آزاد کشمیر کی اعلیٰ شخصیات

بدھ 21 مئی 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

حدیث شریف ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہوگی کہ معاشرے کے گھٹیا ترین اور انتہائی نا پسندیدہ لوگ اقتدار میں آجائینگے۔یہ حدیث پاک کا ترجمہ نہیں بلکہ تشریح ہے جو اسی طرح کا مفہوم بیان کرتی ہے۔قیامت ایک حقیقت بھی ہے اور تحثل بھی ہے حقیقی قیامت کا علم صرف خالق کائنات کو ہے جسکا بیان قرآن پاک میں بار بار آتا ہے اور انسانوں کو اس دن کی ہولناکیوں اور خوفناکیوں سے مطلع کیا جاتا ہے تاکہ وہ اچھے اعمال کریں اور قیامت کے دن عذالت الٰہی سے محفوظ رہیں۔

یہ قیامت ایک حقیقت ہے اور اہم سب نے ایک دن اسکا مزہ اپنے اعملا کی نسبت سے دیکھنا ہے۔یہ دن جزاء اور سزا کا ہوگا اور ہر بشر اپنا اعمال نامہ ہاتھ میں لئے میدان حشر میں موجود ہوگا۔اعلیٰ و ادنیٰ سب ایک ہی مقام پر ہونگے جہاں کسی کا حسب و نسب ،فرقہ ،مسلک،طبقہ و طریقہ،علم و مرتبہ،دولت،غربت و امارت نہیں دیکھی جائے گی۔

(جاری ہے)

ہر شخص ابتلاء کی کیفیت میں ہوگا اور حکم ربانی کا منتظر ہوگا۔

بقول شاعر،نہ اس دن باپ بیٹے کا نہ بیٹا باپ کا ہوگا محمدﷺ تخت پر ہونگے عدالت میں خدا ہوگا۔
جب خدا کی عدالت ہوگی تو فیصلے بھی خدائی احکامات کے مطابق ہونگے اور یہ وہی احکامات ہیں جن کا ذکر خدا نے بار بار قرآن پاک میں کیا اور اپنے فیصلوں سے بھی مخلوق کو آگاہ کیایہ بیان ہے اس قیامت کا جس کے قیام کا کسی کو پتہ نہیں مگر ایک قیامت تمثلی ہے جو ہر روز کسی نہ کسی صورت میں برپا ہوتی ہے جو ہر روز کسی نہ کسی صورت میں برپا ہوتی ہے کرپشن،بددیانتی،دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ زنی،حکومتی اور حکومتی شخصیات کی لوٹ مار،عدلیہ کی بے حسی اور کمزوری،انتظامیہ کی درندگی سیاست اور حکومت کے نام پر چور بازاری اور عیاری جیسی قیامتیں ہر روز مظلوم،محکوم،بے ہمت اور بے سہارا عوام پر ٹوٹتی ہیں جس سے معاشرہ بے حس و بے آبرو اور مملکت کمزور اور محدوم ہوتی جارہی ہے ہر روز نازل ہونے والی قیامتیں خدا کی طرف سے نہیں بلکہ ہماری نیتوں اور اعمال کی وجہ سے ہیں۔

ہمارے ان اعمال میں ایک عمل نام نہاد جمہوری نظام کا قیام بھی ہے جسکے ذریعے معاشرے کے چھٹے ہوئے بدمعاش،غنڈے،نودولیتے،مال مویشی اور گھاس پھوس چوری کرنے والے ،کٹے و چھے چوری کرکے بیچنے والے،عدالتوں اور تھانوں میں بیٹھنے والے ٹاؤن،برادری ازم کا ناسور پھیلانے والے انسان نما شیش ناگ،منشیات فروش،جنگلات سے سرکاری لکڑی چوری کرنیوالے ٹھیکیدار اور دیگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے حامل لوگ کسی نہ کسی صورت سے الیکشن ڈرامے کے اختتام پر اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر اپنے کسی گرو کو صدر یا وزیر اعظم بنا کر نہ صرف مظلوم عوام پر قیامت ڈھاتے ہیں بلکہ انہیں نفسیاتی مریض بنا کر اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

وہ اپنی مرضی اور سہولت کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور عدالتوں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ اپنی مرضی اور سہولت کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور عدالتوں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔اپنی اپنی برادریوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور برادری تحفظ کے نام انھیں دیگر برادریوں سے لڑاتے ہیں تاکہ معاشرہ ابتری کا شکار ہو احکامتہی اور سست ہو جائے معاشرے کے بد ترین اور بد اعمال لوگ ووٹ اور ووٹر ہی نہیں خریدتے بلکہ عام انسانوں کا دین و ایمان بھی خرید لیتے ہیں۔

وہ انھیں جھوٹ،فریب اور مکاری پر لگا کر بظاہر اپنی اپنی برادریوں اور سیاسی جماعتوں کی خدمت کرتے ہیں ور عام لوگوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں قومی دولت اور ملکی خزانہ ان کا ذاتی خزانہ اور خیراتی ادارہ بن جاتا ہے جس سے ملکی معیثت تباہ ہوجاتی ہے جبکہ ان کی اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادیں وسعت پذیر ہو جاتی ہیں وہ جرائم پیشہ لوگ حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر اہم شخصیات اور معززین معاشرہ کہلاتے ہیں۔

عدالتوں اور قانون ان کے اشاروں پر کام کرتی اور چلتی ہیں جبکہ ریاستی مشینری ان کے احترام میں عوام پر ہر طرح کا ظلم و ستم کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتی ہے فلسفہ حیات،اور نفسیات کے حکماء اس بات پر متفق ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر انسانی اخلاقی اور تمدنی اقدار کے مخالف اور معاشرتی فلاحی اطوار و روایات کے باغی ہوتے ہیں ایسے لوگ اگر کسی وجہ سے معاشرے اور ریاست میں اعلیٰ مقام پر قابض ہو جائیں تو معاشرہ اور ریاست زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔

قانون شکنی،بد نظمی،بد عہدی اور برائی جو ان اشخاص کی سرشت میں ہوتی ہے معاشرے میں بگاڑ اور ریاست کے زوال کا باعث بنتی ہے بد اعمال،بد کردار،ہوس و حرص کے امراض میں مبتلا اشخصا کا مقتدر اعلیٰ بن جانا قوم کی بد نصیبی اور رسوائی کا باعث بنتی ہے ایسے لوگوں کے ہاتھ جب اقتدار آجائے تو ایک فلاحفی مدنی معاشرہ درنگی کا شکار ہوکر غلامی کے دور میں چلا جاتا ہے جس میں عزت،غیرت اور حرمت انسانیت قصہ ماضی بن جاتا ہے۔


جرائم پیشہ عناصر جب اشرافیہ کا روپ دھار لیں اور معاشرہ انھیں معزز اور معتبر ماننے پر مجبور ہوجائے تو ایسا معاشرہ روحانی اور جذباتی لحاظ سے مردہ اور بے حس معاشرہ کہلاتا ہے جو اصل معاشرتی اقدار اور روایات سے ہٹ کر ایک مصنوعی اور مجبور زندگی کا دائرہ ہوتا ہییایسے معاشرے اور ریاست کے عوام جبر کو جمہوریت غلامی کو حفاظت اور غنڈہ عناصر کی تابعداری کو قانون ،آئین کی تابعداری کا نام ایک ایک مصنوعی محکوم زندگی دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں سالہا سال کی اس زندگی کے لوگ عوام اسقتدر بے حس ہوجاتے ہیں کہ وہ معاشرے کے بدترین اور گھٹیا لوگوں کو نجات دھندہ اور قائد تسلیم کرلیتے ہیں۔

ابن خلدون اور ابن رشد نے بھی ایسے مجبور اور محکوم معاشروں کا ذکر کیا ہے جن کا اختتام انتہائی بھیانک اور عبرت ناک ہوتا ہے۔
آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ اور بلک میل قائدین کی تاریخ نہ تو قدیم ہے اور نہ ہی طویل،اہل سیاست کی اکثریت نو دولیتوں،نوسر بازوں،جعلسازوں ،انسانی سمگلروں،کرنسی سمگلروں،منشیات فروشوں،لینڈ مافیا،جنگل مافیا اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہے۔

ایسے لوگوں کے شجروں سے جناب آصف علی زرداری،میاں نواز شریف بھی واقف ہیں مگر اقتدار کی غلام گردشوں کی اندھیری راتوں سے یہی لوگ واقف ہیں اس لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اقتدار ایسے ہی نام نہاد قائدین کی رہن منت ہے۔میاں محمد نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری جنرل مشرف ہو یا جنرل ضیاء الحق ہر کسی کو اقتدار سے غرض ہے چاہے آزاد کشمیر کے عوام پر کیسی بھی قیامت ٹوٹے پر ان کی سردری نہیں۔

وٹو کاہرہ منصوبہ ہو یا کسی ٹھیکیدار کی مرضی یا منشاء پاکستانی قائدین کو سب کچھ قبول ہے۔
پچھلے ڈیڑھ عشرے سے لیکر تا حال آزاد کشمیر کے ریاستی نظام اور اقتدار جو کروٹیں لیں وہ کسی بھی لحاظ سے مثبت اور قابل تعریف نہیں آزاد کشمیر کے ریاستی اور معاشرتی بگاڑ میں سو فیصد پاکستانی اشرافیہ،اقتدار اعلیٰ سیاسی بازی گری کا ہاتھ ہے۔معاشرے کے بد نام ترین اور جرائم کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے لوگوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے میں بھی پاکستان کے سیاسدتانوں،بیورو کریسی اور حکمرانوں کا ہاتھ ہے بلکہ ان ہی کی مرضی سے آزاد کشمیر پر جبر،ظلم اور برادر ازم کا اقتدار غالب ہے جس میں عام آدمی کی حیثیت غلامانہ ہے۔


آزاد کشمیر کے متعلق خبروں میں صحافتی حضرات اکثر اعلیٰ ترین شخصیات کا حوالہ دیتے ہیں اور کسی مجرم کا نام نہیں لیتے۔اس کی وجہ جسٹس ،پولیس سرکھوی مرحوم اور جسٹس ریاض اختر چوہدری کی کرپشن کی خبریں اور قصے ہیں جب صحافیوں نے کرپشن کے ثبوت اور نام شائع کیئے تو صدر آزاد کشمیر جنرل انور اور جنرل پرویز مشرف کے چیف سیکیورٹی آفیسر نے برادری ازم اور کرپشن کے نشے میں سرشار ہوکر دونوں جج صاحبان کا ساتھ دیا جو آزاد کشمیر کے صحافیوں کیلئے قیامت خیز ثابت ہوا۔

ججوں کے خلاف کسی انکوائری کرنے کے بجائے جسٹس انور نے صحافیوں سے انتقام لیتے کی ٹھانی چونکہ یہی فحافی جنرل انور کے کرتوتوں سے بھی پردہ فاش کرنے والے تھے۔جنرل انور نے اپنی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ججوں کا ساتھ دیا اور آزاد کشمیر پولیس کی مدد سے صحافیوں کو اسلام آباد سے اغواء کرکے اپنی موجودگی میں ان پر تشدد کروایا۔جج صاحبان سے بھی توہین عدالت کا ہتھیار خوب استعمال کیا اور کئی ماہ تک ان صحافیوں پر ظلم کے پہاڑ گرانے کے بعد انھیں عدلیہ کیخلاف سازش اور ججوں کی توہین کے الزام میں سزائیں دیکر آزاد کشمیر کی آزاد اور حقیقی صحافت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔


جسٹس سرکھوی جو پہلے سے بیمار تھے اس صدمے کو برداشت نہ کرسکے چونکہ جو الزامات ان پر لگے تھے وہ درست بھی تھے اور سچائی پر بھی مبنی تھے۔جسٹس سرکھوی ان الزامات اور فطری کمزوریوں کے باوجود ایک غیرت مند انسان تھے ان کے ضمیر پرالزامات کی سچائی اور بیگناہی صحافیوں پر ہونے والے ظالمانہ اور سفاکانہ تشدد کا بوجھ تھا۔ان صحافیوں پر ایس ایس پی مظفر آباد چوہدری صابر ،صدر جنرل انور اور دونوں جج صاحبان اور ان کے دوست سیاستدان کی موجودگی میں تشدد کرتا اور ساتھ اعلان بھی کرتا کہ جناب دیکھ لیں میں نے انکا برکس کس طرح نکالا ہے۔

دنیا کی تاریخ کا یہ واحد اور منفرد واقع ہے کہ سچ لکھنے اور کرپشن کے بھیانک چہرے سے پردہ اٹھانے کے جرم میں صحافیوں پر فرد جرم عائد کی گئی اور بغیر نوٹس کے صحافیوں کو اسلام آباد سے پولیس کی مدد سے اغواء کیا گیا اور نام نہاد ریاستی صدر(انور)چیف جسٹس سپریم کورٹ (جسٹس سرکھوی)اور چیف جسٹس شریعت کورٹ و ہائی کورٹ(جسٹس ریاض اختر)کی موجودگی میں کئی کئی بار ان صحافیوں پر ظالمانہ تشدد کیا گیا تاکہ آئندہ کوئی شخص آزاد کشمیر کی حدود میں سچ نہ بولے اور نہ ہی عدالتوں سے عدل و انصاف کی توقع رکھے۔

جنرل انور میں اگر تھوڑی سے غیرت ایمانی اور عزت نفس کا خیال ہوتا تو وہ سب سے پہلے ان الزامات کی تصدیق کرواتا اور پھر توہین عدالت کا کیس کسی غیر جانبدار جج کے سامنے رکھ کر انصاف کے تقاضے پورا کرتا۔اگر جج کرپشن اقرباء پروری اور کوڈ آف کنڈیکٹ کے خلاف کام کرنے کے جرم سے مبرا تھے تو صحافیوں کو سزا دی جاتی اور بصورت دیگر ججوں کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے کیا جاتا۔

ایک مہذب معاشرے اورریاست کے دستور،روایات،آئین اور قانون کا یہی تقاضا تھا مگر جنرل انور نے جنرل ڈاپر کا روپ دھار لیا اور مظلوم صحافیوں پر قیامت برپا کر دی۔حیرت کی بات ہے کہ حکومت پاکستان ،پاکستان کی اشرافیہ،صحافتی تنظیموں،انسانی حقوق کا غم رکھنے والی این جی اوز،آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور دیگراداروں کو بھی سانپ سونگھ گیا اور کسی بھی طرف سے سچ بولنے کے جرم میں گرفتار صحافیوں کے حق میں آواز نہ اٹھی۔


اب ذرا قدرت کے فیصلوں پر بھی ایک نظر ڈالیں۔جنرل انور جس خفیہ خانے سے آیا تھا ضمیر کا بوجھ لے لیکر واپس آسی خانے میں چلا گیا۔صحافیوں کو اغواء اور تشدد کرنیوالا ایس ایس پی انسانی سمگلنگ کے جرم میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تو جرائم پیشہ اعلیٰ شخصیات نے کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد اسے جیل سے نکالا۔اس سے پہلے کہ وہ اہم اور اعلیٰ شخصیات کا نام لیتا اچانک غائب کردیا گیا۔

مشہور ہوا کہ ایس ایس پی نے دلبرداشتہ ہوکر دریا میں چھلانگ لگا دی ہے مگر تاحال اسکی لاش نہیں ملی۔یہ اور بات ہے کہ اسی طرح کا ایک شخص حیات آباد فیز7میں اکثر سڑکوں پر سیر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق کے ہمراہ علاقہ غیر میں قبائلی سردارکے دسترخوان پر بھی موجود تھا۔
جسٹس سرکھوی صحافیوں کو کوستے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور جسٹس ریاض اختر پر وہی الزامات دھرائے گئے۔

موصوف پہلے تخت سے اتارے گئے اور پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنی ذات پر لگے الزامات کا دفاع نہ کرسکے اور عدلیہ سے فارغ کر دیئے گئے۔کولمبیا یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر گرے سن کرک نے The Face of Democracyنامی تصنیف کے ابتدائے میں 1810ءء کی مشہور ادبی شخصیت کونسنٹین فرانسیکو وولنے کا قول دھرایا ہے۔Volneyنے کہا”Let us all seek Truth as if non of us had passession of it“یوں تو جنرل انور بھی دانشوری کا زعم رکھتا ہے اور کئی عسکری اداروں میں بحثیت استاد پڑھاتا بھی رہا ہے مگر سچ کے معاملے مں ی نہ صرف کھوکھلا بلکہ ان پڑھ نکلا۔

جنرل انور نے جسطرح سچ کا قتل کیا اور کرپشن کا ساتھ دیا اس سے تو یہی ملتا ہے کہ یہ شخص نہ صرف سچ کا دشمن ہے بلکہ سچائی کا قاتل بھی ہے جنرل انور نے جسطرح پانچ سال تک آزاد کشمیر کی صدارت پر قبضہ جمائے رکھا وہ کہہ سکتا ہے کہ ”Let us not speak truth one who commits this crime shell be executed“آزاد کشمیر کی اہم اور اعلیٰ شخصیات کی کرپشن،بد عنوانی،عوام دشمنی کی خبروں پر قد غنذ کیوں ہے اور مظلوم صحافی ان اعلیٰ اور اہم شخصیات کا نام لینے سے کیوں گھبراتے ہیں اسکی زندہ مثال آپ کے سامنے پیش کی ہے اگر یہی انکشافات انصار عباسی،حامد میر،راؤف کلاسرا،کاشف عباسی،محمد مالک،طلعت حسین،سلیم صافی،ڈاکٹر دانش یا کوئی دوسرا پاکستانی صحافی کرتا تو حکومتی مشینری ہل جاتی اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ فوراً نوٹس لیتے ایک طرف پاکستان کا جسم ہے جیسے چھوٹی موٹی بیماریاں تو لگی ہیں مگر تھوڑا بہت علاج بذریعہ سچ اور صحافت ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان شہہ رگ ہے جو کینسر کے مرض میں مبتلا ہے مگر اسکا علاج سچ سے نہیں بلکہ بلیک لیبل اور بلک کریکٹر سے کیا جارہا ہے۔
آزاد کشمیر میں سچ کی سزا صرف صحافیوں اور معاشرے کے عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ ججوں کو بھی ملتی ہے تاکہ عدل کا ترازوں اعلیٰ اور اہم شخصیات کی کرپشن،بدعنوانی،دھونس،دھاندلی اور بد کرداری کی طرف جھکا رہے آزاد کشمیر شریعت کورٹ،ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس غلام مفطفٰے مغل ایک سچے،ایماندار اور قابل جج ہی نہیں بلکہ وہ خلق خدا کو انصاف فراہم کرنے اور حق سچ کا دامن تھامنے والے نجات دھندہ بھی ہیں۔

جسٹس غلام مصطفٰے مغل کے کردار عمل سے ساری ریاست کے عوام واقف ہیں اور ان کے فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اقرباء پروری،کرپشن اور برادری ازم کے دلدل میں دھنسا ریاستی نظام جہاں اہم اور اعلیٰ شخصیات کا لقب بد دیانت بد کردار اور بد اعمال طبقے کی نشاندہی کرے ایسے ماحول اور معاشرے میں جناب جسٹس مغل جیسے مسیحا کا وجود کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے مجاورانہ حکومت کے قیام کے بعد جہاں برادری ازم کرپشن اور اقرباء پروری کو حکومتی پالیسی کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا وہی عدل و انصاف اور انتظامی امور کو پانچ پیاروں کی مرضی کے مطابق چلانے کا منصوبہ بھی بنا۔

ساری ریاست کے عوام و خواص ان پانچ پیاروں اور ان کی چال بازیوں سے واقف ہیں مگر دہشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص ان کا نام لینے کی ہمت نہیں کرتا انتظامیہ کو تتر بتر کرنے اور من پسند افراد کو اعلیٰ ایوانوں میں بٹھانے کا مرحلہ تمام ہوا تو مظفر آباد میں چیف جسٹس ہائی کورٹ جناب غلام مصطفےٰ مغل پر اچانک قاتلانہ حملہ ہواجب وہ ایک ساتھی جج کے ہمراہ مظفر آباد کلب کے گراؤنڈ میں جاگنگ کررہے تھے۔

یہ گراؤنڈ بھی وہاں موجود ہوگا مگر ایک شخص نے گراؤنڈ میں داخل ہوکر جناب مغل پر گولیاں برسائیں اور آرام سے چلا گیا۔
یہ اور بات ہے کہ قاتلوں کا منصوبہ قدرت نے نا کام بنا دیا اور جناب مغل کافی عرصہ تک زیر علاج رہنے کے بعد دوبارہ اپنے منصب پر فائز ہوگئے۔حیرت کی بات ہے کہ مجید حکومت نے اتنی بڑی شخصیت پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو زیادہ اہمیت نہ دی اور تا حال کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا۔

پولیس نے کاروائی ڈالتے ہوئے کچھ لوگوں کو گرفتار کرکے تشدد کے ذریعے انھیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش بھی کی مگر بات نہ بنی۔وکلاء برادری بھی ایک عرصہ تک احتجاج کرتی رہی اور ہر جمعرات کو عدالتوں کا بائیکاٹ اور ہڑتال بھی ہوتی رہی مگر حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہ دی۔حکومت کے حامی وکیلوں اور اہم شخصیات سے اس ہڑتال کو اور وکیلوں کی جمعرات کہہ کر تمسخر اڑا دیا۔

کئی ماہ تک جاری اس احتجاج خیرات کا دن کا حکومت پر اثر نہ ہوا تو جناب جسٹس کو عوام کے وصائب کا دکھ تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ عام لوگ کاروائی رک جانے کے باعث پریشانی کا سامنا کریں۔
جہاں تک اس گھناؤنے منصوبے کا تعلق ہے تو یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کس کے گندے ذہن کی اختراج تھی اور خدانخواستہ اگر جسٹس مغل کو کچھ ہوجاتا تو کسے فائدہ پہنچتا تھا۔

اگر حکومت چاہتی تو چند روز میں ہی مجرم کو پکڑ لیتی مگر حکومت کو کسی ایسی کاروائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔سوال یہ ہے کہ جب ایک جج اور جسٹس بھی سچائی کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بن سکتا ہے تو ایسی ریاست میں ایک عام آدمی یا عام صحافی کی جان و مال،عزت آبرو کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس جناب غلام مصطفٰے مغل نے موت کو قریب سے دیکھا،دہشت گرد کی گولیوں کا پورے عزم اور حوصلے سے مقابلہ کیا اور اپنے مشن کو بھی جاری رکھا مگر اعلیٰ اور اہم شخصیات نے عدلیہ جیسے ادارے کو بھی نہ بخشا اور ایک اہم پیغام بذریعہ بندوق دے دیا۔


آزاد کشمیرکی اہم اور اعلیٰ شخصیات کی کاروائی بھی جاری ہیں اور ہر طرف اندھیر نگری کا راج ہے مگر عدلیہ بھی یہ سطح پرایسے لوگ موجود ہیں جو ان اندھیروں میں عوام الناس کیلئے حوصلے اور امید کی کرن اور روشنی کاباعث ہیں۔اس طرح دیگر اداروں میں بھی خدا ترس لوگوں کی کمی نہیں مگر جہاں برادری کے بت خدائی کے دعویدار بنکر فرعونیت پر اتر آئیں وہاں خدا ترس اور عدل و انصاف کرنیوالوں کی اہمیت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :