میڈیا کے اختلافات …مضمرات وخطرات

ہفتہ 31 مئی 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

پاکستان میں میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ،اب اتنی ہی سبک رفتاری سے صحافت خودکشی کرنے پر تل گئی ہے۔،مالکان کی جنگ میں عامل صحافیوں کا مستقل خطرے سے دوچار ہے۔میڈیا کے مقابلے میں میڈیا ہی اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔غلطیاں سب سے ہوتی ہیں،، غلطیاں بری نہیں ،،غلطیوں پر ڈٹ جانا برا ہے ۔ضد اور ہٹ دھرمی کرنا براہے ۔غلطیاں تو سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں ۔

صحافی پوری قوم کے جھگڑے ختم کرادیا کرتے تھے ،اب جب صحافی جھگڑنے لگے ہیں تو پوری قوم تماشہ دیکھ رہی ہے کوئی ان اختلافات کو مٹانے کی کوشش نہیں کررہا ہے ۔دونوں جانب محاذ بن چکے ہیں ۔ایک جانب پاکستان کا سب سے بڑا صحافتی ادارہ ہے اور دوسری جانب سارے میڈیا نے ایک نکاتی مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق کرلیا ہے ۔جنگ جیو کی لاکھ برائیاں ہونگی ،اس کی پالیسوں سے لاکھ بار اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان میں واحد صحافتی ادارہ ہے جس نے صحافیوں کو سب سے زیادہ روزگار دے رکھا ہے ۔

(جاری ہے)

ہاکروں سے لیکر عامل صحافیوں تک ،کاغذ فروشوں سے لیکر پرنٹنگ مشینوں کا کام کرنے والوں تک ،اشتہارتی ایجنسیوں سے لیکر ڈاک ایڈیشن لے جانے والی گاڑیوں کے عملے تک لاکھوں افراد کا روزگار ان اداروں سے وابستہ ہے ۔یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ روزگار دینے والا ادارہ آج رقیبوں کے ہاتھوں عتاب کا شکار ہے ۔

چین کی یہ خوبی نہیں کہ اس کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے بلکہ اس کی یہ خوبی سب سے زیادہ اہم ہے کہ اس نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی ،ڈیڑھ ارب افرادکو غذائی قلت کا شکار نہیں ہونے دیا ۔ا س ہی تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ اور جیو نے بھی پاکستان کے صحافیوں کو سب سے زیادہ روزگار دیا ہے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسلسل کامیابیوں نے جنگ اور جیو کے حاسدین کی تعداد ہزاروں میں پہنچا دی ہے ۔

جو ادارے لوگوں کو روزگار دیتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔آزمائشیں آتی رہتی ہیں ۔میر شکیل الرحمان بھی والد کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ان کی کامیابی کے لیے لاکھوں کارکنوں کے خاندانوں کے کروڑوں افراد دعاوں میں مصروف ہیں ۔جن کے لیے کروڑوں ہاٹھ روزانہ دعاؤں کے لیے اٹھیں انہیں کسی کا حسد بغض ناکام نہیں بنا سکتا ۔
تخریب سب سے آسان کام ہے ،برسوں کی محنت پل بھر میں اکارت ہوجاتی ہے ۔

میڈیا اس وقت تخریب کاری پر اتر آیا ہے ۔اور سب کی کوشش ہے کہ کسی طرح دوسرے اداروں کو بند کروادیا جائے ۔پاکستان سب کا ہے ،کوئی کسی کو ملک سے نہیں نکال سکتا ،مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو ملک سے باہر نکال دیا جائے،ٹی وی اینکر اداروں کو بند کرانے اور نفرت کی علامت بنانے پر تلے بیٹھے ہیں ۔پاکستان کی صحافتی تاریخ میں مالکان ہمیشہ ایک رہے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ مالکان ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے ہیں ۔

وہ صحافی جو برسوں سے اپنے حقوق غصب کروابیٹھے ہیں ۔ان کے لیے مالکان کو نیچا دکھانے کا یہ اہم موقع ہاتھ آیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شرفاء کی شان نہیں ۔اس لیے ہم کسی انتقام کے قائل نہیں ۔تمام عامل صحافی بھی اس موقع پر میڈیا کی جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کے میڈیا کاوقار مزید مجروح نہ ہو، پاکستان کے میڈیا نے فوج کے بعد ایک مکمل مضبوط ادارے کی شکل دھار لی تھی ۔

اور یہ بات خوش آیند تھی مگر جب میڈیا کے ادارے کو اپنی اہمیت جتلانے کا پہلا موقع ہاتھ آیا تھا ۔تب میڈیا کا شیرازہ بکھر گیا ۔اور یوں اب پاکستان میں ایک ہی مضبوط ادارہ فوج باقی رہ گیا ہے ۔نظم ونسق کے لحاظ سے فوج کے ادارے نے اپنی اہمیت ہمیشہ ہی برقرار رکھی ہے ۔فوج بھی ہماری ہے ہے اور ادارے بھی سب ہمارے ہیں ۔غلط فہمیاں بھائیوں میں بھی جنم لیتی ہیں ۔

اور انہیں ختم بھی کیا جاتا رہتا ہے ۔غلط فہمیوں کا یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی دراز ساہوگیا ہے ۔جس کی وجہ سے کشیدگی میں شدت آگی ہے ۔اصل معاملہ ساکھ کا ہے ۔کسی بھی ادارے کی ساکھ اربوں کھربوں روپے کی ہوتی ہے اور ساکھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ۔فوج کو بھی ساکھ کا صدمہ گائل کرگیا ۔جہاں تک الزامات کا تعلق ہے الزامات تو کسی قابل ادارے پر ہی لگتے ہیں ۔

یہ الزامات اسے سچا کھرا ثابت کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ بظاہرہر منفی کام میں بھی مثبت کام چھپا ہوتا ہے ،فوج پر الزامات کے بعد عوامی سطح پر فوج کی جتنی ساکھ اب مضبوط ہوئی ہے ۔اس کا ماضی قریب میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا ۔ان مثبت باتوں کو اہمیت دی جائے ۔جب کوئی شخص کسی عدالت سے بری ہوتا ہے تو سچائی کی عدالتی سند میں اس شخص کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے جو الزام دے کر اس شخص کو عدالت تک گھسیٹ لاتا ہے ۔

بس یوں سمجھ لیجئے کہ جنگ اور جیو نے بھی فوج کو عوامی عدالت میں سرخرو کردیا ہے ۔جس سے زیادہ محبت ہوغصہ بھی اس ہی پر زیادہ آتا ہے ۔پاکستان کی فوج سے سب کوزیادہ محبت ہے ۔اور غلط فہمی پر غصہ آجانا بھی فطری ردعمل ہے ۔اب یہ محاذآرائی ختم ہوجانی چاہیے ۔حکومت دونوں بڑے اداروں میں غلط فہمیوں کی جنگ ختم کرانے میں اپنا کردار ادار کرے ۔طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان دو بڑے ادار وں میں مذاکرات اور افہام و تفہیم کیوں نہیں ہوسکتی ۔

غلطیاں بری نہیں غلطیوں پر ڈٹ جانا برا ہے ۔مزید غلطیوں پر غلطیاں کیے جانا اچھی روایت نہیں ۔
صحافی تو قوم کے دانشور ہوتے ہیں ۔دانشوروں کی لڑائی کا تماشہ قوم روز دیکھ رہی ہے ۔پڑھے لکھے اشخاص جنگ نہیں کرتے ۔صرف اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔بڑوں کی لڑائی میں چھوٹوں کی شامت آگئی ہے ۔میڈیا نے بھی اس جنگ میں اپنی اربوں کھربوں روپے کی ساکھ پانی کی بجائے ریگستان میں ڈبودی ہے ۔

ساکھ کو کبھی بھی روپوں پیسوں میں تولا نہیں جاتا ۔ساکھ اعدادوشمارکی گنتی اور ماپ تول سے بالا تر ہوتی ہے ۔اسے گنا نہیں جاتا ۔صحافتی اداروں میں جنگ نے میڈیا کی ساکھ اتنی محروح کردی ہے کہ پہلے خبر کو سچ سمجھاجاتا تھا اب الیکڑانک میڈیا کے اداکاروں نے اسے بھی اداکاری کی صنف بنا دیا ہے ۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ میڈیا پر عوام کا اعتماد دن بدن کم ہوتا جارہا ہے ۔

خبر پہلے غیر جانبدار ہوتی تھی اب یہ اداروں کی پالیسی کے تابع ہوچلی ہے ۔خبر جب غیر جانبدار نہ رہے وہ خبرنہیں رہتی۔فلم ڈرامہ بن جاتی ہے ۔کیا پاکستان کا الیکڑانک میڈیا عوام کو خبروں کے نام پر ڈرامے دکھانے پر تلا ہے ۔اس سوال کا جب تک جواب نہیں ڈھونڈا جاسکتا تب تک میڈیا کی ساکھ بحال نہیں ہوگی ۔میڈیا اپنی ساکھ کی بھی فکرکرے کہیں عوام ڈرامے بازی بیزارنہ ہوجائے ۔بنگلہ دیش جب پاکستان سے الگ ہوا تو اسے پٹ سن کی پیدوار پر غرور تھا جب اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی تب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دنیا بھر میں پٹ سن کی مانگ ہی ختم ہوگئی ۔پلاسٹک نے پٹ سن کو بے کار چیز بنا دیا ۔میڈیا بھی بنگلہ دیش کے غرور سے سبق حاصل کرے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :