خوشی کی تلاش

منگل 27 مئی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

میں اپنے صحافی دوست محمد اقبال قریشی سے جب بھی ملتا ہوں تو حالات حاضرہ اور بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار پر ہلکی پھلکی گفتگو ضرور ہوتی ہے ۔اردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھنے والے اقبال قریشی کا خاصا ہے کہ جب بھی کوئی اچھی کتاب یا پھر فلم نظر سے گزرے تو اپنے دوستوں سے ضرور شیئر کرتے ہیں۔ یہ کوئی تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ اقبال نے ہمارے معاشرے میں بتدریج سرایت کر جانے والی مایوسی اور بددلی کی لہر پر بات کرتے ہوئے مجھ سے ایک سوال کر دیا:
”خالد بھائی کیا آپ نے انگریزی فلم Pursuit of Happyness دیکھی ہے ۔

“ میں نے کہا نہیں تو وہ بولا آپ یہ فلم ضرور دیکھیں۔ میں نے کل رات ہی یہ فلم دیکھی ہے اور اس فلم نے مجھے باقاعدہ رُلا دیا۔ میں نے پوچھا فلم کا موضوع کیا ہے اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے خود فلم دیکھیں۔

(جاری ہے)

میں نے فلم دیکھنے کا وعدہ کر لیا لیکن کئی روز تک فلم نہ دیکھ سکا ۔ میں جب بھی تیمور سے ملتا وہ فلم سے متعلق استفسار کرتا ۔

بالآخر میں نے اس اتوار کویہ فلم دیکھی لیکن میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے بلکہ میرے دل میں خوشی، فخر اور اعتماد کے جذبات پیدا ہوئے۔ اس فلم کی کہانی ، مکالموں، اداکاری اور ڈائریکشن نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ فلم کی کہانی اس مہارت سے تیار کی گئی ہے کہ فلم بین کہیں بھی بوریت کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ فلم کرس گارڈنر نامی اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے وابستہ شخص کی معاشی ترقی کے لیے جدوجہد کے حالات وواقعات پر مبنی ہے۔

معروف امریکی کاروباری شخصیت کرس گارڈنرنے کاروباری ترقی کے منازل طے کرنے کے بعد اپنی جہد مسلسل کے تجربات کو لوگوں کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے لوگوں کو متحرک ، فعال اور پرامید بنانے کے لیے لیکچرز کا آغاز کیا ۔ ایک خیال اکثر اس کے ذہن میں چمکتا رہتا تھا کہ اس کے حالات زندگی ہالی وڈ کی کامیاب فلم کا موضوع بن سکتے ہیں لیکن اس نے اس طرف آنے سے پہلے اپنی یادداشتیں Pursuit of Happynessکے عنوان سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ کتاب مئی 2006ء میں شائع ہوئی ۔ چند دنوں میں ہی اس کتاب کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے۔ کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کرس گارڈنرنے فلم کے پراجیکٹ کو جلد پایا تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ فلم میں کرس گارڈنر کا کردار معروف اداکار ول اسمتھ نے ادا کیا جو اس سے قبل معروف امریکی باکسر محمد علی کے حالاتِ زندگی پر بننے والی فلم میں بھی مرکزی کردار ادا کر چکا تھا۔


دسمبر 2006ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے اس وقت ریلیز ہونے والی ان تمام فلموں کو مات دے دی جن کی تشہیربڑے اہتمام سے کی گئی تھی۔ ریلیز سے آج تک یہ فلم شائقین کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔ اس فلم کی کامیابی کی بنیاد کرس گارڈنر کی سچی کہانی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ عزم مصمم اور جہد مسلسل انسان کو بالآخر مایوسی کے اندھیرے گڑھوں سے نکال لاتی ہے۔

دنیا میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کہ لوگ غربت کے باوجود اپنی خود داری، عزم، ہمت اور حوصلے کی بدولت بڑا نام کماتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام امریکی سیاہ فام کرس گارڈنر کا بھی ہے جو اپنے ذاتی ومعاشی مسائل کے باوجود مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے بالآخر کامیاب ٹھہرتاہے ۔اس دوران اس کی نجی زندگی تباہی کے دہانے پر آپہنچتی ہے اور وہ اپنا گھر چھوڑ کرحقیقتاً سڑک پر آجاتا ہے۔

اس دوران اس کا چھوٹا بیٹا بھی ان کا ہم رکاب ہوتا ہے۔اپنی شبانہ روز محنت کے بل بوتے پر کرس ایک کامیاب اسٹاک ایکسچینج بروکر بن کر باعزت روزگار کمانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
1983 سے 1987تک اس نے Bear Stearns & Co میں بحیثیت اسٹاک بروکر سب سے زیادہ منافع حاصل کیا۔1987 میں انھوں نے شکاگو میں اپنی اسٹاک بروکر فرم Gardner Richکی محض $10,000سے داغ بیل ڈالی۔یہیں سے ان کی انفرادی کی کامیابیوں کا حقیقی سفر شروع ہوا اور ان کی فرم دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کی نمبر ون فرمز میں شمار ہونے لگی۔

کرس نے بے گھر افرادفلاح و بہبود کے لیے بے تحاشا کام کیا ہے اور اس ضمن میں رنگ و نسل کا امتیاز نہیں برتا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لیکچرز ، فورمز اور میڈیا پروجیکٹس کے ذریعے لوگوں کی ذہنی آبیاری کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔‘پرسوٹ آف ہیپی نیس’ کرس گارڈنر کی اسی جدوجہد کی داستان ہے۔
1981ء میں کرس گارڈنر (ول اسمتھ) اپنی تمام بچت اوسٹیو نیشنل بون ڈینسٹی ا سکینرز میں سرمایہ کاری پر لگا دیتا ہے، یہ پورٹ ایبل ایکس رے آلہ مہنگا ضرور تھا لیکن روایتی ایکس رے کے مقابلے میں زیادہ ریزولیوشن کا حامل تھا۔

یہ سرمایہ کاری خاندان کے لیے ایک سفید ہاتھی بن جاتی ہے اور بالآخر مالی مسائل سے تنگ کرس کی ہلیہ لنڈا (تھانڈی نیوٹن) اسے چھوڑجاتی ہے اور بیٹا کرسٹوفر (جیڈن اسمتھ) بھی اپنے شوہر کے حوالے کر جاتی ہے۔معاشی تنگی سے نکلنے کے تگ و دو کے دوران کرس کی ملاقات ایک اسٹا ک بروکریج ٹریننگ کے ادارے کے مینیجرڈین وٹر سے ہوتی ہے جو اس وقت ذہنی آزمایش کا ایک پزل ، ریوبکس کیوب ( Rubiks Cube) حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے۔

کرس اس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن ڈین پزل حل کرنے میں اس قدر منہمک ہوتا ہے کہ اس کی بات پر مناسب دھیان نہیں دے پاتا۔کرس اس سے پزل لے کر بہت ہی کم وقت میں حل کر دیتا ہے۔ڈین اُس کی اِس صلاحیت سے بہت متاثر ہوتا ہے اور یوں وہ دونوں دوست بن جاتے ہیں۔ ڈین سے بننے والا تعلق اسے اسٹاک بروکر کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن بعد ازاں اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے اسے کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی بلکہ کام سیکھنے کے بعد 20 میں سے صرف ایک شخص کا انتخاب ہوگا جسے ادارے میں ملازمت فراہم کی جائے گی۔

مرتا کیا نہ کرتا، مشینوں کی فروخت سے کوئی آمدنی متوقع نہیں تھی، اس لیے اس نے مذکورہ ادارے میں شمولیت اختیار کر لی۔اس کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے جاتے ہیں۔ مالک مکان کا کرایہ ادا نہ کر پانے کی وجہ سے اسے گھر چھوڑنا پڑتا ہے، جو تھوڑی بہت بچت اس نے کر رکھی تھی وہ پارکنگ کے جرمانوں اور حکومتی محصولات کی نذر ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں بچے کو اسکول سے لانے اور لے جانے، پھر اسٹاک بروکر میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا، درمیانی وقفے میں اپنی ایکسرے مشین بیچنا، پھر شام کو بچے کو واپس لینے جانا اور خیراتی ادارے میں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر قطار میں لگ کر رات گزارنے کے لیے جگہ حاصل کرنے کی کوششوں میں جتا کرس گارڈنر اس کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتا۔

ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ اسے ریلوے اسٹیشن کے غسل خانے میں اپنے بیٹے کے ساتھ رات گزارنی پڑتی ہے۔اس تمام صورتحال میں کہ جب اسٹاک بروکر کمپنی میں اس کے 19 مقابل ملازمین جو ایک ملازمت کے حصول کے لیے کام کر رہے تھے، کرس کو ان سے بھی سخت مسابقت کا سامنا تھا۔ ان تمام عوامل کے باوجود اپنے کام کو منظم کرنے کے لیے کرس نے کئی حکمت عملیاں مرتب کیں اور صحیح معنوں میں خود کو ایک مردِ بحران ثابت کیا۔

بالآخر کرس ان تمام مصیبتوں سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اسٹاک بروکر کمپنی میں اسے ملازمت مل جاتی ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ کرس نے بعد ازاں اپنی بروکریج فرم قائم کی۔
فلم ناقدین نے اس فلم کو بہت سراہا خصوصا ول اسمتھ کی شاندار اداکاری پر آسکر ایوارڈ برائے بہترین اداکار کے لیے بھی نامزد کیا گیا تاہم وہ یہ اعزاز حاصل نہ کر سکے۔

بہترین اداکار کے گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے بھی ول اسمتھ کو نامزد کیا گیا۔فلم آغاز ہی سے باکس آفس پر کامیاب رہی اور پہلے ہی اختتامی ہفتہ پر 27 ملین ڈالرز کی آمدنی کے ساتھ اول نمبر پر آئی۔ فلم نے 30 کروڑ 42 لاکھ امریکی ڈالرز سے زائد کی کل آمدنی حاصل کی۔ ول اسمتھ کی لاجواب اداکاری نے فلم میں گویا جان ڈال دی۔ معاش کی تنگی انسان کی زندگی کو کس قدر تلخ بناسکتی ہے اور اس تلخ زندگی کو جھیلنے اور اس سے جنگ کرنے کے لیے کتنا حوصلہ درکار ہوتا ہے،فلم دیکھتے ہوئے جا بجا اس امر کا احساس ہوتا ہے۔


کرس گارڈنر نے اپنی آپ بیتی اور فلم کے عنوان میں Happynessکے ہجے غلط کیوں اختیار کیے اس کا جواب بہت دلچسپ ہے۔ کرس اپنے بیٹے کرسٹوفر کو جس ڈے کئیر سنٹر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کی دیوار پر یہ تحریر درج ہوتی ہےHappyness Day Care Centerکرس ڈے کئیر سنٹر کی چینی نگران سے happinessکے ہجے غلط لکھنے کی وجہ دریافت کرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہے کہ چھوٹے بچوں نے اپنے فہم کے مطابق یہ ہجے لکھے ہیں جنھیں اس نے درست کرنے کے بجائے یوں ہی رہنے دیا ہے۔

جب کرس اس امر پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ اس طرح بچے غلط اسپیلنگ بھی تو سیکھ سکتے ہیں؟تو چینی نگران بڑا خوبصورت جواب دیتی ہے،کہ ہر انسان کا خوشی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے ،اگر کسی کو ایک چیز سے خوشی ملتی ہے تو ضروری نہیں سب کو اس چیز سے خوشی ملے،بچوں کی خوشی اگر غلط ہجوں میں ہی مضمر ہے تو یوں ہی سہی۔کرس اس جواب سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ بے پناہ دولت و عزت مل جانے پر جب اپنی آپ بیتی تحریر کرتا ہے تو happynessکے ان غلط ہجوں کوہی کتاب کا عنوان بنا لیا ۔


یہ فلم لوگوں کو اپنی ذات میں موجود خوبیوں کا ادراک کرنے اور زندگی کے لیے جہد مسلسل کا درس دیتی ہے۔ دراصل کامیابی اور کامرانی کا انحصار جذبے اورتمنا کی بلندی پر ہوتا ہے۔ جب انسان کے دل میں منزل کو پا لینے کا یقین پختہ ہو جاتا ہے تو پھر راستے کی ہر مشکل دور ہوجاتی ہے اس فلم کو دیکھ کر مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ میرے وطن میں بھی بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے کرس گارڈنر سے کہیں برتر حالات میں زندگی کا آغاز کیا اور جہد مسلسل سے کامیابی و کامرانی کی منزل حاصل کی اور مجھے فخر اور اعتماد اس بات پر ہے کہ میں سینکڑوں ایسے پرعزم، باہمت اور زندہ تمنا سے لبریزنوجوانوں کی سچی کہانیوں سے آگاہ ہوں جنہوں نے اپنی جہد مسلسل سے قابل رشک مثالیں قائم کی ہیں اور پاکستانی معاشرے کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا ہے۔

انشاء الله آئندہ کالم میں ان سینکڑوں باہمت اور باصلاحیت نوجوانوں میں سے کسی ایک کی کہانی آپ کو سناؤں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :