نجی ٹی وی چینلز پر نظر رکھی جائے

پیر 19 مئی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کچھ عرصہ قبل جب پاکستان میں پاکستان ٹیلی ویژن کاراج ہواکرتاتھا‘ اس دورکے حوالے سے کہاجاتاہے کہ یہ سرکاری چینل یا پھر ریڈیوپاکستان حکومت وقت کی راگنی گاتے ہیں ‘ اس دور میں اپوزیشن پی ٹی وی یاپھر ریڈیو پر خال خال ہی نظرآتی تھی یا ان کی آواز بھی کم کم سنائی دیتی تھی حالانکہ اگر نوے کی دہائی کاجائزہ لیاجائے تو اس دور میں سیاسی ہنگامہ خیزیاں بہت زیادہ تھیں لیکن سرکاری چینل پر ان ہنگامہ خیزیوں میں اپوزیشن ہی موردا لزام ٹھہرائی جاتی تھی خیر اس حوالے سے بات کرنا نہیں چاہتے اصل موضوع کی طرف ہی آتے ہیں کہ اس دور میں سرکاری طورپر پی ٹی وی یا ریڈیوپاکستان پر بڑا ہی چیک اینڈ بیلنس تھا‘ کوئی ایسی خبر نشر نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے معاشرے پر برا اثر پڑے‘ یا کوئی ایسا ڈرامہ پیش نہ کیاجائے کہ جس کے اثرات نوجوان نسل پر پڑیں۔

(جاری ہے)

بلکہ یاد ہے کہ جب فلمی گیتوں کاپروگرام پیش کیاجاتاتو ہیرو‘ہیروئن کے ملن کے سین کو کاٹ دیاجاتا کہ گھروں میں مائیں بہنیں دیکھ رہی ہیں۔حتیٰ کہ اشتہارات میں بھی بہت حد تک احتیاط برتی جاتی تھی۔ اسی دورا ن جب پی ٹی وی نے اپنی نشریات کادورانیہ بڑھایا تو صبح کی نشریات بھی شروع ہوگئیں یہ نشریات عموماً صبح سات بجے شروع ہوجاتی تھیں۔ پہلی بار یہ نشریات ”صبح بخیر پاکستان“ کے نام سے شروع ہوئیں اور اس کی میزبانی معروف سیاح‘ ادیب‘ ہنس مکھ شخصیت کے مالک مستنصر حسین تارڑ کو سونپی گئی ۔

اس نشریات کانام بعد میں ”روشن پاکستان“ بدل دیاگیا۔ اس دوران بچوں کے کارٹونوں سے لیکر گیتوں تک دکھاءء جاتے ۔تاہم سب سے اچھی بات پہلے مارننگ شو کی یہ ہوتی تھی کہ مستنصر حسین تارڑ بڑی ہی خوبصورتی سے باتیں کیاکرتے تھے جن میں بڑے واضح انداز میں نصیحت ہوتی تھی تاہم اسے طبیعت پر ”بھاری پن“ کبھی نہیں سمجھاگیا بڑے چھوٹے ‘خواتین سبھی منتظر ہوتے کہ کب ”چاچاجی “ سے ملاقات ہوگی۔

گویا مستنصر حسین تارڑ چھوٹے بڑوں کے چاچا جی تھے۔اس دور میں طلعت حسین نے پہلا ٹاک شو شروع کیا ۔ جسے بڑے شوق سے سنادیکھاجاتا تھا ۔ کہنے کو وہ سرکاری ٹی وی کا ٹاک شو تھا لیکن حقیقت میں بہت کچھ سننے دیکھنے کو مل جاتا۔ایک خاصیت اس ٹاک شو کی یہ رہی کہ ”ہنگامہ خیزی “ اور جارحیت کہیں نظر نہیں آتی تھی۔
پھر یکایک منظر بدلتا ہے پرویز مشرف دو ر میں نجی چینلز جنم لینے لگے اور راتوں رات رنگارنگ قسم کے چینل سامنے آگئے۔

ظاہر ہے کہ وجود قائم رکھنے کیلئے ان چینلوں میں مقابلہ بازی شروع ہوگئی ۔ اس کا ایک نقصا ن یہ ہوا کہ چیک اینڈبیلنس ختم ہوکر رہ گیا۔ اس دوڑ میں شکست کے خوف سے کئی چینلو ں نے نہ صر ف انڈین چینلز کو کاپی کرنا شروع کردیا بلکہ مغربی دنیا کے میڈیا کی نقالی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ”آپے میں نہ رہے“ اسی یلغار کے دوران جہاں ”ٹاک شوز “ کی بھرمار ہوئی وہاں کئی طرح کے ایسے پروگرام بھی شروع ہوگئے جس کے اثرات منفی انداز میں سامنے آنے لگے ۔

نجی میڈیا کی مقابلہ بازی کایہ رنگ بھی ملاحظہ ہو کہ ان کے ٹاک شوز میں سیاسی رہنماؤں کو بلاکر ایک دوسرے کے ہاتھوں ذلیل کروایاجاتارہا ‘ مذہب اورمذہبی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ بے معنی قسم کے شوز کا ٹاپک تو کچھ اورہی ہواکرتا ہے اوراندر خانے باتیں ذاتیات ‘ذلت کی پاتال میں گری ہوئی تھیں۔ کئی سیاسی شخصیات ”بونگے قسم“ کے تبصرہ نگاروں کی بھینٹ چڑھ گئیں یہی حال مذہب کا رہا ۔

بلکہ بھولا اکثر کہاکرتاتھا کہ ان چینلوں کی کوریج دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمارے لئے مسلمان ہونا جرم ہو۔ خیر انہی خباثوں کے درمیان ”مارننگ شوز “ شروع ہوگئے جن میں وقت کی کئی معروف اداکارائیں کانام کیش کرانے کی کوشش کی گئی یا پھر فلم انڈسٹری کی ناکام ترین ہیروئن کو لابٹھایاگیا۔ جن کی علمی وسعت محض اتنی تھی کہ وہ کسی کے بدن ‘کپڑوں پرتو بات کرسکتی تھیں لیکن دنیا کے حوالے سے ان کامطالعہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

رنگارنگ اور جھلملاتے کپڑوں میں لپٹی (اور لباس بھی ایسا کہ نظر فوراً کمپیئر پر پڑتی تھی ) اور خوبصورت سیٹ ڈیزائن کراکے ناظرین کادل موہ لینے کی کوشش کی جاتی رہی۔
ہم پہلے بھی عر ض کرچکے ہیں کہ نجی ٹی وی چینلز کی مقابلہ بازی اورنقالی اس حد تک بڑھ گئی کہ چیک اینڈ بیلنس کا واضح فقدان نظرآنے لگا۔ ڈراموں کے نام پر نوجوان نسل کیلئے ”کھلی دعوت “ تھی اور ایسے کھلے جملوں میں دعوت گناہ دی جاتی تھی کہ کوئی بھی شریف آدمی ان ڈراموں کو زیادہ دیر نہیں دیکھ سکتا ۔

خیر ان مارننگ شوز میں جب مردوخواتین کا اختلاط ہو اتو زبان کے چٹخارے بھی سامنے آنے لگے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں اخلاقیات سر ے سے نظر تک نہیں آتی تھیں۔ اس کا نقصان یہ بھی سامنے آیا کہ اس کی زد میں کئی ادارے‘ کئی مقدس ہستیاں تک آگئیں جس کاعملی مظاہرہ چند دن قبل کے ایک مارننگ شو میں سامنے آیا جب شائستہ واحدی نامی متنازعہ اینکر پرسن نے اپنے مارننگ شو میں اداکارہ وینا ملک کی شادی کو ری ایکٹ کرتے ہوئے ایک خوبصورت منقبت پر اس طرح سے مناظر کشی کرائی کہ جو گستاخی کے زمرے میں آتی تھی
صاحبو! یہ گستاخانہ واقعہ بھی اسی چینل سے سامنے آیا جو پہلے ہی آئی ایس آئی پرکھلے ڈلے انداز میں تنقید کرچکا ہے بلکہ اس کی توپوں کے رخ نے اس اہم ادارہ کو بدنام کردیا۔

وہ خیر دنیاوی معاملہ تھا لیکن جس انداز میں گستاخانہ پروگرام پیش کیاگیا وہ لائق مذمت تھا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ یہاں یہ نقطہ توجہ کاطالب ہے کہ آخرمیڈیا پر نظر رکھنے والا ادارہ پیمرا ہے کہاں؟پہلے آٹھ گھنٹے تک ملکی سلامتی کے حامل ادارہ آئی ایس آئی پر تنقید ہوتی رہی ‘پیمرا سویا رہا ‘ اب شعائر اسلام کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا رہا مگر پیمرا خاموش؟؟ گویا اس ادارہ کی منشا کے مطابق ہی سبھی توہین ‘تضحیک آمیز کام جاری ہیں۔


اب ضرورت اس امر کی بڑھ گئی ہے کہ پیمرا قسما قسم کے چینلوں کے رنگا رنگ مارننگ شوز پر ہی نہیں بلکہ ٹاک شوز پر گہری نظر رکھتے ہوئے انہیں قاعدے قانون کے مطابق پابندی پر مجبورکیاجائے نیز نوجوان نسل کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بننے والے فحش ڈراموں پر قدغن لگاکر ان کے لئے باقاعدہ سنسر بورڈ تشکیل دے ۔ایک فلم کو منظورکرانے کیلئے جس طرح سے سنسر بورڈ کے سامنے سے گزاراجاتا ہے اسی طرح سے چھوٹے میڈیم یعنی ٹیلیویژن کیلئے بھی سنسر بورڈ بنایاجائے جو اخلاقی پستی کاباعث بننے والے ان ڈراموں پر نظر رکھ سکے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :