وکلاء تحریک کا ڈراپ سین

اتوار 25 مئی 2014

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

ماڈل تھانہ سٹی ہری پور(ہزارہ) کے ایس ایچ او ساجد فاروق کی مبینہ پولیس گردی اور ڈسٹرکٹ بار ہری پور کے ممبر اویس سرور ایڈووکیٹ پر مبینہ تشدد کے خلاف پورے خیبرپختونخوا میں پھیلنے والی وکلاء تحریک قریبا ڈیڑھ ہفتہ جاری رہنے کے بعد بالآخر 22مئی کوجمعرات کے روز ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد ہفتہ 24مئی کا مجوزہ سخت احتجاجی مظاہرہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی ساکت ہو کررہ گیاہے اگر وکلاء احتجاجی تحریک ختم کرنے کا اعلان نہ کیا جاتا تو مذکورہ مجوزہ مظاہرے بارے اطلاعات کچھ زیادہ خوش کن نہیں تھیں اوراس میں زیادہ سختی کے عنصر اور متوقع بد امنی کا بھی قوی خدشہ تھا کیونکہ مسلسل کئی روز کی ہڑتال اور متعلقہ اعلیٰ و ذمہ دار حکام کے نوٹس میں لانے ،مکمل عدالتی بائیکاٹ اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کے باوجود ذمہ داروں کی بے حسی نے روز بروز تپتی گرمی کے ساتھ وکلاء کے جذبات میں بھی زیادہ گرمی پیداکر دی تھی اس لیے قبل اس کے کہ وکلاء کے اندر پکنے والا لاوا پھٹتا اسے پھٹنے سے پہلے ہی سرد کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ لاوا سرد کیسے ہو گیا؟اس کی توجیہہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس ایس ایچ او کی مبینہ پولیس گردی کے خلاف ہری پور بار نے ہڑتال کی کال دی اورگزشتہ کئی روز سے اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رکھی تھی اس کی مبینہ معطلی عمل میں لائی گئی ہے جس پر صدر بار عبد الرزاق چغتائی نے جمعرات کے روزبار کی جنرل باڈی کا اجلاس طلب کر کے مذکورہ بنیاد پر سات روزہ وکلاء احتجاجی تحریک ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا جس سے 24مئی کا مجوزہ احتجاج بھی رونما ہونے سے پہلے ہی ہواہو گیا لیکن غور طلب اور توجہ طلب نقطہ یہ ہے کہ ہری پور بار کی طرف سے 13مئی کو ڈسٹرکٹ بار کی جنرل باڈی کے اجلاس میں جو متفقہ قرارداد پیش کی گئی تھی اس کے مطابق وکیل پر تشدد اور پولیس گردی کے مرتکب ایس ایچ او سٹی ساجد فاروق کی معطلی،تبادلے یا برطرفی تک احتجاجی تحریک جاری رہنا تھی مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ نہ تو باقاعدہ طور پر ایس ایچ او کی معطلی ہوئی،نہ تبادلہ اور نہ ہی برطرفی عمل میں لائی گئی مگر وکلاء تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیاگیا ہے آخرکس بنیاد پر؟بتایا تو یہ جا رہا ہے کہ ساجد فاروق کو چند روزہ رخصت پر بھیج دیا گیا ہے؟اگر ساجد رخصت پر ہے تو پھر بھی تو وکلاء کی قرارداد کے تینوں نقاط ،مطالبات یا شرائط میں سے تو کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا پھر ہڑتال کے خاتمے کا اعلان چہ معنی دارد؟وکلاء احتجاجی تحریک کا دوسرا پہلو یہ کہ مذکورہ قرارداد میں ہی وکیل کے ساتھ پیش آنے والے مبینہ پولیس گردی کے مذکورہ واقعے کی تحقیقات کسی بھی غیر جانبدارایجنسی سے کروانے کی شرط عائد یا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم ایس ایس پی تفتیش ہری پور رسول شاہ اور ان کی سربراہی میں تشکیل دی گئی انکوائری ٹیم میں بار کے دو سابق صدور کے علاوہ دوپولیس افسران کی شمولیت سے کیا وکلاء کی قرارداد پر ایک بار پھر زد نہیں پڑ گئی کہ بہرحال یہ تحقیقات پھر بھی توکسی غیر جانبدار ایجنسی سے نہیں کروائی جا رہیں؟اگر وکلاء قرارداد میں شامل یہ مطالبہ بھی غیر تسلیم ہے تو پھر بھی ہڑتال کے خاتمہ کا اعلان کم از کم عام آدمی کی پہنچ سے باہر البتہ ہو سکتا ہے کہ فاضل وکلاء راہنماؤں کے پاس اس کی کوئی دقیق دلیل موجود ہو جس کی بنیاد پر انھوں نے ہڑتال ختم کرنے کا یہ فیصلہ کیاہولیکن اس کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جس روز وکلاء سڑکوں پر نکلے اس روز کافی دیر روڈ بلاک رہااور عوام کے ساتھ ساتھ خود وکلاء اور مظاہرین کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سخت گرمی میں مسلسل ایک دو یا اس سے بھی زائددورانیے کا احتجاج ،نعرے بازی اورسڑکوں پر مارچ بہرحال کون سا آسان کام ہے تاہم اس احتجاج سے قبل ہماری اطلاع کے مطابق ڈسٹرکٹ پولیس افسر اعجاز خان نے وکلاء راہنماؤں کو مبینہ طور پر پیشکش کر کے انھیں احتجاج سے ہٹا کر انکوائری پر لانے کی کوشش کی تھی جس میں مبینہ طور پر وکلاء کے دو نمائندے بھی انکوائری ٹیم میں شامل کرنے کی آفر بھی شامل تھی تاہم اس وقت وکلاء نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اگلے روز احتجاجی مظاہرہ بھی کر ڈالا بلکہ اس روزتو ہائی کورٹ بار ایبٹ آباد کے صدر شاد محمد خان اور کے پی کے بار کونسل کے ممبر ارشد اعوان بھی مظاہرے میں شامل تھے جب کہ اس روز پورے کے پی کے میں بھی مکمل ہڑتال اور عدالتی بائیکاٹ رہا۔

سوال پھر یہ ہے کہ وکلاء کے دو نمائندوں کی شمولیت سے تشکیل پانی والی انکوائری کمیٹی پر ہی وکلاء راہنماؤں نے اکتفاء اور اعتماد کا اظہار کرنا اور ہڑتال ختم کرنا تھی تو احتجاجی مظاہرے سے قبل ہی اسی طرح کی مجوزہ انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر ہڑتال خاتمے کا اعلان کرکے وکلاء ،عوام اور خود مظاہرین کو مشکلات سے دوچار ہونے سے بچایا جا سکتاتھا لیکن مقام حیرت ہے کہ اس وقت اسی فارمولے کو مسترد کیا گیاتاہم ایک دو روز گذرنے کے بعد اسی فارمولے کو شرف قبولیت بخش کر احتجاج ختم کرنے کی نوید سنا دی گئی حالانکہ ہری پور بار کی متفقہ قراداد میں شامل نقاط میں سے کسی ایک نقطے کو بھی متعلقہ ادارے یا مجاز افسران نے تسلیم کرنے پر مبنی کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو اس صورتحال میں ہڑتال خاتمے کا اعلان اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا کہ متفقہ قرارداد پر عملدرآمد نہ ہوا تو وکلاء راست اقدام پر مجبور ہوں گے مگر قرارداد ابھی جوں کی توں ہے اوراس کے کسی ایک نقطے پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا مگر راست اقدام کے بجائے وکلاء ہڑتال سے واپس اور پولیس افسر کی سربراہی میں تشکیل شدہ انکوائری کمیٹی کے فیصلے کے منتظر ہو چلے ہیں ۔

۔۔جس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر یہ ہوا کیا ہے؟وکلاء نے ہڑتال کیوں ختم کر دی؟کہ نہ ابھی ایس ایچ او معطل ہوا ہے،نہ تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی برطرف ؟ بلکہ صرف چھٹی پر چلا یا بھیج دیا گیا ہے جس سے وکلاء کا مطالبہ پوارا نہیں ہوا اور یہ صورتحال ان کی توقیر اور اتحاد میں کم از کم کسی اضافے کا باعث کم اور بے توقیری کی وجہ بہرحال بن سکتی ہے۔

۔۔سوال یہ ہے کہ آخر وکلاء قراداد کے تین نقاط یا شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد کے ذریعے ان کا بھرم رکھنے کی ٹھوس کوشش کیوں نہیں کی گئی؟دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وکلاء اس پر راضی و شاکر ہو کر بیٹھ جائیں گے کہ یہ جو پیشرفت ہوئی ہے بالکل ٹھیک ہو گئی ہے ؟وہ اگر اپنے تئیں اسے ٹھیک سمجھیں تویہ ان کی سوچ،فیصلہ اور ان کا حق ہے مگرہماری دانست میں حقیقت میں ایسا کرنے والوں نے وکلاء قرارداد کی روح مسخ کر کے رکھ دی ہے جس سے وکلاء اور وکلاء کاز کا وقار مجروح ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔

۔۔۔۔گزشتہ روز ڈسٹرکٹ بار ہر ی پور کے صدر عبد الرزاق چغتائی نے ڈیڑھ ہفتہ سے جاری وکلاء ہڑتال کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کیا تو انھوں نے اپنی تقریر میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہری پور عظیم خان آفریدی کا خصوصی شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس دوران نہایت ہی اہم اور مثبت کردار ادا کیا جس کے باعث وکلاء احتجاجی تحریک ختم ہونے سے حالات متوقع سنگینی کی حدوں کو چھونے سے پہلے ہی نارمل ہو گئے جو واقعی قابل تحسین پیشرفت ہے تاہم وکلاء کی متفقہ قراداد پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونا وکلاء تحریک اور خود وکلاء کو بے توقیر کرنے والی ایک تلخ حقیقت ہے جس پر خوب غور خوض اور صورتحال کے مطابق موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔

وکیل تشدد کیس اور وکلاء ہڑتال کے ضمن میں قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ واقعہ مذکور کے دو پہلو ہیں ایک وکیل موصوف پر فائرنگ کے الزام کے تحت تھانہ سٹی میں مقدمہ کا اندراج اور دوسرا وکیل کی گرفتاری کے بعد ایس ایچ او ساجد فاروق کا مبینہ تشدد اور پولیس گردی۔۔۔جس کے خلاف وکلاء کی احتجاجی تحریک مسلسل کئی روز جاری رہی اور اس کا دائرہ پورے کے پی کے کی حدود کو چھو گیا۔

۔۔وکلاء احتجاجی تحریک کے دوران ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ بعض سینئیر وکلاء بھی اس احتجاجی تحریک کے بجائے کسی اور رائے کے حامل پائے گئے جب کہ بعض شہریوں ،تاجروں اور دیگر افراد نے بھی ایس ایچ او مذکور ساجد فاروق کے حق میں ریلی نکالی ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مبینہ واقعہ کے دونوں پہلوؤں کو نمایاں طور پر اجاگر کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی طرف بے شک توجہ مبذول کروائی جاتی لیکن شایداس میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔

۔۔صاحبو!کیا ہی اچھا ہو کہ چیزیں یا واقعات جس طرح رونما ہوتے ہیں بالکل اسی طرح پوری دیانتداری کے ساتھ سامنے بھی لائے جائیں مگر ہم آج کے دور کے مسلمان ٹھہرے ۔۔۔کمزور ایمان والے۔۔۔سو! لغزشیں قدم قدم پر ہیں اور بشری تقاضے بھی، کہ آخر ہم انسان ہیں ۔۔۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے رویے اور افعال اسلامی تعلیمات کے قالب میں ڈھالنے جب کہ غیر اسلامی اور منفی رویوں اور افکار سے دامن بچانے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہماری نجات کا بھی کوئی سامان ہو سکے(آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :