ذوالفقار چیمہ ثانی

بدھ 7 مئی 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس وقت میری خوشی میں مزید اضافہ ہو گیا جب ایک طویل عرصے کے بعد اس سفر میں مجھے قاسم علی شاہ صاحب کی رفاقت میسر آنے کے ساتھ یہ معلوم ہو ا کہ اس سفر کا مقصد پولیس کے جوانوں کو اصلاحی لیکچر دینا ہے جس کااہتما م ننکانہ صاحب پولیس کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عبد الغفار قیصرانی نے کر رکھا ہے۔یہ سننا تھا کہ بہادر، فرض شناس اور قابل پولیس آفیسر سے ہونے والی ماضی کی ملاقاتیں اور ہر ملاقات میں اصلاح پولیس اور پولیس اور عوام کے مابین بڑھتی ہوئی نفرتوں اور اس کے خاتمے پر سیر حاصل گفتگو جس پر سرائیکی لہجے میں ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کانوں میں رس گھول رہے تھے۔


قارئین محترم! عبد الغفا ر قیصرانی کا شمار پولیس کے ان چند افسران میں کیا جا سکتا ہے جن کی بدولت کرپشن ،ظلم اور بد معاشی کے ناسور میں جکڑا پولیس کا محکمہ بہتری کی جانب گامزن ہے۔

(جاری ہے)

سنگین جرائم سے منسوب بد نام زمانہ علاقوں کو قانون کی حکمرانی قائم کر کے امن و سکون کا گہوار بنا ناان کا خاصہ ہے ۔کئی عرصے سے ملک کے اداروں بالخصوص پولیس میں طاقت کے ناجائز اختیارات ، فرعونیت بھرے لہجے،اور افسر شاہی کے مروجہ نظام کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے یہ لو گ اپنے اختیارات کو غریب کی داد رسی، فرعونی نفسیات کے پیروکار وں اورسیاسی سور ماؤں و افسر شاہی کے تلوے چاٹتے اپنے آپ کو ”پھنے خان“ سمجھنے اور چوہدری اور معزز کہلانے والے کمینوں کو اپنی اوقات میں رکھنے کے لئے جن دلیرانہ اقدامات کا آغاز کر رکھا ہے وہ قابل ستائش ہیں بلکہ اپنے زیر اثر اہلکاروں کو بھی اس طریقہ کار کے بانی ذوالفقار چیمہ کے رستے پر چلنے کے لئے وقتاََ فوقتاََ کسی معروف ٹرینر، دانشور، عالم دین اور ”صراط چیمہ “کے داعیان کو مدعو کیا جاتا ہے تا کہ فکری و جسمانی طور پر یہ لوگ اتنی پختگی پر پہنچ جائیں جہاں سے واپس مُڑنے کو ان کا دل ہی نہ کرے۔


آج کی تقریب کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا جہاں پورے ضلع کے افسران سے لیکر سپاہی تک کے لو گ موجود تھے جو اپنی کار کردگی کو بہتر کرنے اور اپنے آپ کو مخلو ق خدا کے خدمت کے لئے پیش کر نے کے عنوان سے لیکچر سننے آئے تھے۔ان کے روئیوں اور بات چیت کے ڈھنگ سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں اس مقام تک لے آنے کے لئے بہت محنت کی گئی ہے اور مزید کی ضرورت ہے جس کے لئے آج شاہ صاحب کی گفتگو کا بندوبست کر رکھا تھا۔

شاہ صاحب کا بھی یہ کمال ہے کہ یہ عالم با عمل ہیں یہی وجہ ہے ان کی بات دل پر اثر کرتی ہے ۔علم بشریات(اینتھرا پالوجی) کے ایک ادنیٰ سا طالب ہونے کی حیثیت سے میں نے جو چیز محسو س کی وہ یہ تھی کہ ایک گھنٹے پر محیط اس گفتگو میں تما م شر کاء مکمل طور پر مگن تھے۔ ان کے چہروں کے تاثرات سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ عمل کی اس دنیا کے مسافر بننے کو تیار ہیں جہاں لوگوں کو مصائب و تکالیف میں مبتلا کر نے کی بجائے آسانیاں اور راحتیں تقسیم کی جاتی ہیں ۔

رہی سہی کسر گفتگو کے اختتام میں پڑھے جانے والے اس فقرے نے پوری کردی۔ بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ” میری تھیوری یہ ہے کہ جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ انسانی جینز کو متاثر کر تا ہے۔رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میو ٹیشن ہوتی ہے جو خطر ناک ادویات،شراب اور ریڈیشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے ،لنگڑے یا اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ ناامید بھی ہوتے ہیں۔

نسل انسانی سے یہ جینزجب نسل در نسل سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔یقین کر لورزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے۔جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں“۔
اس فقرے کو سننے کے بعد بہت سے شر کا ء کے چہروں کے رنگ یکسر تبدیل ہو گئے تھے اور ایسے معلوم ہو تا تھا کہ اس فقرے کو اکثر نے اپنے سینے میں پیوست کر کے ماضی میں سر زد ہونے والی کوتاہیوں اور گناہوں پر شر مند ہوتے آئندہ زندگی میں ایسے کسی بھی کام کو نہ کر نے کا عہد کرتے ہوئے ،مخلوق خدا کو آسانیاں تقسیم کر نے کا احساس ان کو عمل پر ابھارنے کا باعث بن چکا تھا۔

قیصرانی صاحب نے بھی اپنی اختتامی گفتگو میں جس طور پر لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کر نے کی بات کی وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ انہوں نے اپنے ماتحتوں پر زور دیتے ہوئے اس بات کی تاکید کی کہ جس غریب اور مظلوم کے پاس کسی سفارشی کا فون یا چٹ نہیں ہے آپ اس کے فون اور چٹ بن جائیں۔
قارئین محترم!بہادری، ایمانداری ظالم کی بیخ کنی فوری انصاف اور اپنے ماتحتوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے ان کے اندر کے ضمیر کو جگانے کی جو روایت ذوالفقار چیمہ نے قائم کی تھی اس کے اثرات دیکھتے ہوئے عبد الغفار قیصرانی نے بھی اس روایت کو اپنا نے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اسی لئے میں نے انہیں ذوالفقار چیمہ ثانی کے لقب سے نوازا ہے اس امید کے ساتھ کہ ان کی کارکرگی کو دیکھتے ہوئے اور لوگ بھی اس طریقہ کار کو اختیار کریں ۔

اس لئے کہ محکمے میں اس جیسے بیسیوں ذوالفقار چیموں کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :