غبارِ خاطر

منگل 13 مئی 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

غبار خاطر مولانا ابو الکلام آزاد( مروم) کے کچھ خطوط پر مشتمل، اُن کی ایک کتاب کا نام ہے، اُن سے معذت کے ساتھ )
عبدالرحیم انجان کی چوتھی کتاب ” سوچ کا سفر ، وزارت ِ عظمی تک “ کا پیش لفظ
۔۔۔۔۔۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا (مومن )
آنکھیں بند کر کے ، نا رسائی کی دیواریں مسمار کرتے ہوئے، قرب کے رشتے فقط دِلوں پر راج کرنے والی دلنواز ہستیوں ہی کے ساتھ نہیں جوڑے جاتے ، بڑی طاقتوں کے Pay Role پر کام کرنے والے غداران وطن اور اپنی ریاستی طاقت کے نشے میں بد مست فرعونوں سے بھی جوڑے جا سکتے ہیں اور کسی بڑے فرعون سے پوچھا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)


” مسٹر پریذیڈنٹ ! آپ دنیائے انسا نیت کو لوہے کے چنے کیوں چبوا رہے ہیں ؟آپ نے دنیا کے امن میں زہر کیوں گھول رکھا ہے ؟ آپ اپنی ریاستی دہشت گردی کے خلاف سر اٹھانے والوں کو دہشت گرد کیوں کہتے ہیں ؟
”خبریں“ اخبار کی ایک خبر کے مطابق پنجاب کی کسی جیل میں کوئی امریکن ریمند ڈیوس سے ملنے گیا تھا ، اور اُس نے کسی بات پر مشتعل ہو کر جیلر کو تھپڑ مار دیا تھا اور جیلر بڑی بے چارگی سے اُس بد مزاج امریکن کا مُنہ دیکھتا رہ گیا تھا، پرانی خبر ہے ،لیکن اپنی قومی توہین اور پاکستانی ہونے کی بے بسی کا یہ زخم ذیا بیطس کے مریض کے کسی زخم کی طرح تا حال میرے دل پر محفوظ ہے, بھرتا ہی نہیں۔

کاش ! کوئی با وقار حاکمِ پاکستان اُس امریکن کو بلا کر اس کے مُنہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے ، اُسے کہتا۔” جاوٴ !اُس جیلر سے جا کر اپنی بد تمیزی کی معافی مانگو، جو تمہارا تھپڑ کھانے کے بعد ساری رات اپنے پاکستانی ہونے پر لعن طعن کرتا رہا ہو گا“ ہمارے اس دُور کے وزیر اعلیٰ پنجاب (ہماری بد نصیبی کہ آج بھی وہی ہیں ) جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی انگشت ِ شہادت نچا نچا کر اپنے ماتحتوں کی خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں۔

لیکن اُس امریکن کی یہ بد تمیزی وہ بھی بڑی خاموشی سے پی گئے تھے اور بعد میں دو معصوم پاکستانیو ں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا گیا تھا،سوال ہے ، آ خر کیوں ؟
ہمارے ملک میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے،اُس کے بارے میں صاحب غورو فکر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کی سر پرستی میں ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ہمارے سابق سفیرحسین حقانی نے آٹھ ہزار اُن امریکنوں کو ویزے دئے تھے۔

جن کا تعلق امریکہ کی ،اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے، رسوائے زمانہ تنظیم بلیک واٹر سے ہے اورریمنڈ ڈیوس بھی اسی تنظیم سے تعلق رکھتا تھا۔
مئی ۲۰۱۴ ء ء کے پہلے ہفتے میں کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار ہونے والے ایف۔بی۔آئی کے ایجنٹ جو ئیل کاکس کو بھی امریکن سفات خانے اور حکومت کے دباوٴ میں آ کر ملیر کینٹ کی ایک عدالت نے دس لاکھ کی ضمانت کے عوض چھوڑ دیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ بعد میں اس کا کیس بھی ختم کر دیا جائے گا۔

سوال ہے ، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے مجرموں کو امریکی سفار خانے کے دباوٴ پر چھوڑنے کے لئے ہم کیوں مجبور ہو جاتے ہیں۔جب کہ ہماری بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی محض امریکہ کے اِس من گھڑت الزام میں کہ اس نے امریکن فوجیوں پر حملہ کیا تھا،امریکی عدالتوں سے عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے ۔ہماری ہر درخواست کے جواب میں امریکہ نے ہمیشہ یہ جواب دیا ہے کہ ہم امریکی عدالتوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔

لیکن وہی امریکن ہمارے عدالتی نظام میں دخل اندازی کر لیتے ہیں۔کس حق سے ؟ اور کیوں ؟ سوال ہے امریکیوں کی دخل اندازی قبول کرنے والے ہمارے حکمران، قوم کو بے غیرتی کے کس گڑھے میں دہکیل رہے ہیں؟کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ قومی کردار اور قوم کے اعلیٰ اخلاق کی پختگی اور استواری کا حقیقی سر چشمہ” آزادی“ اور” خود داری“ ہے اور ہمارے لیڈر ہماری آزادی اور خود دواری ڈالروں کے عوض نیلام کیوں کر رہے ہیں ؟ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ہمارے دو بڑے لیڈر آ صف علی زرداری اور میاں نواز شریف قوم و ملت پر بوجھ بن گئے ہیں۔

جو بیرون ِ ملک اپنے اربوں ڈالرز کے سرمائے، جائیدداوں اور بزنس ایمپائرز کی حفاظت کے لئے اپنی قوم کی عزت و وقار اور مفادات کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے امریکہ کے جائز و نا جائز احکامات کی تعمیل کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔آ خر کیوں ؟کوئی ہے جو غریب قوم کے ارب کھرب پتی لٹیروں کو گریباں سے پکڑ کر پوچھے کہ سیاست میں آنے سے پہلے تم لوگوں کی مالی حیثیت کیا تھی اور اب کیا ہے ؟ ظاہر ہے سب کا ایک ہی جواب ہو گا کہ ہم نے اپنی موجودہ مالی حیثیت اپنے بزنس سے کمائی ہے۔

ایسے جھوٹے لیڈروں سے سخٹی کے ساتھ پوچھا جا نا چاہیے کہ تمہارے اتنے کامیاب بزنس نے، قوم و ملت کو انکم ٹیکس کتنا ادا کیا ہے ؟
میرے قارئین کرام اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ میں ساری عمر عوامی حکومتوں میں مداخلت کرنے والے فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف لکھتا رہا ہوں ۔لیکن اس لولی لنگڑی جمہوریت نے پاکستان کو ، پاکستانی معیشت کو اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کی عزت و وقار اور غیرت کو جس طرح رسوا و ذلیل کیا ہے اور ہنوز کر رہی ہے۔

اُس کے پیش نظر میں اپنی زیر نظر کتاب ” سوچ کا سفر، وزارت عظمی تک “ کا انتساب جنرل راحیل شریف کے نام کر رہا ہوں۔فقط اُن کے خاندانی پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے، جناب راحیل شریف کے والد گرامی قوم و ملت اور اپنے منصب کے ساتھ مخلص ایک عظیم فوجی تھے۔جناب راحیل شریف کے ایک بھائی اور ایک ماموں کسی محاذ پر شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر، فوج کا سب سے بڑا اعزاز’ نشان حیدر‘ پا چکے ہیں۔

دو دو شہیدوں اور’ نشانِ حیدر‘ کے اعزازات یافتہ عظیم فوجیوں کے ساتھ تعلق کا فخر رکھنے والے جنرل راحیل شریف سے میرا ایک سوال ہے۔ کیا وہ اِس لولی لنگڑی جمہوریت ،جسے رسوائے زمانہ دھاندلی نے جنم دیا ہے، کی لوٹ مار کے تماشے خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہیں گے ؟میں ہر گز نہیں چاہتا کہ آپ مارشل لگا کر افواج پاکستان کو مزید بد نام کریں،ہاں ، یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ کچھ ماہ کے لئے کسی بھی نوعیت کی ایمر جنسی لگا کر صرف تین کام کر کے قائد اعظم کے پاکستان کو بچا لیں
(۱) کیا چھوٹے اور کیا بڑے سبھی سیاسی لیڈروں کو، بشمول سول بیورو کریٹس کے، آئین پاکستان کی شق نمبر62/63 کی کسوٹی پر پر کھتے ہوئے سیاست دانوں اور عدل و انصاف کے محافظوں میں سے مُنہ کالی بھیڑوں کو اُن کے انجام تک پہنچا یا جائے۔

”این۔آر۔او“ سے فائدہ اٹھا کر ملک کو سینکڑوں ارب کا نقصان پہنچانے والے بے ایمان عوامی لیڈران سے فقط اُن کی لوٹ کھسوٹ کا سرمایہ ہی واپس نہ لیا جائے ۔ اُنہیں عبرت ناک سزائیں بھی دی جائیں، تا کہ کوئی بے ایمان اور ضمیر فروش انسان میرے وطن عزیز کے کسی بھی شعبے میں نظر نہ آئے اور ہمارے ہاں بھی ترقی پذیر ممالک کی طرح جرم و سزا کا کوئی خوف پیدا ہو سکے۔

ہمارے ہاں کے موجودہ معاشرے میں تو’ جس کی لاٹھی ،اُس کی بھینس ‘کا نمائندہ ، جرم و سزا سے بے خوف ایک ایسا معاشرہ قائم ہو چکا ہے،جو ہمیں دن بدن تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ غریب اور بے اختیار لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کر کے اپنا گھر چلانے کا کوئی وسیلہ نہیں مل رہا،وہ زندگی سے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔خود کشیاں کر رہے ہیں ۔

جرم و سزا سے بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ ہماری بچیوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے،گینگ ریپ کی شکار بچیاں انصاف سے مایوس ہو کر تھانوں کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر آتش سوزی کر رہی ہیں ۔ جب کہ کسی بھی حکومت کی رِٹ ’عدل و انصاف‘ سے قائم ہوتی ہے۔’ عدل و انصاف‘ ہی سلطنت کی طاقت بنتا ہے۔عدل و انصاف کے حوالے سے ایک واقعہ بے محل نہیں ہو گا۔

جب حضرت خالد بن ولید نے اپنے دور کی طاقت ور تریں ایمپائر ایران کو فتح کیا تو خالد بن ولید نے ایران کے ایک کمانڈر سے کہا۔” تم کیا سمجھتے تھے کہ تم ہمیں شکست دے لوگے ۔تم نے دیکھا نہیں کہ ہمارے ہاں عدل و انصاف کا نظام کتنا بے مثال ہے “ یاد رہے کہ خالد بن ولید نے اپنی فتح کا سبب اپنی فوجی طاقت کو نہیں ، اپنے نظام کار میں ’عدل و انصاف ‘ کی طاقت کو ٹھہرایا تھا۔

جبکہ ہمارے ہاں ہر با اختیار انسان اس حقیقت کو فراموش کر چکا ہے کہ اللہ جب اپنے کسی بندے کو طاقت اختیار دیتا ہے تو ،اللہ کی بے آواز لاٹھی کو سمجھنے اور اُس سے ڈرنے والے لوگ، اُس طاقت اختیار کو، اپنے لئے امتحان سمجھتے ہیں کہ انہیں بعد میں اللہ سبحان و تعالی ٰ کے حضور میں اپنے ایک ایک فعل کا حساب دینا ہوتا ہے۔الغرض ہمارے سیاسی نظام میں سے مُنہ کالی بھیڑوں کا صفایا مخلوق ِ خدا کی فلاح و بہبود کے لئے بے حد ضروری ہے۔


(۲) ہمارے لیڈروں میں سے کوئی بھی لیڈر، قوم کی بھلائی کا کام کر کے قوم کو اپنے پیچھے لگا کر لیڈری کرنے والا لیڈر نہیں ہے۔یہ ووٹس کے بہکاری لیڈر قوم کے پیچھے چلنے والے لیڈر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے گا کہ کا لا باغ ڈیم بنا کر ، وہ کالا باغ ڈیم پر بے سرو پا اعتراض اٹھانے والے لوگوں کے ووٹس سے محروم ہو جائے گا اورقوم و ملت پر پانی کی قلت کے جو خطرات منڈھلا رہے ہیں، اُن کے پیش نظر کالا باغ ڈیم قوم و ملت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

پلیز ! اپنے اختیارات کی طاقت سے کالا ڈیم بنوا دیں۔
(۳) الیکشن ۲۰۱۳ ء ء میں جو جو لوگ دھاندلی میں شریک ہوئے ہیں ،انہیں عبرت ناک سزائیں دے کر آئندہ کے الیکشن کے لئے ایک صاف شفاف نظام قائم کرتے ہوئے جنرل محمد یحیٰ خاں کی طرح ایک صا ف شفاف الیکشن کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے واپس اپنی بیرکس میں چلے جائیں۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بڑی بے دردی سے دونوں ہاتھوں سے لوٹے جانے والے پاکستان اور مظلومیت کی چکی میں پستے ہوے غریب و بے بس پاکستانی عوام پر یہ تین احسان کرنے والا جنرل ،نہ صرف فوج کے دامن پر لگے ہوئے مارشل لاء کے بد نما داغ دھونے کا ذریعہ بن جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں قائد اظم ہی کی طرح ہمیشہ زند و پائندہ بھی رہے گا۔

انشا اللہ !
میں فقط انسان کا دوست ہوں اورمیرے قریب انسان کی بڑھائی کا پیمانہ صرف اُس کا کردار ہے ، اُس کی امارت نہیں ہے اور میں ایک سفید پوش لیکن صاحب ِ کردار انسان کے مقابلے میں اپنے اکثر لیڈروں کو انتہائی معمولی اور کمتر انسان سمجھتا ہوں ، جو ہوسِ زرِ کی دوڑمیں ذلت و رسوائی کی ساری حدیں عبور کر چکے ہوئے ہیں اور جنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہو رہا کہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں۔

آدھی دنیا کے فاتح سکندر اعظم نے اپنے ہاتھ کفن سے باہر رکھنے کی وصیت کی تھی تا کہ دنیا دیکھ سکے کہ سکندر اعظم دنیا سے خالی ہاتھ گیا ہے۔
ہمارے لیڈروں کی شرمناک گمراہی میں ہم عوام بھی برابر کے حصے دار ہیں، اپنے لیڈروں کے ساتھ ساتھ مجھے خود پر بھی غصہ آتا ہے کہ آ خر یہ لیڈر آسماں سے تو نازل نہیں ہوتے، اِنہیں لیڈر تو ہم عوام ہی بناتے ہیں اور ہم عوام کا کردار کیا ہے ؟ ریت کے گھروندوں سے بھی زیادہ کمزور ، جنہیں ہمارے جھوٹے لیڈروں کے جھوٹے وعدے ہوا کے کسی سر کش جھونکے کی طرح اڑا کر لے جاتے ہیں۔

ذرا غور فرمائیں ! ہم چار پاکستانی جہاں اکٹھے ہو جائیں ، اپنے لیڈروں کی لوٹ مار ہمارا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے،ہم گھنٹوں اس موضوع پر باتیں کرتے اور اپنے لیڈروں کی لوٹ مار پر کڑھتے رہتے ہیں اور پھرغریب قوم کے اُن ہی لٹیروں میں سے کوئی ہماری کسی محفل میں آ جائے تو ہماری سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں اس کے قریب ہی کہیں بیٹھنے کی جگہ مل جائے،اُس بڑے لیڈر کے ساتھ ہماری ایک آدھ تصویر بھی بن جائے۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ قصہ بے محل نہیں ہو گا ۔یہاں پاکستانی کمیونٹی میں سلیم جنجوعہ صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کینیڈا کے صدر تھے۔کسی زمانے میں ان کا سٹیل ایونیو ویسٹ پر” کومبو“ کے نام سے ایک بہت بڑا رستوراں بھی تھا۔ جہاں وہ ملک سے آنے والے پیپلز پارٹی کے لیڈران کی پارٹیاں کرکے بہت خوش ہوا کرتے تھے ، ایک یوم پاکستان کے موقعہ پر، جب کہ وطن عزیز سے پیپلز پارٹی کے کچھ وزا اور پارلیمانی ممبران حضرات یہاں تشریف لائے ہوئے تھے،سلیم صاحب نے اپنے ریستوراں میں مہمان لیڈران قوم کے اعزاز میں ایک پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا۔

جس میں مقامی وزرا اور ممبرآف پارلیمنٹ بھی مدعو تھے۔ میں اس زمانے میں
” ملاقات “ کے نام سے ایک فیملی میگزین شائع کیا کرتا تھا۔سلیم صاحب نے اُس یاد گار دعوت میں اپنے چند دوسرے دوستوں کے ساتھ مجھے بھی مد عو کر رکھا تھا۔ خوب گہما گہمی رہی،پاکستان سے آنے والے وزراء اور پارلیمانی ممبران نے خوب تقریریں چھلکائیں۔حب الوطنی کے جوش میں آسماں کے تارے تک نوچ کر ، لیلائےِ وطن کی مانگ میں سجا دینے کی باتیں کرتے رہے اور داد سمیٹتے رہے۔


بہر کیف، اسے اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ کچھ دنوں کے بعد میں سلیم صاحب ہی کے رستوراں میں بیٹھا تھا کہ مذکورہ فنگشن کے فوٹوز آ گئے،فوٹو کافی تعداد میں تھے۔سلیم صاحب ایک ایک فوٹو کو بڑی غور سے دیکھ رہے تھے۔پھر اچانک ہی وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔انجان صاحب ! کیا آپ اس فنگشن میں شریک نہیں تھے ؟
”بھئی ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ بلائیں اور میں نہ آوٴں۔

میں اس فنگشن میں ضرور تھا۔۔“
”لیکن اِن فوٹوز میں تو آپ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔۔“
”سلیم بھائی ! میں اُس کونے میں “ میں نے ریستوران کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ایک سیٹ پر بیٹھا تھا، آپ کے لیڈروں میں سے کوئی میرے ساتھ فوٹو بنوانے کے لئے میرے پاس آیا ہی نہیں۔“
سلیم جنجوعہ صاحب نے ظاہر تویہی کیا تھا کہ وہ میرے اس جواب سے خاصے لطف اندوز ہوئے ہیں، لیکن عین ممکن ہے، اُنہوں نے دل ہی دل میں مجھے گالیاں بھی دی ہوں کہ وہ خود بھی پی۔

پی۔ پی کے سبھی جیالوں کی طرح پیپلز پارٹی کے سبھی لیڈران کو دیوتاوٴں کا درجہ دیا کرتے تھے۔یہ سب کچھ لکھنے سے یہ جتلانا مقصود ہے کہ اگر ہمارے لیڈروں کا کوئی کردار نہیں تو ہمارے عوام بھی ان ہی کے قبیلے سے ہیں۔
عیوب سے پاک اور مکمل ذات صرف اور صرف اللہ سبحان و تعالی کی ہے، کوئی بھی انسان عیبوں سے پاک نہیں ہو سکتا۔کسی انسان کی اچھائی برائی کا میرے قریب بس ایک ہی پیمانہ ہے، جس میں خوبیاں زیادہ اور برائیاں کم ہیں، وہ اچھا ہے اور جس میں برائیاں زیادہ اور اچھائیاں کم ہیں ، وہ برا ہے،
صحافت کا منصب راہنمائی ہے۔

لیکن ہمارے ہاں کیا چھوٹے اور کیا بڑے، صحافیوں کی اکثریت کے ہاتھ سے اپنے فرائض ِ منصبی کا دامن چھوٹ چکا ہے،صحافیوں کی اکثریت ہر قومی مسئلے کو اپنے پیٹ کی آنکھ سے دیکھتی اور اپنے پیٹ ہی کی آسودگی کو پیشن ِ نظر رکھتے ہوئے صحافت کرتی ہے۔جھوٹ سچ کی انہیں قطعاً کوئی پروا نہیں رہی۔ جن کی خرافات کو پڑھ اور سن کر مجھے بے اختیار فیض# کی نظم کتے یاد آ جاتی ہے۔


یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق ِ گدائی
زمانے کہ پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
سر زمین وطن ماں کا درجہ رکھتی ہے اورلعنت ہے ایسے لیڈروں اور صحافیوں پر جو چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں کے دوپٹے کا سودہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں یعنی اپنی ماں کے سینے پر مونگ دلنے والے مجروں کو دوسروں کے دباوٴ میں آ کر چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ نہیں کہ ہمارے سبھی لیڈر بے ایمان اور کرپٹ ہیں۔اِن میں کچھ محب وطن اور ایماندار لوگ بھی یقیناً ہوں گے۔لیکن مجھے یہ چند سطور لکھتے ہوئے بڑا دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارے ہاں اوپر سے لے کر نیچے تک برے لوگوں کی اکثریت نے ہمارے ہاں کی سیاست کو کسی بد بو دار گندے جوہڑ میں بدل دیا ہے۔ اسے آپ میری بد گمانی کی انتہا بھی کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اپنے ہر لیڈر سے بو آتی ہے ۔
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر ، سو ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :