پالیسی سچ

جمعرات 15 مئی 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

ہمارے ہاں پالیسی سچ بولنے کی روایت بہت عام ہے۔اکثریت میں حقیقی سچ کو وہ تقویت حاصل نہیں جو پالیسی سچ کو ہے۔ ایک فرد سے لے کر ایک ادارے تک اور ایک ادارے سے لے کر حکومت تک سب پالیسی سچ کے سہارے چلتے ہیں۔حقیقت پر مبنی سچ میں مفاد،منافقت اور خودپسندی شامل کر لی جائے تو وہ پالیسی سچ کہلاتاہے۔ مطلب کا سچ بولنے کی بات ہی کچھ اور ہے۔

ذاتی مفادیااپنے ادارے کی وفاداری نبھانے اور دانستہ یا غیر دانستہ دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لئے پالیسی سچ بولنے سے آپ زیرو سے ہیرو بن سکتے ہیں۔ اگر پالیسی سچ پر مبنی رپورٹنگ یاتحریر کو بین الاقوامی شہرت مل جائے تو پھر وارے نیارے۔ یعنی شہرت، ایوارڈز اور پیسہ آپ کے قدموں میں۔یہ گلیوں اور بازاروں میں بیٹھے نجومیوں کا نام نہادجنتر نہیں کہ محبوب اور پیسہ آپ کے قدموں میں بلکہ یہ ایک ایسامجرب نسخہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر آپ زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان کے مختلف میڈیا گروپس میں کام کرنے والے چند بڑے نام جو اسی پالیسی سچ کی بنا پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر کافی شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کے کارنامے ہوں، ملکی اداروں کی کرپشن یا آئی ایس آئی کا کردار، یہ مزکورہ تمام حضرات ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں نڈر اور بیباک صحافی کا خطاب لئے گرما گرم خبروں کا حصہ ضرور بنتے ہیں۔

ملکی سلامتی کے ادارے یا حساس معاملات پر انکی رپورٹنگ انہیں دنیا بھر میں نامور بنا دیتی ہے جبکہ بین الاقوامی ایوارڈز اور پزیرائی انکی شہرت کومذید چار چاند لگا دیتی ہے جس سے انکا شمار دنیا کی صف اول کی شخصیات میں ہونے لگتا ہے۔ایسی بین الاقوامی عزت افزائی، شان و شوکت دیکھ کرمجھ سمیت کئی صحافیوں میں بھی حسرت کی چنگاری ضرور اُٹھتی ہو گی کہ کاش۔

۔۔!! ہمیں بھی ایسی شہرت و مقام نصیب ہو۔ہماری بھی ایسے ہی بین الاقوامی ایوارڈز سے عزت افزائی ہو۔مگر کیا کیجئے۔۔۔۔۔حساس اداروں کی طرح حساس افراد بھی حد درجہ نازک مزاج ہوتے ہیں۔ان میں جونہی ایسی کوئی خواہش انگڑائی لیتی ہے ،تو قومی مفاد اور ضمیر کی آوازاُن کی اُس خواہش کو حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے ہی بھجا دیتی ہے اور ہم پھر سے وہی فرسودہ سچ لکھنے والے صحافی بن جاتے ہیں۔

بچپن سے لیکر آج تک میں نے مختلف صحافیوں کی سیاستدانوں کی عزت افزائی اور انکے بخئے ادھیڑ تی اکثرتحریریں پڑھی ہیں۔جن میں سیاستدانوں کے نجی قصوں سے لیکر انکے ایوانوں کی کرپشن تک خبروں کی زینت بنی رہی مگران سے سیاستدان اور صحافی دونوں بین الاقوامی شہرت اور ایوارڈزسے محروم رہے۔۔۔۔یعنی پالیسی سچ سے نابلد ایسے صحافی آج بھی گمنامی کی حیثیت سے اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔

اور آپ کو پاکستان میں سینکڑوں ایسے صحافی ملیں گے جنکو پوری زندگی کی صحافت میں چند قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نام و نیاز کے لئے فرسوہ سچ کی بجائے پالیسی سچ پر مبنی صحافت کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ حضرات بھی گمنامی کی زندگی کی بجائے آج دنیائے صحافت کے چمکتے دمکتے نام گردانے جاتے۔


پالیسی سچ کی ایک تازہ مثال ملاحظہ کیجئے۔جنگ گروپ کی جانب سے اے آر وائی کے بانی چئیر مین عبدالیعقوب رزاق کے انتقال کی خبر کو بھی اُسی پالیسی سچ میں رکھا گیا اور ایسے نظر انداز کیا گیا جیسے انکا نتقال ہوا ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جہاں کتے کے مرنے اور رادھا کے ناچنے کی خبر تو ہیڈ لائین کے طور پر چلتی ہوں اور ایک انسان کے مرنے کی خبر کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔

اسی طرح جنگ گروپ کے خلاف حالیہ بندش کی سرگرمیوں پر دوسرے چینلز کی خاموشی بھی اسی پالیسی سچ پر مبنی ہے جو جنگ گروپ نے حاجی یعقوب کے انتقال پر اپنائی ہے۔ مان لیا کہ حاجی عبد الرزاق کا تعلق مخالف میڈیا گروپ اے آر وائی سے تھا تو کیا اس لحاظ سے وہ پاکستانی نہیں تھے یا انکے انتقال کی خبر کو نظر انداز کرنے والا ٹی وی چینل پاکستانی نہیں تھا اور کیا یہ سلوک صحافتی اُصولوں اورتقاضوں کے مطابق تھا۔

چینلز کی جانب سے اپنایا جانے والا ایسا رویہ یعقینا صحافتی تقاضوں کے عین برخلاف ہے۔ایسی صورت حال میں اسے پالیسی سچ، مطلب کا سچ یا زرد صحافت ہی کہا جاسکتا ہے ۔۔۔دوسری جانب آئی ایس آئی کے خلاف میڈیا ٹرائل پر ملک کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے حق میں دلائل دیتے پالیسی سچ میں پرورش پاتے صحافی کیا بتا سکتے ہیں کہ عبد الرزاق یعقوب کے انتقال کی خبر پر اپنائی گئی پالیسی قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں کہاں گم تھی۔

اور کیاایسا رویہ روا رکھنے والے کردار یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے قومی سلامتی کو نہ صرف داوٴ پر لگانا تھا بلکہ اُسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف تھا جس پر وہ خودبیٹھے ہوں۔اسکا مطلب پھر خان صاحب ٹھیک کہتے ہیں کہ، مشرقی سرحد پر امن کی آشا اور مغربی سرحد پر جنگی محاذ۔کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے۔۔۔!!! مشرف دور میں سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو پر خوب شو ر شرابہ اور بعد میں وڈیو جعلی ثابت ہونے پر خاموشی،۔

۔۔!! اجمل قصاب کو گھنٹوں میں پاکستانی ثابت کر کے دشمن سے داد وصول کرنا اور اورکشمیریوں پر بھارتی بربریت،لائین آف کنٹرول کی روزانہ خلاف ورزی اور بھارتی کجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر صرف ٹکرز پر اکتفا کرنا۔بلوچستان میں بھارت کی کُھلی دراندازی پر خاموشی اور وہاں موجودپاکستانی سیکوریٹی اداروں پر جارحانہ تنقید ۔پاکستان جہاں اکثریت محفوظ نہیں وہاں عیسائیوں اور قادیانوں پر حملوں پر واویلا کرکے دنیا کو دکھانا کہ جیسے پاکستان میں صرف اقلیتیں انتہائی غیر محفوظ ہوں۔

کیا دنیا میں صحافت کے یہی چمپئین ہیں۔۔۔!!!دیگر توجیسے صحافت کے نام پر جھک مار رہے ہیں اوردنیا کے دیگر ممالک کے خفیہ ادارے کیا انسانی حقوق کے سرٹیفیکیٹ لے کر بیٹھے ہیں جو اُنکا میڈیا اُنکے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کرتا جو ہمارا میڈیا ہمارے انتہائی اہم اداروں سے متعلق استعمال کرتا ہے۔امن کی آشا کے چمپئین کیا نہیں جانتے کہ بھارت میں اقلیتوں،بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا، کیا کبھی انکے میڈیا کو اتنا آپے سے باہر دیکھا ہے،یہاں تک کہ جس گروپ کے ساتھ امن کی پینگھیں بڑھائی جارہی ہیں اُسی گروپ نے آئی ایس آئی سے متعلق خبر پر خوب ہاتھ صاف کئے۔

۔۔پوری دنیا اور بالخصوص بھارت کی نظر میں کھٹکتی آئی ایس ٓئی اور اُسکے حاضر سروس چیف کی خبر جب اُسی ملک کے ایک بڑے میڈیا گروپ کی جانب سے بمعہ تصویر روندی گئی تودشمن کو تو جیسے سلطانی گواہ مل گیا۔ مبینہ غداری کیس میں مشرف کا بھر پور میڈیا ٹرائل جبکہ اُسی طرح کے دوسرے جُرم میں شکیل آفریدی پر پُر اسرار خاموشی کیا تشویش ناک نہیں ہے۔جس طرح بھارتی میڈیا ہر پاکستانی خبر کو آڑئے ہاتھوں لیتا ہے آپ ذرا اُنکے کرتوتوں کامیڈیا ٹرائل کر کے تو دیکھیں،لگ پتا جائے گا۔

یہ لوگ جانتے ہیں کہ ا یسا کرنے سے سب سے پہلے امن کی آشا کھوڈے لائین لگے گی جس کی محبت کی بدولت یہ بیگانگی کی حدوں کو چُھو رہے ہیں۔جناب عالی! میں نے عرض کیا نا یہ سارا معاملا اپنی پسندناپسند، اپنی مرضی و منشا،ذاتی مفاد اور مطلب کی صحافت کا ہے۔ صحافتی اُصول اور تقاضے سب کاغذوں کی حد تک ہیں اور ہمارے ہاں اکثریت اسی پالیسی سچ پر مبنی صحافت کے پیروکار ہے۔اب تمام مسائل کا حل صرف ایک ہی ہے کہ سب مطلب کا سچ یا پالیسی سچ بولنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا سچ بولنا شروع کر دیں تو یعقیناصحافت سمیت دیگرادارے بھی سُدھر جائیں گے بصور ت دیگرآگے آگے بہت مشکل ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :