جس کا جو جی چاہے کرے

ہفتہ 17 مئی 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

میرا بھتیجا جب صبح سکول کے لئے تیار ہونے لگتا ہے تو رو رو کے کہتا ہے کہ جی چاہے تو نہلا لو جی چاہے تو روٹی کھلا لو مجھ سے دونوں کام اکٹھے نہیں ہوتے۔ قائدِ اعظم نے پاکستان اس لئے نہیں بنایا تھا کہ بچوں پر پابندیاں لگاتے جاؤ۔اگر یہ ملک ہمارا بھی ہے توکچھ ہمیں بھی تو اپنی مرضی کرنے دو۔ سکول کے بچوں کے نزدیک ہی نہیں بلکہ بالغ ہم وطنوں کے نزدیک بھی آزادی کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے جو جی میں آئے کرے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو۔

مریضوں کو شکایت ہے کہ ایک آزاد ملک ایسا ہوتا ہے کہ حکیم اب بھی کڑوی پھکیاں اور کڑوے کاڑھے پلا رہے ہیں اس پر پرہیز کی مصیبت بھی ہے ۔پکوڑے نہیں کھانا، سموسے نہیں کھانا ، مٹھائی نہیں کھانا، نہ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ پھر آزادی کاہے کی ہوئی۔

(جاری ہے)

بھلا ایک آزاد ملک کے باشندوں کو پرہیزی غذا سے کیا سروکار۔ اولادوں کو شکایت ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں لیکن اب بھی رات دیرے سے گھر آنے پر ابے چھترول کر دیتے ہیں۔

بھینس چوروں کو شکایت ہے کہ کیا ہم بھی اس ملک کے باسی ہیں ۔ اب جانوروں کے جسم میں بھی ٹریکر چپ لگوانے کے پروگرام بن رہے ہیں۔ ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور وہ بھی اس ملک کی شہریت رکھتے ہیں۔جی چاہتا ہے کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جہاں اِس کاروبار کا سکوپ تو ہو۔اِدھر پولیس والوں کو شکایت ہے کہ ایسا ملک بنانے کا کیا فائدہ جہاں چور اچکوں کو چھترول بھی نہ کی جا سکے۔

اب ذرا سی کسی کو چھترول کر نے لگیں تو میڈیا پہنچ جاتا ہے کہ چھتر نہ مارو اور جو مرضی ہے کر لو۔اب بھلا چھتر کا کام گالی سے لیا جا سکتا ہے۔ملازمین کاموئف ہے کہ پاکستان تو بن گیا ہے لیکن ملازمین کو اب بھی صبح ہی صبح دفتر آناہے ۔جس وقت نیند کی لذتوں کانزول ہوتا ہے اُس وقت ہماری دفتر کی طرف دوڑیں لگی ہوتی ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب بھی ہم گوروں کے ملازم ہوں۔

تاجروں کو شکایت ہے کہ کیا یہ آزاد ملک ہے جس میں اپنی مرضی سے کوئی چیز بھی فروخت نہ کی جا سکے۔رمضان شریف یا عید بقراعید کے موقعوں پر ہی چار پیسے کمانے کے دن ہوتے ہیں لیکن گورنمنٹ ڈنڈا لے کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ادھر آجر کو شکایت ہے کہ مزدر روز بروز ہمارے سر چڑھتا جا رہا ہے۔ گورنمنٹ روز بروز ان کی اجرتیں بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ منافع آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے کیا ہم ایک آزاد ،ملک کے باسی ہیں۔

طلبہ کو شکایت ہے کہ امتحان لئے بغیر کالج پاس کرتا ہے نہ یونیورسٹی۔پا کستان قائم ہو گیا ہے لیکن پاس فیل کا پرانا طریقہ کار رائج ہے۔ یونیورسٹی والے کہتے ہیں امتحان لیں گے اور سند دیں گے۔ طلبہ کو ضد ہے کہ امتحان بے شک لیجئے لیکن فیل پاس کا جھگڑا مٹا دیجئے۔طلبہ کی طرف سے رجسٹرار کو اس طرح کے خط آ رہے ہیں کہ ہمیں پاس کر دیجئے ورنہ پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھر جائے گا۔

اگرہمیں پاس کر دیں تو پاکستان کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ہمیں پاس کر دیا جائے تو ہم پاکستان کے لئے کٹ مرنے کے دریغ نہیں کریں گے لیکن اگر یہ طلبہ پاکستان کی خاطر کٹ مرنا چاہتے ہیں تو امتحان پاس کرنے کی ایسی کیا ضرورت ہے۔ بی اے یا ایم اے کی ڈگری نہ توتلوار ہے نہ بندوق ۔نہ توپ ہے نہ ٹینک ۔ شہیدوں کو تو عاقبت کے لئے ویسے بھی دنیاوی امتحان پاس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔

تجویز ہے کہ سکول اور کالج بند کر دئیے جائیں اور سال کے سال قرعہ اندازی کر کے لوگوں کو ڈگریاں اور سندیں الاٹ کر دی جائیں۔ اس طرح ہمارے ہاں خواندگی کی شرح بھی بڑھ جائے گی اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ دیکھئے صاحب انگریزوں کے عہدِ حکومت میں طلبہ فیل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ابھی تک ختم نہیں ہوا اور پاکستان کی آزاد مملکت میں بھی لوگوں کو برابر فیل کیا جا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :