ہم عوام ہیں…ہمیں اپناحق چاہئے

جمعرات 15 مئی 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

ہم عوام ہیں ، پاکستان کے شہری ہیں، ہم بھی اُن مصائب سے گزرتے ہیں جن سے پاکستان کی اٹھارہ کروڑعوام گزررہی ہے۔ گزشتہ دنوں 11مئی کو جمہوری حکومت کاایک سال پوراہونے پرحکومت کی جانب سے یوم جمہوریہ اوراپوزیشن کی جانب سے جمہوریت کوتنقید کانشانہ بناتے ہوئے عوام کو ادراک کروانے کی کاوش کی گئی کہ اس نام نہاد نظام کو جمہوریت نہیں کہتے جس میں کروڑوں لوگ دووقت کی روٹی کوترستے ہوں لہذا جمہوریت میں احتجاج کرنا جمہوریت کاحسن ہے اِن احتجاجوں سے جمہوریت کو خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ جبکہ جمہوریت کو اصل خطرہ دھاندلی سے ہوتا ہے۔ ادراک کرلیں صاف شفاف الیکشن سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر 11مئی کو تحریک انصاف اورعلامہ ڈاکٹرطاہر القادری نے عوام کو شعور دینے کی بھرپور کاوش کی اور میرایمان ہے کہ عوام کی اکثریت کو اگر اِن کا پیغام سمجھ میں آگیا تو اِس کوملک کی خدمت سمجھاجائے گا مگر ناقدوں کو تنقید کرنے سے کون روک سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

فرماتے ہیں کہ احتجاج ، ہڑتال ، جلوس ، جلسے اور دھرنے ہماری قومی سیاست کی ایک اہم برائی بنتی جارہی ہے۔ مگر حیران کن بات ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں آخر اُس وقت کیوں ہوتی ہیں جب ملک میں جمہوری حکومت قائم ہو۔ مارشل لاء یافوجی آمریت کے دور میں احتجاج ،دھرنے دینے والوں کوسانپ کیوں سونگھ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے دھاندلی کے خلاف 11مئی کے احتجاج سے قبل مختلف سیاستدانوں کے بیانات جمہوری معاشرے سے بالکل برعکس تھے ۔ مثلاً رانا ثناء اللہ فرماتے ہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری مجرم ہیں نیز عمران خود پاگل ہے اور قوم کو افراتفری کاشکارکرناچاہتا ہے ۔ مولانا فض الرحمن فرماتے ہیں کہ عمران خان کے احتجاج کاکوئی جواز نہیں ۔ سعدرفیق کابیان عمران کامسئلہ نفسیاتی ہے لہذا جلسہ ناکام ہوگا۔ شہبازشریف کاکہناتھا کہ 18کروڑ عوام تخریبی اورانتشار کی سیاست کو یکسر مستردکردینگے۔ اپنی خوبصورت کاسہارالینے والی مریم نواز فرماتی ہیں کہ عمران کادھرنا دھرنی ثابت ہوگا مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ تمام ناقدوں کے سَراُن کے گھٹنوں میں جھُک جاتے ہیں جو عوام کئی مہینوں سے 12یا 11گھنٹے لوڈشیڈنگ کے زیرسائے اذیت سے گزربسرکررہی تھی چند روزبجلی کی فراہمی مسلسل ملنے لگی تو عوام ادراک کرنے لگی کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھی اب ادراک ہوجاناچاہئے کہ پارلیمنٹ میں آکر بات کرنے کی دعوت احتجاج کرنے والوں سے کیوں کرتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں عوام کے مصائب کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کیاجاتا۔ مجھے یہ سوچ اورتنقید بھی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ جب تنقید کرنے والے عمران خان یا طاہر القادری کے ہرجلسے کوجمہوریت کے خلاف کہتے ہوئے جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے کی کاوش سے تشبیہہ دیتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ جمہوریت سے عوام کو بدظن کرنے کے ہرحربے استعمال کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اورطاہرالقادری کے اقدام ملک کے لئے کبھی بھی نقصان دہ ثابت نہیں ہوئے اورنہ ہی اِن کے جلسے جمہوریت کے لئے کبھی نقصان دہ ثابت نہیں ہوئے۔ خیال رہے جمہوریت میں آمریت کو بھی خطرہ لاحق نہیں ہوتا البتہ اِن کے جلسوں سے عوام کو یہ پیغام دیاجاتا ہے کہ جمہوریت اور آمریت میں کیافرق ہے نیز جمہوریت کس چڑیاکانام ہے جو فی الوقت جمہوریت کے دور میں بھی عوام کوجمہوریت میسر نہیں ۔ یہی وہ نقطہ ہے یہی وہ فکر ہے جس سے تمام مفاد پرست سیاستدان ذاتی مفاد والے قلمکارپریشان ہوتے ہیں کہ کہیں عوام شعور حاصل کرکے حکومت سے اپناحق مانگنے کے لئے جاگ نہ جائیں لہذا عوام کے ذہنوں کو منتشرکرنے کے لئے متعدد مخالف بیانات ڈالے جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں نون لیگ کے رہنماوٴں کاخیال ہے کہ درحقیقت خان صاحب کااحتجاج اپنی جماعت کے لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے ہے کیونکہ پچھلے ایک سال میں PKمیں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پنجاب حکومت کی کارکردگی کی نسب کمزوررہی لہذا اُن کی پارٹی کے لوگوں کو احساس ہونے لگا ہے کہ باتیں کرناآسان ہے حکومت کرنا مشکل ہے جبکہ عمران خان کاکہنا ہے کہ 11مئی کے احتجاج کامقصد عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے چوری شدہ مینڈٹ کانتیجہ ہے۔ایسے موقع پرپاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف فرماتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے پارلیمنٹ میں آکر بات کریں۔ اس موقع پر عوام اپنے وزیراعظم سے سوال کرتی نظرآتی ہے کہ جناب کیاواقعی عوامی مسائل پارلیمنٹ میں آکرہی حل ہوتے ہیں مگرعوام دیکھ رہی ہے کہ 11مئی کے الیکشن میں عوام سے کئے ہوئے کتنے وعدے آپ کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں آکر پورے کئے۔ جناب وعدے تو دور کی بات پوراسال عوام کو کڑوی گولی کھانے ، عوام کومصائب برداشت کرنے اور مزیدقربانیاں دینے کے دل جلے بیانات سے قوم کا(ن) لیگ پراعتماد کرنے کے عمل کی جگ ہنسائی ہوتی نظرآئی۔ جناب ادراک کرلیں جب پارلیمنٹ میں مفاد پرست خاندانی ریاستی ٹولہ قابض ہوکر اپنے اپنے مفادات کے حصول میں لگ کر عوام کے حقوق غضب کرنے لگے تو پھر بات پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ سڑکوں پر احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں باقی رہ جاتی ہے اگرکسی بھی سیاسی پارٹی کے دھرنوں اورعوام کو چند روز کے لئے مسلسل بجلی میسرآجائے یابھوکے کو چند روز کے لئے دو وقت کی روٹی مل جائے یابیمار کورات کو پُرسکون نیند میسرآجائے توپھر پارلیمنٹ جیسے پُروقار ادارے پرکون اعتماد کرے گا لہذا اقوام بالا سے گزارش ہے کہ جو ملکی ادارے جس مقاصد کے لئے قائم کئے گئے ہیں اُن کاتقدس بحال کیاجائے تاکہ احتجاج اوردھرنوں کی نوبت ہی نہ آئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :