہر ممکن مدد فراہم کی یوں اس نے آٹھویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی۔

نویں جماعت میں اس کا داخلہ گورنمنٹ سکول میں کروادیا گیا۔ وہاں اساتذہ نے اس کے جذبہ حصول علم اور قابلیت کو بے حد سراہا اور ہر ممکن مدد دی سکول کے ایک مہربان استاد نے محمد جواد بھٹی کو سائیکل پر گھر سے لانے اور لے جانے کی ذمہ داری اس کے ایک ہم جماعت کو سونپ دی، دوسرے استاد نے اسے سکول کے بعد بلامعاوضہ پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ میٹرک کا امتحان اس نے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

اس کے دوست ایف ایس سی کرنے کے لیے ملتان جارہے تھے جب کہ معذوری کی بناء پر اسے گھر سے اجازت نہیں مل رہی تھی۔ دوستوں نے ہر ممکن مدد کی یقین دھانی کروائی اور اسے اپنے ساتھ ملتان لے آئے۔
گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنے میں اسے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے جذبے میں کمی نہ آئی۔ ایف ایس سی کے امتحانات سے فراغت کے بعد اس کے دوستوں نے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے نجی ٹیوشن سنٹر جانا شروع کردیا۔

لیکن اس کے لیے ٹیوشن سنٹر کی فیس ادا کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ کئی دن پریشان رہا پھر ایک دن اس نے ہمت کی اور ملتان کی ایک معروف اکیڈمی میں چلا گیا وہاں اس نے اپنے معاشی حالات بتائے تو اکیڈمی کی انتظامیہ نے اسے بلامعاوضہ تیاری کروانے کی پیشکش کردی۔ ڈاکٹر بننا محمد جواد بھٹی کا خواب تھا اور اس کے خواب کی تعبیر کی طرف اس کا پہلا قدم میڈیکل کالج میں داخلہ تھا۔

لہٰذا محمد جواد بھٹی نے روزانہ اٹھارہ گھنٹے امتحانات کی تیاری۔ انٹری ٹیسٹ میں اس نے اتنے نمبر حاصل کرلیے کہ وہ خصوصی طلبہ کے کوٹے پر داخلہ لے سکتاتھا۔ اسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں خصوصی طلبہ کی سیٹ کے داخلے کے لیے انٹر ویو کی کال موصول ہوئی تو اس کے پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اسے اپنی منزل قریب آتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

ملتان سے لاہور تک کا سفر اس نے روشن مستقبل کے خواب بُنتے طے کیا۔
انٹر ویو کے لیے وہ رینگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو بورڈ کے اراکین نے اسے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کردیا کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوسکتے اور مریض کا علاج کرنے کے لیے تمہارا فعال ہونا بے حد ضروری ہے۔ بورڈ کا فیصلہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بورڈ اراکین میں آرتھو پیڈک سرجن پروفیسر ڈاکٹرمحمد اویس بھی شامل تھے انہوں نے اس کی ٹانگوں کا معائنہ کیا اور ساتھی اراکین کو بتایا کہ آپریشن سے محمد جواد بھٹی اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکتاہے۔

بورڈ نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا تو اسے داخلہ دے دیا جائے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اویس نے اسے میو ہسپتال میں خود آپریشن کرکے دونوں ٹانگوں پر کھڑا کرنے کی پیشکش کی لیکن غریب گھرانے کے لیے لاہور شہر میں کئی ماہ قیام کرنا ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمد اویس نے انہیں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے شعبہ آرتھو پیڈک کے سربراہ ڈاکٹر کامران سالک کے پاس بھیج دیا۔

ڈاکٹر کامران سالک نے محمدجواد بھٹی کے تقریباً پانچ ماہ میں چھ آپریشن کیے اس عرصے میں وہ نشتر میڈیکل کالج میں داخل رہا۔ اس عرصے میں میڈیکل کالجز میں داخلے ہوچکے تھے اور اسے دوبارہ انٹری ٹیسٹ دینا تھا۔ انتہائی تکلیف دے آپریشن کے باوجود وہ ہسپتال کے بستر پر بھی پڑھتا رہا۔انٹری ٹیسٹ سے دودن پہلے اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اتنے بڑھے صدمے اور پلستر چڑھی دونوں ٹانگوں کے ساتھ اس نے انٹری ٹیسٹ دیا۔

وہ دوبارہ بورڈ کے سامنے دو بیساکھیوں کے سہارے چل کر پیش ہوا تو اسے یہ کہہ کر داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا کہ اس کے دونوں ہاتھ بیساکھیوں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور وہ مریضوں کا علاج کیسے کرے گا۔
محمد جواد بھٹی پر وہ لمحہ قیامت بن کرٹوٹا اس نے بورڈ کو اپنی جدوجہد اور آپریشن کے تکلیف دہ حالات سنائے تو انہوں نے کہا کہ اگر تم ایک بیساکھی کے سہارے چل کر دکھادو تو ہم تمھیں داخلہ دے دیں گے۔

اس نے دو ہفتے مشق کی اور دوبارہ بورڈ کے سامنے پیش ہوگیا۔ اس کی کوششیں ثمر آور ہوگئیں اور اسے علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔
محمد جواد بھٹی کے اہل خانہ میڈیکل کالج میں داخلے پر خوش تو تھے لیکن اخراجات کے حوالے سے پریشان بھی تھے۔ گھر میں ایک گائے تھی وہ بیچ کراس کا داخلہ کروا دیا گیا۔ تین ماہ بعد مالی مشکلات نے پریشان کردیا ان تلخ لمحات میں وہ سوچنے لگا کہ جسمانی مشکلات پر تو قابو پالیا ہے مگر مالی مشکلات کو کیسے مات دونگا۔

انہیں دنوں اسے ایک علم دوست ادارے کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں معلوم ہوا،اس نے اپنے حالات بتاکر تعلیمی وظائف کی درخواست دی۔اس کے عزم و ہمت کو سراہتے ہوئے اسے نہ صرف تمام تعلیمی اخراجات فراہم کیے گئے بلکہ خرچ طعام،کتب،آمدورفت اور علاج معالجے کے لیے بھی مالی اعانت فراہم کی گئی۔
اس کے عزم اور ہمت کی کہانی میڈیا پر نشر ہوئی تو علامہ اقبال کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی تنظیم نے اسے ایک آٹو میٹک گاڑی بھی فراہم کردی۔


محمد جواد بھٹی کو اللہ تعالی نے اس کی جہد مسلسل اور جذبہ حصول علم کا اجر دے دیا۔ اس نے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پانچ سال کے دوران مکمل اطمینان اوریکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ دوہفتے قبل اس کے فائنل امتحانات کے نتائج آئے ہیں، وہ ایک ڈاکٹر بن چکا ہے اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکاہے۔ محمد جواد بھٹی کی کہانی نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اپنی کتاب” جوہر قابل“ میں اسے پہلی کہانی کے طور پر شامل کیا ہے۔

میں نے اس باہمت نوجوان کے حالات زندگی پر ایک ویڈیو ڈاکومنٹری بھی تیار کی ہے تاکہ مایوسی کے شکار نوجوانوں کو امید کی روشنی سے منور کیا جاسکے اور ان میں مقصد حیات کو پانے کے لیے عزم و ہمت اور جہد مسلسل کے جذبات کو ابھارا جائے۔کتاب جوہر قابل اور ویڈیو ڈاکومنٹری قارئین بلا معاوضہ حاصل کرنے کے لیے میرے ای میل[email protected]پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :