بہانے بازی

ہفتہ 31 مئی 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

جب میں بہانے بازی پر قلم اٹھانے لگا تو مجھے اپنے کالج کے دن یاد آ گئے۔ امتحان کے دنوں میں بڑے قابلِ دید سین ہو ا کرتے تھے۔ پرچے کے تقسیم ہوتے ہی حضرت قسم کے امیداوار سر میں خارش کرنے لگتے تھے۔وہ دماغ کی تہہ میں بیٹھے ہوئے علم کو خارش کر کر کے اوپر کی سطح پر لا رہے ہوتے تھے لیکن سر میں جو ماشہ دو ماشے علم ہوتا وہ پیندے میں ہی بیٹھا رہتا اورخارش سے خشکی سکری گررہی ہوتی تھی۔

پرچہ تقسیم ہونے کے بعد کچھ امیدوار پین یا پنسل کو بار بار دانتوں تلے داب رہے ہوتے تھے ۔ اس کا مقصد پن یا پنسل کو ڈانٹنا ہوتا تھا کہ لکھتی کیوں نہیں ، لکھ، خود بخود لکھ۔قلم بے چاری اپنی بے بسی پر آنسو بہاکر صبر شکر کر لیتی کہ کچھ لکھواؤ گے تو میں لکھوں گی۔اُمیدواروں کا ایک طبقہ ایسے موقعوں پر حاجت ضروریہ کے لئے باتھ روم کاپوچھنے لگ جاتا۔

(جاری ہے)

ابھی پرچہ شروع ہوئے بمشکل دس منٹ بھی نہیں گزرے ہوتے تھے کہ اکثریت پانی اور پیشاب کے لئے بے قرار ہو جاتی تھی۔ اگر سپرنٹنڈنٹ کہہ دیتا کہ آدھے وقت سے پہلے باہر نہیں جا سکتے تو کوئی دل جلااپنی سیٹ پر کھڑا ہو کر کہہ دیتا ’ سر میں اِدھر ہی کرنے لگا ہوں‘۔یہ اتنی سخت دھمکی ہوتی کہ سپرنٹنڈنٹ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور وہ فالفور اجازت دے دیتا۔

بارش کے پہلے قطرے کی طرح پہلے اُمیدوار کو اجازت ملتے ہی ہر امیدوار اپنے آزار بند پر ہاتھ رکھ لیتا ۔پھر دو آتے تھے تو چار جاتے ۔یہ تھی لڑکپن کی بہانہ بازی اور اب ذراملازمت کے دور کی بہانہ بازی ملاحضہ فرمائیے ۔ گورنمنٹ ملازم کو ایک آدھ چھٹی توگھر پر ضروری کام کے بہانے پر ہی مل جاتی ہے جبکہ چار پانچ چھٹیوں کے لئے کسی عمر رسیدہ دادے دادی یا نانے نانی کو خالقِ حقیقی سے ملانا پڑتا ہے۔

بعض اوقات یہ دادے دادیاں تین تین چار چار بار خالقِ حقیقی سے پہلے ہی مل چکے ہوتے ہیں یا مل چکی ہوتی ہیں لیکن اپنے پوتے یا نواسے کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے حالقِ حقیقی سے اتفاقیہ رخصت لے کر پھر اس فانی دنیا میں آ جاتے ہیں۔ کچھ باس حساب کتاب رکھنے کی غلطی بھی کر لیتے ہیں اور پوچھ بیٹھتے ہیں کہ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ کی یہ دادی دو ماہ قبل بھی اللہ کو پیاری ہوئی تھیں۔

ملازم کو یہ تفصیل بتانا پڑتی ہے کہ اُن دنوں خالق حقیقی کو پیاری ہوتے ہوتے رہ گئیں تھیں۔ملک الموت صرف انہیں بتا کے چلا گیا تھا کہ زادِ راہ باندھ رکھئے میں جلد آر ہا ہوں۔چھٹی کی درخواستوں میں دادے دادیاں اور نانے نانیاں تو متعدد بار موت کے ذائقے چکھتے ہی رہتے ہوتے ہیں، رشتہ دار اور دوست احباب بھی حادثات کی زد سے نہیں بچ پاتے۔ان میں سے کسی کو تو شدیدچوٹیں ہی آئی ہوتی ہیں لیکن ہڈی پسلی بچ گئی ہوتی ہے جبکہ بعض گھر بیٹھے بٹھائے دونوں ٹانگوں سے معذور ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈوریا ان ڈوروارڈوں کی سیاحت سے بھی دوچار ہو رہے ہوتے ہیں۔

یہ ہر رشتہ دار کی قسمت ہوتی ہے کہ اُس کے حصے میں حادثہ آتا ہے یا موت۔جس کی قسمت اچھی ہوتی ہے اُسے معمولی حادثہ ہی پیش آتا ہے لیکن جس بدنصیب کی قسمت بری ہوتی ہے اُس تو ملکِ عدم بھی سدھانا پڑتا ہے۔محکموں میں ایسے ایسے نابغہ روزگار پائے جاتے ہیں کہ فنِ بہانہ بازی بھی اُن پر ناز کرتا ہے ۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اُلٹا باس کے شدت جذبات سے ضبط کے سب بندھن ٹوٹ رہے ہوتے ہیں اوروہ سسکیاں لے لے کر رونے لگ جاتے ہیں۔

ماتحت اپنے باس کو آنسو پوچھنے کے لئے رومال پیش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے سر دل چھوٹا نہ کیجئے ۔اللہ کی رضا ہی یہی تھی۔ صبر کریں صبر۔باس کو صبر آبھی جائے تو دیر تک ہچکیاں لیتا رہتا ہے ۔چھٹی خور لوہے کو گرم دیکھ کر ضرب لگا دیتا ہے اوردو دن کی مزید چھٹی سامنے کردیتا ہے کہ سر میں صدمے کی شدت کی وجہ سے ابھی تک باہر نہیں آیا اس لئے کام کرنے کے قابل نہیں ہوں۔

صاحب تو پہلے ہی ہتھیار پھینکے بیٹھاہوتا ہے اب اُس میں مزید نہ کہنے کی سکت ہی نہیں رہتی۔یوں تو چھٹی کے لئے ایک سو ایک بہانے چلتے ہیں لیکن بیماری کا بہانہ زیادہ معروف ہے۔کچھ بیماریاں طویل دورانئے کی چھٹی کے لئے موزوں ہوتی ہیں جبکہ کچھ قلیل دورانئے کی چھٹی کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔طویل دورانئے کی چھٹی کے لئے جن امراض کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ قلیل دورانئے کی چھٹی کے لئے انتہائی ناموزوں ہوتی ہیں۔

مثلاَ ٹانگ کا ٹوٹنالمبی چھٹی کی مرض ہے جبکہ سر کا درد چھوٹی چھٹی کی بیماری ہے۔بعض بیماری پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن بعض ظاہر ہوتی ہیں۔ پیٹ کی درد کی پیمائش کے لئے کوئی پیمانہ نہیں لیکن آشوبِ چشم کے محض بہانے سے کوئی چھٹی نہیں مانگ سکتا۔ نزلہ زکام ایسی بہانہ ساز بیماری ہے کہ باس کی زبان پر تالہ لگا دیتی ہے۔حکیم تو قبض کو ام الامراض کہتے ہیں لیکن میرے خیال میں نزلہ زکام ام الامراض ہے اس لئے کہ یہ بہانی سازی کے لئے افضل ترین بیماری ہے۔

دو دفعہ نسوار سونگھ لینے سے زکام اتر آتا ہے اور چھٹی ملنے کے بعد جاتا رہتا ہے۔نزلے زکام کے ساتھ جسم کے ٹوٹنے کو جوڑ لیا جائے تو کوئی ہاتھ لگا کر نہیں دیکھتا کہ واقعی بخار ہو ا یا نہیں کیونکہ یہ بخار کی تیاری کی کیفیت ہوتی ہے۔جس طرح شاعر پیدائشی شاعر ہوتے ہیں اسی طرح بہانہ باز بھی پیدائشی بہانہ باز ہوتے ہیں ،یہ فن تربیت سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :