اسلام اور جمہوریت

منگل 27 مئی 2014

Muhammad Younas Qasmi

محمد یونس قاسمی

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز(PIPS) پاکستان میں گزشتہ چار سال سے پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کے حل کے لیے علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز کے ساتھ مشاورت میں سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ بین المسالک اور بین المذاہب مکالمے کے علاوہ علمائے کرام کے دیگر طبقات کے ساتھ مکالمے وروابط کو بھی فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے طلباء کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد اور مدارس ودیگر جامعات کے طلباء کے مابین مکالمہ اور روابط بھی PIPS کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں PIPS نے ”آئین پاکستان اور جمہوریت… علمائے کرام کی نظر میں“کے عنوان سے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک دلچسپ مکالمہ ہوا، جس میں مجھے بھی شریک ہونے اور اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔

(جاری ہے)


ہمارے ہاں جب جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جمہوریت اسلام کے دیے ہوئے تصور ریاست سے مختلف کوئی نظام ہے۔

شایداسی وجہ سے اکثر وبیشتر اسلام کا تقابل جمہوریت کے ساتھ کیا جاتا ہے، کیونکہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ خلافت اور جمہوریت دو بالکل مختلف تصورات اور دومختلف فکروں کے داعی ہیں۔ میری ناقص رائے میں اسلام اور جمہوریت کا کوئی تقابل نہیں بنتا، کیونکہ اسلام کا تقابل عیسائیت، یہودیت، ہندومت اور بدھ مت سے تو کرسکتے ہیں، جمہوریت سے نہیں، کیوں کہ اسلام ایک دین و مذہب ہے، اس کا تقابل کسی اور دین و مذہب کے ساتھ ہی ممکن ہے، جبکہ جمہوریت کوئی مذہب یا دین نہیں، بلکہ محض حکومت چلانے کا ایک طریقہ کار ہے۔


اگر یہ مان لیا جائے کہ اسلام کا تصور ریاست جمہوریت کے تصور ریاست سے بالکل مختلف ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں پاکستان جیسے ملک میں خلافت کا نظام نافذ کرنے کے لیے ایک پورے نظام کو لپیٹنا پڑے گا۔ ایک نظام کو گرا کر دوسرے نظام کو نافذ کرنے کے عمل کو دنیا کی تمام سیاسی لغات میں انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے تصور ریاست یعنی نظام خلافت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں تو یہاں جمہوریت کا تختہ الٹنا پڑے گا۔

اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس انقلاب کا متحمل ہوسکتا ہے؟پاکستان جن معاشی ومعاشرتی مسائل سے دوچار ہے، یہاں تقسیم درتقسیم کی جو صورت حال ہے، جس طبقاتی نظام کا ہمیں سامناہے، جہاں فرقہ ورانہ بنیادوں پر سیاسی تقسیم ہے اور لسانیت، صوبائیت وعصبیت کی بنیاد پر حکومتیں بنتی ہیں۔ ایسے حالات سے گزرنے والے ملک میں انقلاب کی باتوں سے خون خرابہ تو ہوسکتا ہے کسی نظام کو الٹا نہیں جاسکتا۔


میرے خیال میں اس بات کا بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ اور بڑے شرح صدر کے ساتھ اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ کیا واقعی جمہوریت خلافت سے متصادم ہے اور ہے تو کس قدر؟ یہ بات جو بڑی شدومد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خلافت ایک شورائی نظام ہے۔ میرے خیال میں جمہوریت بھی شورائی نظام ہے اور یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر آدمی کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ وہ مجلس شوریٰ کے لیے اپنے نمایندے کا انتخاب کرے۔

ان نمائندوں سے بننے والی مجلس شوریٰ کو جوسب سے پہلے ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ ریاست میں اپنے امیر (سربراہ حکومت)کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ خلافت نے جو طریق ہائے انتخاب متعارف کروائے ہیں، ان میں سے قریب قریب ایک یہ بھی ہے۔ تصویر کے دونوں رخ ایک جیسے ہیں فرق صرف اصطلاحات کا ہے۔ ہمارے ہاں جو ریاستی سطح پر خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کی ذمہ دارجمہوریت نہیں بلکہ اس کا ذمے دار ہمارا معاشرہ ہے جو نہ صرف یہ کہ کرپٹ ہے بلکہ فکری اور اخلاقی انحطاط کا بھی شکار ہے۔

ورنہ یہی جمہوریت فرانس، برطانیہ اور امریکا میں بھی تو ہے جہاں بہت ساری چیزوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس قدر نظری و عملی خرابیاں نہیں جس قدر ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں۔
میرے ناقص خیال میں ہمیں جمہوریت کو بالکلیہ رد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ میرا یقین ہے کہ جمہوریت کی بحث اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتی جب تک خلافت راشدہ کا ذکر نہ کیا جائے۔

سولہویں اور اٹھارہویں صدی میں جمہوریت کے علم برداروں نے شہریوں کو جو حقوق فراہم کیے، دین اسلام ان سے کئی صدیاں قبل وہ حقوق فراہم کرچکا تھا۔ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم  یہ حقوق اپنی ریاست کے شہریوں کو انقلاب فرانس سے صدیاں پیشتر ہی دے چکے تھے۔ مغرب نے اٹھارہویں صدی میں یہ چاہا کہ قانون کی نظر میں بادشاہ اور شہری کا درجہ برابر ہو، جبکہ اس کا عملی مظاہرہ صدیوں پہلے اسلام کرچکا تھا۔

اہل مغرب نے حکمرانوں کے احتساب، آزادی اظہار اور عدلیہ کی آزادی کی تحریکات سولہویں صدی میں شروع کیں جبکہ آج سے چودہ سوسال پہلے خلافت راشدہ کے دور میں یہ سب کچھ موجود تھا، عدلیہ آزاد تھی، جس کے سامنے خلیفہ وقت بھی عام شہری کی طرح پیش ہونے کا پابند تھا، حکمرانوں کا احتساب بھری محفل اور برسرمنبر کیا جاتا تھا، آزادی اظہار کی اتنی اجازت تھی کہ خود حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام  مشورہ اور حکم میں فرق معلوم کرتے تھے اور مشورہ ہونے کی صورت میں عمل نہ کرنے میں آزاد ہوتے تھے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کو جمہوریت اور جمہور کے حقوق کا خیال اسلام کے بعد ہی آیا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت ہماری ہی پراپرٹی ہے، جس پر آج مغرب نے قبضہ کر رکھا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :