تمہیں خاموش رہنے کی یہ عادت مار ڈالے گی!

اتوار 11 مئی 2014

Shahzad Ch

شہزاد چوہدری

کچھ عرصہ پہلے میں نے فیس بک پہ ایک سوال کیا تھا کہ ملک کی موجودہ صورت حال کا سب سے بڑا ذمہ دار کو ن ہے ؟نوے فیصد لوگوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی ذمہ دار پاکستانی عوام ہے کیونکہ اس کا طرز عمل کولہو کے بیل جیسا ہے ۔ قیامت ہی کیوں نہ بیت جائے ۔ کچھ کرتی ہی نہیں ۔غربت و افلاس کے اس درجے پر پہنچ چکی ہے جہاں جسم و روح کا تعلق قائم رکھنا مشکل تر ہو گیا ہے ۔

لوگ گردے بیچ کر گذارا کر رہے ہیں ۔بہنوں اور بیٹیوں کے بال اپنی اپنی دہلیزوں پہ بیٹھے بیٹھے سفید ہو چکے ہیں ۔نوجوان ڈگریاں تھامے ایزی لوڈ کی دکانوں پہ کام کر رہے ہیں ۔ہر جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو رہا مگر پھر بھی سب کی زبانیں گنگ اور گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ بم دھماکوں میں مر رہے ہیں یا خود کشیاں کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہاں باتوں کی حد تک حکومت وقت کو گالیاں ضرور دیتے ہیں۔

الیکشن کا ڈرامہ لگتا ہے تو گلے پھاڑ پھاڑ کر آیا آیا شیر آیا ۔۔۔۔۔میں بال کھلاواں بی بی دے ۔۔۔اک زرداری سب پہ بھاری ۔۔۔اگلی واری پھر زرداری کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر ووٹ بھی انہیں کو دے دیتے ہیں ۔ عجیب لوگ ہیں اپنے ہاتھوں اپنا اور اپنے بچوں کے مستقبل کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔یہ بے حسی ہے یا اس سے بھی اگلے درجے کی کوئی چیز !!!! تاریخ پہ نظر ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ بر صغیر کے لوگ ہی شائد ایسے ہیں ۔

۔۔جو بھی حکمران بنا ۔۔۔ جیسے بھی بنا ۔۔ جیسا بھی بنا اسی کے ساتھ ہو جاتے ہیں ۔۔۔مغل آئیں تو ان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔لودھی آئیں تو انکے ساتھ ۔۔۔انگریز آئیں تو انکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب خان آئے تو اسکی ساتھ ۔ یحیٰ آئے تو اسکے ساتھ ۔۔۔۔بھٹو آئے تو اسکے ساتھ ۔۔۔ضیاء ٓئے تو اسکے ساتھ ۔۔۔۔بے نظیر آئے تو اسکے ساتھ ۔۔۔نواز شریف آئے تو اسکے ساتھ ۔

۔۔۔۔۔۔۔مشرف آئے تو اسکے ساتھ ۔۔۔۔اور ان میں سے کوئی بھی جائے تو پھر مڑ کر بھی نہیں دیکھتے ۔۔
پینسٹھ برس گذر گئے ۔۔۔۔بہت کچھ بدل گیا ۔۔۔اک نہیں بدلا تو عوام کا مقدر نہیں بدلا۔بدلتا بھی کیسے آمریت اور جمہوریت کے نام پر بہترین انتقام جو لیا جا رہا ہے ۔ ملک پہ ایک فرسودہ نظام کا قبضہ ہے جسے اکثر دانشور جمہوری اور میں فرعونی نظام کہتا ہوں ۔

۔ کوئی غور تو کرے اگر پاکستان انیس سو سینتالیس میں آزاد ہو گیا تھا تو ملک کا نظام ابتک انڈین ایکٹ انیس سو پینتیس کے مطابق کیوں چلایا جا رہا ہے ؟؟؟؟ بعض قوانیں سن انیس سو سے بھی پرانے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پینسٹھ برس۔۔۔۔۔۔۔بڑا عرصہ ہوتا ہے !!!!!!!! دو نسلیں جوان ہو چکیں ۔۔۔۔۔۔پر کھوتی اسی بوڑھ کے تھلے ہے ۔
سوچتا ہو ں کی اس ملک کی غالب اکثریت اور عوام تو مسلمان ہے ۔

۔۔۔کیا یہ عوام فریضہ قیام جماعت اور اسکے اغراض و مقاصد سے لا علم ہے ۔۔۔کیا اسلامی تعلیمات واضح نہیں کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے ۔۔۔۔۔کیا کسی کو معلوم نہیں کی حکم کب دیا جاسکتا ہے ؟؟؟؟ظاہر ہے جب ملکی اقتدار اس جماعت کے پاس ہو ۔۔۔۔۔۔۔سیاسی جماعتوں کو تو چھوڑیں ۔۔ یہ مذہبی جماعتیں کیا کر رہی ہیں ؟؟؟؟؟کچھ تو صرف تبلیغ میں مشغول ہیں اور کچھ پچاس برسوں سے اسی فرسودہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں ۔

۔۔۔۔۔صرف تبلیغ کرنے والے سو برس بعد بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکے اور جو اس نظام کا حصہ بن کر جدو جہد کر رہے تھے ۔وہ پچاس سالوں میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکے۔۔۔پھر بھی اسی نظام سے چمٹی ہوئے ہیں ؟؟؟؟؟؟ جب مرض کی تشخیص ہی نہیں کر سکے تو علاج کیا کریں گے ؟؟؟؟؟اگر تو کچھ سیٹیں اور وزارتیں لینا ہی مقصد ہے پھر تو ٹھیک ہے اور اگر مقصد واقعی تبدیلی لانی ہے تو اس فرسودہ نظام سے باہر آنا ہو گا ۔


یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ اہل ایمان اور افراد معاشرہ کے کام کی دو سطحیں ہیں ۔ ایک تو ذاتی زندگی کو اسلام اور انصاف پہ مبنی نظام کے طابع لانا ہے اور دوسرا پورے معاشرے میں منصفانہ نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں اپنا موثر کردار ادا کرنا ہے !!!!! اگر معاشرے کے افراد اور عوام پہلی سطح پر کام کریں تو معاشرے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی اور انقلاب نہیں آئے گا بلکہ ظلم بڑھتا جائے گا ۔

دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گی ۔۔۔۔۔امیرامیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا ۔۔۔ عوام پستی کی طرف اور چند خاندان خوشحال ہوتے جائیں گے ۔
قرآن مجید کی اس آیت کو جب میں پڑھتا ہوں جس کا مفہوم ہے کہ اگر عذاب آ گیا تو اس میں صرف گنہگار ہی نہیں بلکہ چپ بیٹھنے والے نیکو کار بھی رگڑے جائیں گے ۔۔۔تو سوچتا ہوں ظلم پہ مبنی نظام کے خلاف نہ اٹھنے والے چپ بیٹھے ہوئے ان لوگوں کا کیا بنے گا؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟ اتنے واضح حکم کے باوجود ان کی زبانیں گنگ کیوں ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا عوام میں اہل کوفہ کی روح حلول کر گئی ہے ؟؟؟؟؟؟ان کی اسی خاموشی نے انہیں اس حال تک پہنچایا ہے اور انکی یہی خاموشی ایک دن انہیں مار ڈالے گی ۔

ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہاتھ پر ہاتھ دھر کر چپ بیٹھے رہنے سے کبھی بھی ممکن نہیں ہے ۔ اس کے لئے باہر نکلنا اور آواز بلند کرنا ہوگا ۔۔۔ فریضہ قیام جماعت اور اسکے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا ۔کسی ایسی جماعت کے ساتھ ملکر جدو جہد کرنا ہو گی جو اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتی ہو ۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ جماعت کونسی ہے ؟ میری نگاہ میں دو بڑی جماعتیں اس وقت اس نظام کو بدلنا چاہتی ہیں ۔

۔۔ایک ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک اور دوسری عمران خان کی تحریک انصاف ۔۔۔مگر ان دونوں میں ایک واضح فرق ہے ۔۔۔۔۔تحریک انصاف اسی فرسودہ نظام کا حصہ بن کر اسے تبدیل کرنا چاہتی ہے بعض معاملات پر عمران خان ایک سال پہلے بھی تذبذب کا شکار تھے اور ابھی تک ہیں ۔اور چند ڈبل ایجنٹوں کے گھیرے میں بھی جو انہیں کوئی واضح فیصلہ کرنے نہیں دے رہے۔

اور عوامی تحریک اس نظام کو ہی اصل فساد کی جڑ قرار دیتی ہے ۔اور اسے مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک نیا نظام لانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔مگر کیسے ؟؟؟؟ اس نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں اور سلسلہ اشرافیہ، سرمایا داریہ ، جاگیر داریہ ،سرداریہ اور زرداریہ اس نظام کے سرپرست ہیں کہ انکو یہی نظام سوٹ کر تا ہے عوام کا اس نظام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اس نظام کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے چپ بیٹھنے والی قوم باہر نکل کا اپنے حقوق کے لئے منزل کے حصول تک پر امن احتجاج نہیں کرتی ۔

ڈاکٹر قادری پچھلے برس دھرنا دیکر اپنی جماعت کے نظم کو آزما چکے ہیں ۔۔۔مگر اکیلی انکی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ انقلاب لے آئے۔۔۔ ۔ اب اگر انکی جماعت کے ارکان کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی باہر نکل آتے ہیں اور آواز بلند کرتے ہیں تو اس نظام کا دھڑن تختہ ممکن ہے ۔ میں عوام کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر قادری پاکستان میں انقلاب کی شطرنج کا آخری مہرہ ہے عوام نے اگر اسے ہارا تو مارے جائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :