کیاکھیل ختم ہونے کو ہے؟

جمعرات 29 مئی 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد


اور میڈیا کسی بھی قوم کے کان اور آنکھیں ہوتا ہے۔
مگرتعصب اور بدنیتی کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔اور اگر آپ کے کان اور آنکھیں ہی متعصب ہوجائیں تو آپ کی زبان سے کبھی کوئی غیر جانبدارانہ بات نہیں نکل پائے گی۔ پاکستان میں آج کل چار بڑے ٹی وی چینل مکمل طور پر تعصب کا شکار ہیں۔حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کی خبر کا اعتبار تو ختم ہوتا جارہا ہے مگر اب جو تصاویر یعنی ویڈیوز چلائی جاتی ہیں وہ بھی یک طرفہ اور ادھورا سچ ہوتا ہے۔


ایک ٹی وی چینل دیکھیں تو وہی خبر اور ویڈیو کچھ اور بتا رہی ہوتی ہے اور باقی تین بڑے چینل کی اسکرین پر نظر ڈالیں تواسی واقعے کی نیوز اور فوٹیج کچھ اور کہانی سنا رہی ہوتی ہے۔اور اب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیمرے دکھا رہے ہوں کہ سامنے کھڑی شخصیت مرد ہے مگر ٹی وی کی خبر بتارہی ہو کہ نہیں یہ عورت ہے۔

(جاری ہے)

یہ معاملہ شروع تو کافی عرصے سے تھا مگر کھل کر دروغ گوئی اس وقت سامنے آئی جب لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے وزیراعلی پنجاب شہبازشریف پر جوتا اچھال دیا، اب ایک ٹی وی چینل اس واقعے کو ویڈیو کے ساتھ دکھا رہا ہے کہ صحافی نے سوال کا جواب نہ دینے پر غصے میں یہ سب کیامگر اسی ٹی وی پر خبر کے ساتھ جو تصویر نظر آرہی ہے اس میں جوتا اچھالنے والے کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ ہے جس پر لکھا ہے کہ’ حامد میر پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرو‘۔

پھریہ سب کیوں کیا گیا؟۔ صرف اس وجہ سے کہ اس چینل کو حامد میر یا اس کے چینل سے بغض ہے اور دوسری جانب حکومت پر غصہ نکالنا ہے مگر عقل کے اندھوں کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اپنی فوٹیج میں ہی اس جھوٹ کو چھپا لیتے۔کیا یہ بے وقوف سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف ان کا ہی چینل دیکھا جاتا ہے، دیگر تمام چینل واقعے کو اسی طرح رپورٹ کرتے رہے جیسا کہ وہ ہوا تھا،جوتا اچھالنے والا پلے کارڈ سمیت کہہ رہا ہے کہ حامد میر پر حملے کی مذمت کرتاہوں۔


آئیے، ایک اور دلچسپ واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل خبر نشر کررہاہے کہ فلاں ٹی وی( پڑھنے والے سیانے ہیں سمجھتے ہونگے کہ کس کی بات ہورہی ہے)کے رپورٹر نے ریلی پر حملہ کردیا اور ایک نوجوان کو ماراپیٹا۔ خبر یقینا زبردست ہے کہ ایک رپورٹر اس قدر سپرمین ہے کہ ریلی ( شرکاء کی تعداد جتنی بھی ہو، ایک رپورٹر سے تو زیادہ ہوگی)پر حملہ کررہا ہے اور ایک نوجوان کو زخمی کرکے بچ بھی نکلا ہے۔

تصویر بھی چلائی جارہی ہے کہ ایک شخص کسی آدمی کو تھپڑ رسید کررہاہے۔دوسرے چینل نے اس خبر کو اس طرح چلایا کہ اپنی گاڑی پر ایک شخص کو پتھر برساتے بھی دکھایا۔
ہر چیز کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے چینل مالکان اور ان کے پیچھے موجو قوتوں نے حالات کو انتہائی سنگین نہج پر پہنچا دیا ہے۔اب ایک ٹی وی چینل نے اپنے خلاف کارروائی پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو دوسرے چینل نے اس معاملے کو ایسا رنگ دے دیا ہے کہ سارے چینل اور ملک کا آزاد میڈیا ایک خواب وخیال بن جائے گا۔

عدالت عظمی کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی ذات کو براہ راست تنقید کا ہدف بنایا جارہاہے۔کہاگیا کہ جسٹس خواجہ کی جیو ٹی وی کے مالک میر شکیل سے رشتہ داری ہے۔ اور اسی وجہ مقدمہ اس کے سامنے لگایا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے کسی بھی بنچ اور جج کے سامنے کوئی بھی درخواست سماعت کیلئے آسکتی ہے،سپریم کورٹ میں طریقہ کار ہے کہ یہ چیف جسٹس طے کرتا ہے، کس درخواست کو کس بنچ کے سامنے بھیجنا ہے، چیف جسٹس تصدق جیلانی کینیڈا کے دورے پر تھے۔

جسٹس ناصرالملک قائم مقام چیف جسٹس بنے۔ اور یہ وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیراعظم گیلانی کو سزا سنائی تھی۔
جیو ٹی وی کی درخواست اگر جسٹس جواد ایس خواجہ کے سامنے آئی تو اس میں کوئی غلط بات کیاہے؟۔ اگر وہ فیصلہ ناانصافی پر دیں تو پھر پوچھا جاسکتاہے۔ اس درخواست میں فریق بھی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور معاملہ ہے کہ جیو کی نشریات کیبل آپریٹرز نے بلاوجہ بند کی ہوئی ہیں۔

مقدمے کی سماعت سے ایک رات قبل جج کے بارے میں غلاظت اگلی گئی۔ کیاکسی جج کے بھائی یا بہن کی کہیں شادی نہیں ہوسکتی ؟۔جسٹس جواد نے کہہ دیا کہ ان کی میر شکیل سے پندرہ سے بیس برس ہوگئے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ درویش منش جج بیس برس سے ٹی وی نہیں دیکھ رہا، مگرالزام لگانے والوں کا کردار سب کے سامنے ہے۔ ٹی وی پر گالیاں دینے سے جی نہیں بھرا تو ان کے ’اسلام‘ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ گیا، 23مئی کی صبح اسلام آباد کی شاہراہوں پر لگے کھمبوں کے ساتھ ’فرزندان اسلام‘ لٹکتے نظر آئے جو جسٹس جواد ایس خواجہ کو اپنے بینرز کے ذریعے بے عزت کررہے تھے۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو سے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا تو وہ بے خبر نکلے، ہرچند کا باقی پورا شہر باخبر تھا۔(دلچسپ بات یہ کہ شہر میں کوئی بھی بینر وفاقی ترقیاتی ادارے کی اجازت کے بغیر نہیں لگ سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قانونی کارروائی بعد میں ہوتی ہے پہلے بینر اتاراجاتا ہے،مگر اس کیس میں بینرز تین دن تک لٹکتے رہے)۔


یہ سب کیاہے اور کیوں ہے؟۔ ایک تصویر کے کئی رخ ہیں۔ناکامی تو واضح طورپرپاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی ہے مگر کیادرپردہ قوتیں ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہ رہی ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ کے ایک اہم جج ہیں اور انہوں نے مستقبل میں چیف جسٹس بھی بنناہے۔ جب اس طرح کے غیر معمولی واقعات ہونگے تو پھر کئی کہانیاں بنیں گی، یہ بھی کہاجائے گا کہ جسٹس جوادنے لاپتہ افراد کے مقدمے میں وزیردفاع کو فوج کے ایک نائب صوبیدار کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیاتھا اور پھر ایف آئی آر بھی ہوگئی۔

کہاجارہاہے کہ وزیر دفاع آج کل عبرت کی مثال بنائے جارہے ہیں۔ معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔جیو نیوز کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور اے آر وائے کے سپریم کورٹ کے جج سے متعلق پروگرام کو بالآخر ساتھ لاکر کہا جاسکتاہے کہ یہاں تو کارروائی اور وہاں خاموشی؟۔ کھیلنے والے بہت شاطر ہیں شاید۔ مگر بہت سی چیزیں وہ بھول گئے ہیں۔ اور بات جب آئین و قانون کی آئے گی تو وہ اس میں کبھی جیت نہیں سکتے۔


جیو نیوز کی حامد میر پر حملے کے بعد کی نشریات اور اے آروائے نیوز کی جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف پروگرام، دونوں کو الگ الگ طورپر لیا جائے گا۔ڈی جی آئی ایس آئی پر ایک قاتلانہ حملے کا الزام زخمی صحافی کے بھائی نے لگایا تھا، اور حامد میر نے پہلے سے بیان بھی ریکارڈ کررکھاتھا۔جسٹس جواد ایس خواجہ پر ایسا کوئی الزام نہیں، ان کی بھابی اگر میرشکیل کی بہن ہیں تو یہ کوئی جرم نہیں۔

ان کی عدالت نے جیو نیوزکے حق میں کوئی غیر معمولی خصوصی رعایت تو کیا، سرے سے کوئی فیصلہ ہی نہیں دیا۔ابھی درخواست کی سماعت بھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ ان پر الزامات لگائے گئے۔اور یہ درخواست انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے بنچ کے سامنے نہیں رکھی تھی۔اگر کسی ٹی وی چینل کامالک یاکوئی اینکر یہ چاہے کہ حکومت اور عدلیہ کو اپنی مرضی سے چلائے گا تو یہ اس کی بھول ہے، خواہ اس کے پیچھے کتنی بھی بڑی قوت کیوں نہ ہو۔
سمجھ نہیں آتی خود کو طاقتور سمجھنے والے پرویز مشرف کے انجام سے کیوں سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں جو آج کل ملک سے بھاگنے کے چکر میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :