خُدا را اب بَس کریں

بدھ 21 مئی 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

چھیاسٹھ برس گزر گئے لیکن آدھا پاکستان گنوا کر بھی ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ ہماری کھیتیاں بے برگ و ثمر کیوں ہیں ، ہمارے کھلیانوں میں آگ کیوں اُگتی ہے ، ہماری تمنائیں زنگ آلود کیوں ہیں اور ہماری دعائیں مستجاب کیوں نہیں ہوتیں؟ ۔وجہ شاید یہ کہ ہمارے ایمان و ایقان کی بنیادیں ہی منہدم ہو چکی ہیں اور قصور وار ہم سب، کوئی چھوٹی برائی میں مگن تو کوئی بڑی برائی میں۔

آقا ﷺ نے فرمایا ”وہ طویل سفر میں ہے ، پراگندہ حال ، غبار آلود ، دو ، دو ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے اے ربّ ! اے ربّ ! ۔ مگر اُس کا کھانا حرام ، پینا حرام ، لباس حرام اور حرام کی غذا سے نشو و نما پا رہا ہے ۔بھلا ایسے شخص کی دُعا کب سُنی جائے گی “۔ہم نے اپنے ربّ سے یہ وعدہ کرکے زمین کا ٹکڑا حاصل کیا کہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے لیکن ہم اپناوعدہ بھول گئے اور ربّ نے اپنی رسی دراز کرتے ہوئے ہمیں کھلا چھوڑ دیا ۔

(جاری ہے)

اب عالم یہ کہ اچھائی اور سچائی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ، چہار سو ابلیسیت ہی ابلیسیت ۔
باہم مصروفِ پیکار الیکٹرانک میڈیاپتہ نہیں کس ملک و قوم کی خدمت کر رہا ہے اور کس مذہب کی ترجمانی ۔پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایک مارننگ شو نے ملک بھر میں آگ لگا دی ، معاملے کو انتہاوٴں تک لے جانے والا بھی الیکٹرانک میڈیا ۔یہ سب کچھ حبِ علی نہیں بغضِ معاویہ کے تحت ہو رہا ہے اور مقصد محض حصولِ زر ۔

نیوز چینلز کے اِس تصادم میں علماء بھی برابر کے شریک اور عالم وہی کہ اُدھر ہلاکو کے سپاہی کمندیں ڈال کر بغداد کی فصیلیں پھاند رہے تھے اور اُدھر بغدار کے علماء پانچ سو جگہوں پر مناظروں میں مصروف ۔پھر بغداد کا جو حشر ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ۔آج بھی دہشت گرد امریکہ ہمارے سروں پر بیٹھا ہے ، آر ایس ایس کا پروردہ نریندر مودی ہندوستان میں دو تہائی اکثریت سے جیت چکا ۔

یہ وہی مُودی ہے جس نے الیکشن کے ہنگام کہا تھا کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے داوٴد ابراہیم کو اسی طرح اٹھا لائے گا جیسے امریکہ اسامہ بِن لادن کو لایا تھا ، یہ وہی مُودی ہے جسے مسلم کش فسادات کا ہیرو کہا جاتا ہے۔یہ وہی مُودی ہے جس کی پارٹی میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں اور یہ وہی مُودی ہے کہ”اکھنڈ بھارت“ جس کا خواب ۔۔۔اُدھر طالبان سے مذاکرات میں طویل تعطل۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مذاکرات کا باب بند ہو چکا ۔تحریکِ طالبان پاکستان کے سر براہ مُلّا فضل اللہ نے اپنے ”فدائین“ کو مقابلے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ جن خود کش حملہ آوروں سے رابطہ نہیں اُن تک بھی پیغام پہنچا دیا جائے کہ وہ خود کش حملوں کے لیے تیار رہیں ۔اِس کے باوجود بھی علماء کو کچھ پرواہ نہ ”بے باک“ میڈیا کواور نہ ہی وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے والوں کو ۔

سبھی اپنی دھن میں مگن۔
سب سے بڑے میڈیا گروپ نے اپنے مارننگ شو میں اہلِ بیت کی شان میں جو گستاخی کی وہ ناقابلِ معافی و تلافی ٹھہری ۔تحقیق کہ ہر مسلمان کی جان بھی اہلِ بیت پہ قربان ،سوال مگر یہ ہے کہ ہم کدھر جائیں؟ ۔ہمارے علماء تو خود دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ۔ایک طرف جلسے جلوس ، ریلیاں اور کفر کے فتوے ، تو دوسری طرف معاف کر دینے کے لا محدود دلائل ۔

ایک طرف یہ دلیل کہ معافی کا حق صرف اُنہیں کو حاصل ہے جن کی شان میں گُستاخی کی گئی تو دوسری طرف سے یہ کہ اللہ اگر چاہے تو تمام گناہ معاف کر دیتا ہے سوائے شرک کے اور یہ بھی کہ جس نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ربِ کریم اُس کے گناہوں کو یوں دھو ڈالتا ہے جیسے اُس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو اور یہی نہیں بلکہ اُس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔

فتوے دونوں طرف اور درمیان میں پستے ہوئے عوام کہ جنہیں کوئی راہ دکھائی دیتی ہے ، نہ سجھائی ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے اور کیا اسی الیکٹرانک میڈیا پر اسلامی شعائر کا مذاق نہیں اُڑایا جاتا ؟۔کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ NGO,s کی کچھ خواتین مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کی تَگ و دَو میں اپنی حدوں سے باہر نکل چکی ہیں؟۔کیا وہ احکاماتِ الٰہیہ کا مذاق اُڑاتی اور نصوصِ قُرآنی سے رو گردانی نہیں کرتیں؟۔

اگر کتابِ حکمت کے کسی ایک حرف کا انکار بھی پورے قُرآن کے انکار کے مترادف ہے توپھر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا ”پیمرا“ کہاں ہے؟۔کیا سو چکا یا بِک چکا؟۔کیا ہمارے پیمرا کو نظر نہیں آتا کہ یہی خواتین ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی محبوب و مرغوب اور ہر روز کسی نہ کسی چینل پر برا جمان ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ اُن کی زباں بندی کی کوئی سبیل کی جائے ۔

وجہ صرف یہ کہ ایسی خواتین امریکہ اور یورپ کی پروردہ ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے کا سوچتے ہوئے بھی ہمارے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔
ہمارے نیوز چینلز جرائم ، خصوصاََ جنسی بے راہ روی کے معاملات کو اچھالتے اور ”چَسکے“ لے لے کر بیان کرتے ہیں، مقصد اصلاحِ معاشرہ نہیں ، ریٹنگ محض ریٹنگ کہ جتنی ریٹنگ زیادہ ہو گی اُتنا ہی زیادہ ”دھَن“ اکٹھا ہو گا ۔

دَھن کی ”دُھن“ میں مست نیوز چینلز مالکان کے حکم پر ترتیب دیئے گئے جرائم پر مبنی یہ پروگرام معاشرے کی اصلاح نہیں ، بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں اور کوئی غیرت مند خاندان ایسے پروگراموں کو اکٹھے بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتا ۔ٹاک شوز میں وہ اُدھم مچا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔یہ عین حقیقت ہے کہ اپنے مُنہ سے جہالت کا کوئی بھی اقرار نہیں کرتا ماسوائے اُس شخص کے کہ دوسرے نے ابھی بات ختم نہ کی ہو اور وہ اپنی بات شروع کر دے ۔

میرے آقا ﷺ کا یہ فرمان بھی کسی کو یاد نہیں کہ جب کوئی دوسرا بول رہا ہو تو اُتنی دیر تک خاموش رہو جب تک کہ وہ اپنی بات ختم نہ کر لے لیکن ہمارے اینکرز جو ماشاء اللہ خود سیاست دانوں سے بھی بڑے سیاست دان ہیں ، کسی مہمان کو کَم کَم ہی بولنے کا موقع دیتے ہیں اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ دوسرے کی بات ابھی ادھوری ہوتی ہے اور وہ درمیان میں کود پڑتے ہیں ۔

اُدھر ٹاک شوز کے شُرکاء کا یہ عالم کہ باہم تُو تکار، محض تو تکار اور کَج بحثی ۔اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ سبھی بیک وقت بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اینکر خوش کہ ریٹنگ بڑھ رہی ہے ۔اگر نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جائے تو اینکر کی ریٹنگ آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگتی ہے ۔مزاحیہ پروگرام ”تھیٹروں“ میں ڈھل چکے ہیں جہاں پگڑیاں اچھالی جاتی اور ذو معنی جملوں اور پھکڑ پَن کی بھرمار نظر آتی ہے ۔

وہی سٹیج اداکار اور اداکارائیں جو کبھی مخصوص جگہوں پر اپنے ”فَن“ کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور جن سے ”مخصوص ذہنیت “ کے لوگ ہی” مستفید“ ہوا کرتے تھے ، وہ سب اب الیکٹرانک میڈیا کی مہربانی سے گھر گھر پھیل چکے ہیں ۔اُن کی زہر ناکی نَسلِ نَو کی رگوں میں یوں سرایت کر چکی ہے کہ اقبال کا ”شاہیں “اب ” کَرگسوں“ سے بھی بَد تَر نظر آتا ہے ۔

دینِ مبیں تو ہنسنے ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولنے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے لیکن ہمارے مہربان ”بھانڈوں“ کا واہیات جھوٹ طبیعت پر بوجھ ۔امام غزالی نے فرمایا ”تمسخر با لعموم قطع دوستی ، دِل شکنی اور دشمنی کا باعث بنتا ہے “۔لیکن ہمارے مزاحیہ پروگراموں میں سوائے تمسخر کے ، کچھ ہوتا ہی نہیں ۔ کیا یہی اسلام ہے اور دینِ مبین کی تعلیمات بھی یہی ؟۔الیکٹرانک میڈیا آزاد اور بے باک سہی لیکن اپنی حدوں سے اتنا بھی باہر نہ نکل جائے کہ قوم ایسے میڈیا سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کر بیٹھے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :