میاں؟ ۔۔۔مودی ؟۔۔۔ اور ہم ؟

ہفتہ 31 مئی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

محترم میاں محمد نواز شریف صاحب نے جب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی حامی بھری تو بہت سے دیگر لوگوں کی طرح میرا بھی ذاتی خیال تھا کہ انہیں اپنی جگہ کسی نمائندے کو بھیجنا چاہیے اس سے ان کا قد بھی بڑھتا اور تقریب میں شرکت بھی ہو جاتی ۔ جو لوگ یہ آپشن دے رہے تھے کہ میاں صاحب سرے سے تقریب میں شرکت ہی نہ کریں انہیں شاید یہ اندازہ نہیں کہ ایسا ہونا عملاً ممکن نہیں تھا کیوں کہ یہ دعوت خصوصی طور پر میاں صاحب کے لیے نہیں آئی تھی۔

بلکہ بھارت کی طرف سے تمام سارک ممالک کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس میں خصوصی طور پر پاکستان کے لیے کوئی سہولت نہیں رکھی گئی تھی۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے علاوہ پوری دنیا کی نظریں بھی میاں صاحب کے دورہء بھارت پر لگی ہوئی تھیں ۔

(جاری ہے)

کیوں کہ دونوں ممالک میں سیکریٹری لیول پر بھی رابطے ہوں تو پوری دنیا متوجہ ہو جاتی ہے ۔

یہ تو پھر بھی سربراہان مملکت کے بارے میں تھا۔
سب سے پہلے اگر جائزہ لیا جائے تو میاں صاحب کی بھارت یاترا کی ایک بڑے طبقے نے مخالفت کی۔ حالانکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی نے اس دورے کی مخالفت نہیں کی حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر نے تو اس کے حق میں بیان بھی دیا ۔ لیکن جس طرح کی اپوزیشن کا کردار پیپلز پارٹی ادا کر رہی ہے کچھ بعید نہیں کہ کل کو وہ اپنے بیان کو ہی بدل ڈالیں اور میاں صاحب کے لتے لینے لگیں۔

اپوزیشن تو ویسے بھی شاید اس فارمولے کو عملی شکل دے رہی ہے کہ " اب تمہاری باری"، اس لیے وہ خاموشی سے تماشا دیکھنے کو ہی اپوزیشن کا کردار سمجھ چکے ہیں۔ اور اپنی اگلی باری کے انتظار میں ہیں۔
اپوزیشن کے علاوہ سول سوسائٹی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں جن میں پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں شامل ہیں نے میاں صاحب کے اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی۔

لیکن حیران کن طور پر پاکستان تحریک انصاف جو ہمیشہ سے حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اس معاملے پرقدرے نرم رویہ ہی اپنائے ہوئے ہے۔ اب اس نرم لہجے کے مقاصد کیا ہیں یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ میاں صاحب کے دورہء بھارت پر خان صاحب کا رویہ قدرے نرم ہے۔
اب میاں صاحب نے جو اتنی مخالفت مول لے کے یہ دورہ ء کیا ہے اس کا ملکی سطح پر میا ں صاحب کو کوئی فائدہ بھی ہوا؟ تو ابھی تک تو اس کا جواب نفی میں ہی ہے۔

وہ اس لیے کہ دورے سے پہلے میاں صاحب نے یقینا فوج کو اعتماد میں لیا ہو گا لیکن اس دورے سے بظاہر ایسا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ جیسا موقف نریندر مودی کا رہا وہ پاکستان کی مسلح افواج کی پیشانی پر بل کا سبب تو بن سکتا ہے ان کی خوشی کا باعث نہیں ۔ کیوں کہ سب سے پہلی بات ہی مودی نے سرحد پار دہشتگردی سے شروع کی ۔واجپائی نے لاہور آ کر بھی یہی راگ الاپا اور گجرال صاحب نے بھی یہ تان نہ چھوڑی ، من موہن صاحب بھی نرمی ء طبیعیت کے باوجود یہ موقف نہ چھوڑ سکے تو پھر سخت گیر مودی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی ۔


اس دورے کا اگر سب سے بڑا نقصان دیکھا جائے تو وہ یہ ہوا کہ میاں صاحب نے سارا وقت سننے پر گزارا کچھ اپنی نہ سنا سکے۔ مودی نے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی پر کنٹرول کریں اس کے جواب میں میاں صاحب بلوچستان میں در اندازی کا ذکر بھی کر سکتے تھے۔ لیکن شاید ان پر اس دورے کا پریشر ہی اتنا تھا کہ وہ کچھ نہ کہہ سکے۔ حسبِ سابق جس بات کی امید کی جا رہی تھی مودی صاحب نے ممبئی حملوں کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔

اب کیامیاں صاحب ایسا کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں ۔ کیوں کہ ابھی تک ملزمان کا تعین بھی نہیں ہو پایا۔ اور جن کو بھارت ملزم گردانتا ہے وہ تو یہ کہتے ہیں کہ بھارت کے علاوہ جس ملک میں چاہیں وہ ٹرائل کے لیے تیار ہیں۔ لیکن عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس بات کے جواب میں بھی شاید میرے ناقص ذہن کے مطابق میاں صاحب یہ فرما سکتے تھے کہ آپ ہمیں مکمل ثبوت فراہم کریں ہم اپنے ملک میں مقدمہ چلائیں گے۔

لیکن میاں صاحب یہ بھی نہ کہہ سکے۔
اس دورے کے مقاصد کیا تھے اور کیا وہ مقاصد پورے ہوئے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن یہ بات ضرور کھل کے سامنے آئی ہے کہ اس دورے میں صرف بھارت نے ہمیں اپنے مطالبات سنائے اور کچھ نہیں۔ ہم شاید اپنا موقف بیان کرنے میں کلی طور پر ناکام رہے ہیں۔ حتیٰ کے کشمیر کے معاملے پر تو انہوں نے مذاکرات کم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

اس کے علاوہ تجارتی راہداری کو بھی دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے منسلک کر دیا ہے۔وہاں کے مقامی میڈیا کے مطابق بھارت نے پانچ مطالبات کیے۔۱۔پاکستان دہشت گرد حملوں کو روکے۔۲۔ممبئی ٹرائل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مکمل مدد کرے۔۳۔پاکستان ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کے خلاف کاروائی کرے۔۴۔ممبئی حملوں کے ملزموں کے وائس سیمپلز (گفتگو کا ریکارڈ) فراہم کرے۔

۵۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خطے کی سطح پر تعاون کرے۔ اور میاں صاحب 50 منٹ سے زائد جاری رہنے والی پوری ملاقات میں صرف پرانی رنجشیں مٹانے اور مشترکہ چیزیں بتانے پر زور دیتے رہے۔ اس پوری ملاقات میں میاں صاحب کے لیے نریندر مودی ایک روٹھی محبوبہ سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ جس کے چہرے پر" میں نہ مانوں" واضح پڑھا جا سکتا تھا۔مودی جارحانہ " باؤنسر " مارتے رہے۔

اور میاں صاحب " بیک فٹ " پر آ کر صرف "دفاعی شارٹ" کھیلتے رہے۔ اسی لیے میاں صاحب کوئی سکور نہ رکر سکے۔
مجھے پتا نہیں کیوں مودی کی انتخابات سے پہلے کی گئی تقاریر و ٹی وی مباحثے یاد ا ٓ رہے ہیں جن میں انہوں نے نواز شریف کو آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔ مسلم کش فسادات پر تو وہ شاید ابھی تک فخر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پروگرام میں مودی کا کہنا تھا کہ ہمیں وہ پڑوسی نہیں چاہیے جو ہمیں مار کر چلا جائے اور ہم خاموش بیٹھے رہیں( ان کا اشارہ کارگل کی طرف تھا شاید)۔

ہم خاموشی کے بجائے ان کا گھر تک پیچھا کریں گے۔ ان بیانات سے شایدان خوش فہموں کو مودی و بھارت کے خیالات سمجھنے میں کچھ مدد مل جائے جو آج تک کسی"آشا" کو تھامے بیٹھے ہیں۔ صرف " برابری" کی گردان کرنے سے بھارت کبھی بھی برابری کی سطح پر آ کر ہمارے ساتھ مذاکرت نہیں کرے گا۔ ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے جب ہم ایک مضبوط موقف اپناتے ہوئے بھارت کو یہ احساس دلائیں کہ امن کی خواہش کسی بھی صورت ہماری کمزوری نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :