بلاشبہ میڈیا کے پاس اظہارِ رائے کی تلوار ہے …مگر

بدھ 7 مئی 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

پاکستان سمیت دنیابھرمیں تین مئی کو آزادی صحافت کا دن بھرپورانداز سے منایاگیا جس کامقصد آزادی صحافت اوراظہاررائے کی آزادی کو اُجاگر کرتے ہوئے دوران پیشہ درپیش مسائل اور آزادانہ رائے کااظہارکرناہے مگربدقسمتی سے ہمارے ملک میں صحافت کی آزادی کو سب تسلیم کرتے ہیں مگر پھر بھی گروپوں میں تقسیم دکھائی دئیے۔ جبکہ عالمی تنظیموں کی جانب سے مسلسل پاکستان کوصحافیوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ممالک میں سے ایک قراردیاجارہاہے اس کاسبب یہ ہے کہ اتنے صحافی کسی جنگ زدہ ملک میں ہلاک نہیں ہوئے جتنے سالانہ اور وہ بھی ایک جمہوری دور میں جاں بحق ہوئے ۔

کیایہ حیرت کامقام نہیں کہ پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہاجاتا ہے لیکن اس کے باوجود حق اور سچ چھاپنے یاعوام کے سامنے لانے کے لئے صحافی کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

ادراک کریں کہ پاکستان میں صحافیوں کو عالمی معیارکی سہولتیں اورمعاونت میسر نہیں لیکن اُس کے باوجود ملک بھر کے صحافی جس بہترانداز میں اپنے فرائض اداکررہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ آزادی تکریم اورتحریم اورمیڈیا پرحملے کے خلاف آواز ہمیشہ بلند رکھے گی ایک تاثریہ بھی ہے کہ 1947سے لے کرآج تک اسٹیبلشمنٹ نے آزاد میڈیا کوکبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا مگر اِن ناساز حالات میں پاکستان کی صحافی برادری کی مسلسل جدوجہد سے آزادی صحافت کاموقع میسر آیا توہم اپنے گمان میں اتنے آگے نکل گئے تھے کہ احساس ہی نہ رہا کہ اَب ہم ابھی بھی ذہنی طور پر ایک پولیو ذدہ قوم ہی ہیں جواپنے پاوٴں پر نہ چلنے کے باوجود خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے درپے ہیں ۔

میں یہ نہیں کہتی کہ سچ بولنے اورلکھنے سے کسی کوروکا جاسکتا ہے یہ بھی غلط نہیں کہ عوام کے سامنے حقائق لانے پر ماضی اورحال گوا ہ ہے کہ صحافیوں کو گھر کی چاردیواری سے جیل کی سلاخوں تک جاناپڑا بلکہ کوڑے جسم پربرداشت بھی کرنے پڑے تو پھر کیا صحافی کو ادراک نہیں کرنا چاہئے کہ اس آزادی کوآج خطرہ لاحق ہوچکا ہے ہم اس کاتحفظ کرنے کی بجائے مختلف گروپوں میں تقسیم ہورہے ہیں۔

جب آزادی اظہار کو ہمارے آئین میں بنیادی حق تسلیم کرلیاگیا لیکن آزادی اظہار کی کچھ حدوداورقیود کوکیوں نظرانداز کردیاجاتا ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اظہاررائے اس بات پرمشروط ہے کہ اس سے اسلام کی عظمت پاکستان یا اُس کے کسی حصے کی سلامتی سکیورٹی اور دفاع خودمختار مالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ملک کاامن وامان ، اخلاقیات، عدلیہ کااحترام مجروح نہ ہو نیز اس سے مجرمانہ سرگرمیوں کی ترغیب نہ ملے لہذا ایک کالمکار اس آرٹیکل کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی آزادی رائے کاحق استعمال کرسکتا ہے ۔

حامدمیر کے معاملے میں اس آرٹیکل کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئیں۔ یقینا ہر فرد ہرادارہ فرشتوں کی صفات نہیں رکھتا اس میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے اختلافات کی صورت میں حدود میں رہتے ہوئے اپنے زخموں کو سلیقے سے بیان کرنے کاانداز اپنانا صحافت کی پہلی ترجیح ہے کیونکہ عوام کے ذہنوں پرمیڈیا کااثرتسلط بڑھنے کی وجہ سے اندرون اوربیرون ملک سے مخصوص مفادات کی حامل قوتیں میڈیا پرکنٹرول حاصل کرنے کے چکر میں پیسہ اور اثرورسوخ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتیں لہذا ایسے شورش ذدہ ماحول میں خبر نشر کرنے سے پہلے ہرپہلو پر غوروفکر ضروری تھا مگر ایک نجی میڈیا گروپ کی جانب سے اس اصول کو اور حقیقت کونظرانداز کیاگیا اورپھر غلطی سرزد ہوئی ۔

ہمیں ادراک کرناہوگا اگرمیڈیا ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھانا چاہتا ہے ، شفاف حکمرانی اورباشعورجمہوریت کا خواب سچ ہوتادیکھنے کاخواہش مند ہے تو اُسے قربانی دینی ہوگی اورشعورکرناہوگا کہ آزادی کوکسی کی اناء کی بھینٹ نہیں چڑھایاجاسکتا ۔فردواحد کو پورے ادارے پرحاوی نہیں کیاجاسکتا۔ اگردوسری جانب سے کچھ کمی یا کمزوری دکھائی گئی ہے تو آزادی صحافت کواپنے زخم دکھانے کاسلیقہ حدودوقیود کی لکیر میں رہ کربیان کرنے کاسلیقہ سیکھناہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :