غلیل والوں کی دلیل

جمعہ 9 مئی 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

پتھر سے اپنا دفاع کرنا اور دشمن کے حملے کو پسپا کرنا قدیم جنگوں میں استعمال کیا جانے والا ایک ہتھیار تھا جو بعد میں توپ (آرٹلری) کی شکل اختیار کر گیا ۔ منجنیک ، غلیل یا کسی اور ہتھیار کے استعمال کا مقصد دشمن کی یلغار کو روکنا یا دشمن کے مضبوط حصار کو توڑ کر اسے پسپا کرنا تھا ۔ قدیم دور سے جدید دور میں جنگوں میں استعمال ہونے والے آلات اور انداز حرب میں تبدیلی آئی ہے مگر سپاہی آج بھی سپاہی ہے اور اس کا کام آج بھی وہی ہے جو کل تھا ۔

آپ اسے جو مرضی نام دے لیں ، جیسے دل چاہے پکاریں سپاہی کا کام بھی وہی ہے اور مقام بھی جو اسے دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والوں سے الگ اور منفرد بناتا ہے ۔
وکیل وکالت کرتا ہے ، ڈاکٹر علاج ، استاد تعلیم دیتا ہے اور اسی طرح ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے اور شام کو گھر لوٹ جاتا ہے مگر سپاہی کا کام اس کے نام کی طرح منفرد ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ایک کام نہیں ایک لائف سٹائل ( جینے کا انداز ) ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ملک میں افواج سب شعبوں کی نسبت زیادہ معتبر اور مقبول ہیں ۔
تاریخ میں بہت کم ایسا نظر آتا ہے جب کسی ملک کی افواج کا اس کی حکومت مذاق اڑائے ۔ جہاں دنیا میں بہت بڑے بڑے کام پاکستان کے ساتھ منسوب ہیں وہیں حال ہی میں ایک داغ جو پاکستان کی تاریخ پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے میں کسی اور کا ہاتھ نہیں بلکہ اس میں خود حکومت اور اہم وزارتوں کا قلم دان تھامے وزراء وقت شامل ہیں ۔

پاکستان ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہے ۔ اندرونی ، بیرونی ، خفیہ اورنہ جانے کون کون سی طاقتیں ہیں جو اس پر بیک وقت حملہ آور ہیں ۔ اس صورت حال کو سنگین بنانے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی ایک کوشش وہی سیاست دان کر رہے ہیں جو کبھی کسی دور میں خود کو افواج پاکستان کا منظور نظر کہتے تھے ۔ لفاظی اور لمبی ہانکنے کے چکر میں کچھ "بڑبولے " ایسے ہیں جو سیاستدان اور حکمران تو ہیں مگر بہت بیمار ہیں ، ذہنی مریض ۔

پچھلے کچھ دنوں میں ایک صحافی پہ حملے اور اس کے بعد کی صورت حال نے ایک عجیب مچھلی منڈی کا ماحول قائم کر دیا ہے جہاں ہر کوئی آواز لگاتا نظر آتا ہے اور سمجھ کسی کو بھی کسی کی نہیں آرہی ۔ پاکستان کے وزیر دفاع اور وزیر اطلاعات دونوں کی ذہنی کیفیت دیکھ کر افسوس نہیں رونے کا دل کرتا ہے بلکہ جالب کے الفاظ یاد آتے ہیں
پھول دامن پہ سجائے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہیں تھی کوئی چمن سے یارو
یہ افسوس ناک بات ہے کہ ہر جانب جہالت کا راج ہے ۔

جس کو دو باتیں کرنا آ جاتی ہیں اور جو بدتمیزی میں خود کفیل ہو جاتا ہے اسے صحافی اور جو چیخ چیخ کر اپنی بنیادوں اور اس کی حفاظت کے امینوں پر برستا ہے اسے سیاستدان کہا جاتا ہے ، کرپشن اور دیگر اعلی اوصاف اس کے سوا ہیں ۔ پرویز رشید جو پاکستان کے وزیر اطلاعات ہیں نے ایک عجیب بیان دیا ۔ فرماتے ہیں کہ " حکومت دلیل والوں کے ساتھ ہے غلیل والے کے ساتھ نہیں "۔

گو کہ وزیر موصوف کا یہ بیان کسی دلیل کے بغیر اور ایک میڈیا ہاوٴس کی خوشامد میں تھا ۔ اس بیان میں ایک خوف بھی صاف دکھائی دیتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ اخبارات بلیک میلینگ اور کرپشن میں اس قدر سیاستدانوں کے قریب ہیں کہ یہ اخبارات اور ٹی وی اسٹیشن ان کی نبض کو جانتے ہیں۔ جیسے طوطے میں جادوگر کی جان تھی ایسے ہی ان سیاسی جانوروں کی سیاسی زندگی کا راز ان صحافیوں کے پاس ہے اور اسی لیے پرویز رشید نے کچھ اپنے جیسوں کو خوش کرنے کے لیے لاکھوں قربانیوں اور سیا چن سے مکران تک سرحد کے رکھوالوں کو غلیل والا کہہ کر جو بھونڈا مذاق کیا ایک قابل مذمت فعل ہے ۔


تاریخ اسلام میں سپاہیان اسلام کی بہادری اور ان کی شان و شوکت کا لازوال ریکارڈ تاریخ عالم میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ اسلام کا ہر دور ایسے غیور اور بہادر ناموں سے اپنی نظیر آپ ہے کہ جن کی قربانیوں کا اعتراف ہر مذہب کے تاریخ دانوں نے کیا ۔ سپاہی کی شان نرالی ہوتی ہے ، اس کا جینا اور مرنا ایک مقصد کے تحت ہوتا ہے ۔

غازی یا شہید فوجی کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے ۔ میں فوج کا یا افواج پاکستان کا سپوکس پرسن نہیں ہوں مگر میرے خیال سے جو حالات اس وقت پاکستان میں ہیں اس کا سیدھا اثر دیگر داخلی اور خارجی مسائل پر ہو سکتا ہے ۔
پاکستان میں عجیب حکومت تخت اسلام آباد پر بیٹھی ہے ۔ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ پاکستان انڈیا کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے حکمران انڈیا کی کسی ریاستی یا صوبائی اسمبلی کے ممبران ہیں ۔

یہی حالت دیگر شعبوں کی ہے جن میں میڈیا اور کچھ ٹی وی اسٹیشن سرفہرست ہیں ۔ جب ساری دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ایک ادارہ غلط ہے اس میں کام کرنے والے لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو حکومتی ادارے بجائے اپنا کردار ادا کرنے کے اس ادارے کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے اور انہیں دلیل والے کہہ کر ایک نئی بحث کا نشانہ بن گئی ہے ۔


میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکومت میں شامل وزراء ابھی تک یہ بتانے میں نا کام ہوے ہیں کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے ۔ حال ہی میں اپنی کروڑوں کی جاگیر کی سیڑھیوں پہ کھڑے ہو کہ جناب وزیر اعظم جب لندن میں صحافیوں کو اپنے برطانیہ دورے کے مقاصد سے آگاہ کر رہے تھے تو اسی دوران ایک خط ان کے غریب ملک پاکستان کے ایک شہید افسر کا سوشل میڈیا میں گردش کر رہا تھا ۔

یہ خط غلیل والوں کی ایسی دلیل ہے جس کا جواب پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کے پاس نہیں ۔
یہ کیپٹن خالد افتخار شہید کا خط ہے جو پاکستان کی مردہ سیاسی حکمران کلاس کو جگانے اور جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہے ۔ افسوس کہ کیپٹن خالد افتخار شہید اور ان ہزاروں شہداء کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والے اور انڈیا کے ساتھ پریوار ملاپ کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین انہی شہدا کی قربانیوں کی وجہ سے آج آزاد ہے اور اس آزادی نے انہیں یہ ہمت دی ہے کہ وہ دن رات چھاتی چوڑی کر کے اس کی آزادی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔


کاش پاکستان کے حکمران وڈیرے ، نواب ، مل مالکان اور ذہنی مریض نہ ہوتے بلکہ عام عوام ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی ۔ کیپٹن خالد افتخار شہید کے خط میں ایک پیغام اور ایک اکتاہٹ ہے جس میں نا امیدی تو نہیں مگر ایک شکوہ ہے ۔
شہید خط کا آغاز ایسے کرتا ہے " میرا ایمان ، میری محبت ، میرے پیارے وطن پاکستان
ہمیشہ سلامت رہو !
میں نے سب سے پہلے امی ابو کو مخاطب کیا ، پھر سوچا اپنی زندگی کی ساتھی کو خط لکھوں لیکن دل نہیں مانا کیونکہ اگر انہیں مخاطب کرتا تو شائد تم تک میرا پیغام نہ پہنچتا مگر جب تمہیں مخاطب کر رہا ہوں میرے وطن ! تو مجھے یقین ہے کہ یہ پیغام ہر اس ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، بیوی اور اولاد تک پہنچے گا جن کا جینا مرنا اسلام کے بعد تمہارے ساتھ ہے ۔

سی او ( کمانڈنگ افسر) کو دہشت گردوں کے ٹھکانے کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا ہے، انہوں نے جب ریڈ کمانڈر کے لیے والینٹیر مانگا تو میں نے فورا خود کو پیش کیا ، لیفٹیننٹ ظہیر کہنے لگا سر ! آپ میریڈ ( شادی شدہ ) ہیں آپ کا بیٹا ہے میں بیچلر ( کنوارہ ) ہوں ، میں چلا جاتا ہوں مگر میں نے انکار کر دیا ۔ آج رات میں ریڈ پارٹی لے کر جا رہا ہوں ، زندگی موت الل? کے ہاتھ میں ہے لیکن نجانے کیوں میرا دل کہہ رہا ہے کہ میں الله کی راہ میں شہید ہو جاوٴں گا ۔

ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری خط ہو "۔
اس کے بعد شہید نے اپنے خط میں کچھ نجی باتیں ، وطن سے محبت کے جذبات اور اپنے خاندان کو کچھ پیغامات دیے مگر اس خط کا تیسرا پیراگراف بہت اہم ہے اور اگر ہو سکے تو کوئی پاکستان کے صحافیوں ، وزیراعظم ، وزیر اطلاعات ، وزیر دفاع اور ان سب کو پڑھائے جو دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
خط میں لکھا ہے " میں پچھلے کئی ہفتوں سے ٹی وی پر نام نہاد دانشوروں کو نہایت آرام سے فوج کو گالیاں دیتے دیکھتا تھا تو میرا خون کھول اٹھتا تھا ۔

میں سوچتا تھا کہ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جب وہ اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر ایل سی ڈی پر فلم دیکھ رہا ہے تو سپاہی اختر کہاں ہے ؟ کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ جب وہ کے ایف سی پر فیملی کے ساتھ ڈنر کر رہا ہے تو حوالدار عبّاس کس گھپ اندھیری پوسٹ پر ہے ؟ کیا کسی کو خیال ہے کہ جب وہ فوج کو ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو کیپٹن گوہر ایمبش کا نشانہ بن کہ زندگی کی سانسیں گن رہا ہے ؟ میرے پیارے وطن ! مجھے کچھ نہیں کہنا کیونکہ میرے پاس وقت نہیں ہے ۔

تمہارا مجھ پر قرض واجب تھا جو آج چکانے کی کوشش کروں گا ، ہم سب پر تمہارا قرض ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو قرض ادا کیے بغیر دنیا سے رخصت ہوا اسے الله بھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ مقروض کی بخشش نہیں ہوتی "۔
اسی رات آپریشن میں کیپٹن خالد افتخار شہید ہو گئے اور قرض ادا کر دیا ۔ یہ ہے ان غلیل والوں کی دلیل جنھیں نا دہندہ ، ضمیر فروش اور روز اپنے کعبے بدلنے والے دانشور اور سیاستدان تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔

کیا کوئی اور دلیل درکار ہے ، کیا کسی کو ان عظیم بیٹوں کی عظمت پہ شک ہے ؟ اگر نہیں تو بہتر ہو گا کہ سیاستدان کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچ لیا کریں کہ جن کا وہ تمسخر اڑا رہے ہیں وہ ان کے محافظ نہیں پوری قوم کے محافظ ہیں اور ایک دن یہ الفاظ اگر عام عوام کو سمجھ آ گئے تو وہ دھوکہ جو الیکشن کی صورت میں دے کر وہ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں کہیں ان کی تباہی کا سبب نہ بن جائے ۔ اپنے آپ کو دانشور کہنے والے اگر یہ محسوس کر لیں کہ آزادی اظہار رائے حدود کا تقاضا کرتی ہے تو نہ کوئی چینل بند ہو گا اور نہ کسی صحافی یا اخبار کو غدار کہا جائے گا اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :