قانونی چور دروازے ، بڑھتے ہوئے جرائم کی بڑی وجہ

جمعرات 29 مئی 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بد قسمتی سے ارض ِ پاک کے معر ض وجود میں آنے سے اب تک ایسے بہت سے معاملات ہیں جنہیں ہم منافقت کی کالی پٹی آنکھوں پر باندھ کے حل نہیں کررہے یا ہمیں ایسے لوگ میسر نہیں جوان معاملات جن سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور جو روز برز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے کو اپنی تما م تر علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاتے ہوئے مکمل بہترنہ سہی کچھ بہتر کر نے میں اپنا کر دار ادا ء کر سکیں۔

معاشرے کو زوال اور ظلم و نا انصافی کی طرف لیجانے والے ان معاملات میں ایک معاملہ قانون پر عملدر آمد میں کمزور لائحہ عمل اور پھر اس قانون میں ”سیاسی بندروں “ کی طرف سے رکھے گئے چور دروازوں کی وجہ سے اس کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہو تی جا رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قاتلوں کو بے نقاب کر نے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر نے سے بھی معذور رہے ہیں۔

(جاری ہے)

لیاقت علی خان سے حکیم سعید، جنرل ضیا ء الحق سے مصحف علی میر، بینظیر بھٹو اور ان جیسے دسیوں رہبران قوم کے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لانے بلکہ ان کی نشان دہی کر نے پر بھی ہم قانونی کمز وریوں کو بنیاد بنا کے ان کیسزکو قانون کے کوڑے دان کی نظر کئے ہو ئے ہیں۔ سفید چمڑی والوں کے قصیدے پڑھ کے انہیں خوش کر نے اور ان کی آشیر باد پر خود بھی کافی حد تک سفید چمڑی والے حسین حقانی کا میمو گیٹ سیکنڈل جس میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ قومی سلامتی کے اداروں کو ہدف تضحیک بنا نے، بد قماشوں کیایجنٹ اور ملک عزیز میں افرا تفری پھیلانے والے گروہ کے سر کر دہ رہنما ریمنڈ ڈیوس کی با عزت رہائی، این۔

ایف۔سی، جعلی ادویات ، ایفی ڈرین کوٹہ ،غریب مزدوروں کی بہتری کے لئے کام کرنے والے لولے لنگڑے ایج اولڈ بینیفیٹ انسٹی ٹیوشن کی قیمتی زمین کی کو ڑیوں کے عوض خریداری جیسے بیسیوں کیس انتظار کی سولی پر لٹکے قانون کی مضبوطی ،حکمرانی اور اس پر عملدرآمد کے فیصلے کے انتظارمیں ہیں۔
قارئین کرام !قانونی کمزوریوں اور اس میں موجود چور دروازوں سے جہاں ہمارے ”راہنما یان قوم “ پوری طرح مستفیذ ہو رہے ہیں وہاں موقع ہاتھ لگنے پر عام عوام بھی اس موقعے کا بھر پور فائدہ اٹھاتی ہوئے اسے بھر پور انجوائے کرتی ہے۔

چند روز قبل لاہور میں پیش آنے والے ایک غمناک سانحہ اس کا ثبوت ہے کہ جب گلے پر ڈور پھرنے سے ایک شخص جا ں بحق ہو گیا۔ حافظ راشد طارق شادی شدہ اور ایک بیٹی کا باپ تھا جو شیخوپورہ سے اپنے گھروالوں کا پیٹ پانے کے لئے دن بھر شدید محنت کیا کر تا تھا اور ساتھ ہی آنکھوں میں بڑا آدمی بننے کے خواب لئے اپنی پڑھائی کو بھی جاری رکھے ہوئے تھا اور کچھ ہی دنوں میں اس کے سالانہ امتحانات بھی تھے۔


اس موقع پر بھی اپنی قانونی کمزوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے سیا سی آقاؤں نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی دو ایس۔ایچ،اوز، ایک ڈی۔ایس ۔پی کو معطل اور ایک ایس۔پی کو او۔ایس ۔ڈی بناتے ہوئے ” ڈنگ ٹپاؤ“ والی پالیسی پر عملدا ٓمد کرتے ،پولیس اہلکاروں کو اس کا ذمہ دار ٹہراتے اور خود بر ی الذمہ ہونے کے جس کلیے پر عمل پیرا ہیں وہ پوری دنیا میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔


قارئین کرام !کچھ روز کی تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس جیسے حادثات میں بھی قانون کی کمزوری سب سے بڑی اہم وجہ ہے۔پتنگ بازی پر پولیس فلائنگ کائٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرتی ہے اور جس کی ضمانت اگلے ہی روز ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان حادثات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو تا دکھا ئی دے رہا ہے ۔ہو نا تو یہ چاہئے کہ یہ قانون اتنا سخت ہو کہ پتنگ بازی میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے انہیں کم از کم دس روزقید با مشقت کی سزا دی جائے ۔

مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہاں یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ کئی سال گذر جانے کے بعد بھی ہم قانون کی پاسداری نہ کر سکے۔ معلوم ہو تا ہے کہ پولیس، سیاستدان اور قانون دان یہ سب اپنی اپنی مرضی کے مطابق قانون کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے معاشرہ ناانصافی کی انتہا کو چھو رہاہے۔روز ہی ایسے کئی کیس نظروں سے گذرتے ہیں جس میں قتل،ڈکیتی، چوری، فراڈ اور ان جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کی 2،یوم میں ہی ضمانت ہو جاتی ہے اور اسی زعم میں مبتلا ہو کے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے کے مصداق معاشرے میں کھلے عام بلکہ ڈھٹا ئی کے ساتھ ان جیسی وارداتوں کے عادی بن چکے ہوتے ہیں۔


قارئین محترم! اگر ہم معاشرے کو ایک فلاحی ریاست بنا نے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے لازم ہے کہ سب سے پہلے ہمیں قانون کی حکمرانی، اس کی پاسداری اور اس میں موجود چور دروازوں کو بند کر کے غریب،امیر، شریف،بد معاش، سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے یکسا ں قانون بنانا ہو گا اور اس پر عملدرا ٓمد سے ہی ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں فلاحی معاشرے کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :