علم کی خوشبو بانٹنے والے

بدھ 7 مئی 2014

Muhammad Ahmed Hafiz

محمد احمد حافظ

آج ظہر کے بعد جُھلستی دھوپ میں دفتر آنے کے لیے گھر سے نکلا تو اچانک ہی ذہن جست لگاکر رُبع صدی پہلے کے ملتان میں پہنچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ خیرالمدارس میں درجہٴ ثالثہ میں داخلہ لیا تھا۔ ملتان کی گرمی تو مشہور ہے ہی… ”وہ گرد، گدا، گرماوگورستان“ والی کہاوت کسے معلوم نہیں؟!
خیرالمدارس میں تب جدت نہیں آئی تھی۔

عمارتیں پرانی طرز کی تھیں۔ مدرسہ کا دارالاقامہ اور کئی ایک کلاسیں ہندووٴں کے ایک متروکہ ’آشرم‘ میں واقع تھیں، چاروں جانب ایک ترتیب سے کمرے بنے ہوئے تھے جن کے آگے طویل برآمدہ تھا۔ مشرقی جانب ایک مندر تھا جو اپنی طرز میں ہندوانہ تعمیر کا شاہکار تھا۔ ایک مدت سے بند رہنے کی وجہ سے اندھیرے، مکڑی کے مہیب اور بدنماجالوں اور اپنے ساتھ منسوب بعض ڈراوٴنے قصوں کی وجہ سے وحشت ناک منظر پیش کرتا تھا۔

(جاری ہے)

دارالاقامہ کی عمارت بھٹے کی پکی اینٹوں سے بنی تھی جس پر سیمنٹ کی ٹیپ کردی گئی تھی۔ چھت لکڑی کے بالوں پر مشتمل تھی جس کے اوپر مٹی کی تہیں بچھی ہوئی تھیں۔ عمارت کے بیچوں بیچ چمن…جہاں عصر کے بعدطلبہ کی ٹولیاں دن بھر کی دماغی تھکن اتارنے کے لیے خوش گپیوں میں مصروف ہوتیں۔اس احاطے سے باہر اور خیرالمدارس کی جامع مسجد کے درمیان ایک بہت بڑا گراؤنڈ تھا جس کے بیچوں بیچ فٹ بال کھیلا جاتا ،جبکہ اطراف میں چھوٹی کلاسوں کے طلبہ کرکٹ،گلی ڈنڈا،اور پٹھو گرم کھیلتے۔

شب جمعہ میں یار لوگ چاند کی روشنی میں ’واہنجو ‘کھیل کراپنا رانجھا راضی کرتے۔ بتانے کی بات یہ ہے کہ پرانی عمارت کے کمروں میں گرمیوں کی دوپہر یں بہت آسودہ گزرتی تھیں۔ طلبہ کرام دوپہر کا کھانا کھاکر قیلولے کے لیے لیٹتے تو ننگی اینٹوں کے فرش پر پانی کا چھڑکاوٴ کرنا نہیں بھولتے تھے… اس چھڑکاوٴ سے کمرہ میں ایسی برُودت در آتی کہ اس کا مقابلہ ائیرکنڈیشنر بھی نہ کرپاتے۔

تب ایسی بھرپور نیند آتی کہ ظہر کی اذان کے بعد طلبہ کو جگانے کے لیے صور ِاسرافیل کی ضرورت محسوس ہوتی۔ جب تک استاذ محترم مولانا شیرمحمد صاحب اور مولانا محمد یٰسین شاکر صاحب لکڑی کے دروازوں پر ڈنڈے برساکر طلبہ کو نہ جگاتے، کوئی بھی خوابِ شیریں سے اٹھنا گوارا نہ کرتا۔ گرم دوپہر میں وہاں سے نکل کر مسجد تک کا ذراسا فاصلہ طے کرنا قیامت معلوم ہوتا۔


ملتان کی گرمی معروف تو ہے ہی مگر ملتانیوں نے اس کے توڑ کے لیے اپنا انتظام کررکھا ہے۔ چوک گھنٹہ گھر اور حسین آگاہی میں سوڈے والی اور گولی والی بوتلیں، اندرون شہر جا بہ جا فالودے کے ٹھیّے اور پنسار کی دکانوں پہ ملنے والے الائچی، عناب، صندل،بزوری اور بادام کے شربت غضب کی گرمی میں جسم وروح کو تروتازہ رکھتے ہیں۔ خصوصاً فالودے کا تو جواب نہیں ہوتا، بشرط ِکہ بنانے والا خاندانی ہو۔

خوش قسمتی سے ہم نے فالودہ حضرت سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمہ اللہ کے ہاں بارہا کھایا ہے،یعنی کھلانے والے بھی خاندانی ہوں تو لطف مزید دوبالا ہو جاتا ہے۔ملتان میں سرِشام دہی بھلّے کے ٹھیلوں کی تو اپنی ہی بہار ہوتی ہے… اور پھر قلعہ کے گول گپے کون بھول سکتا ہے؟ اگر آپ کینٹ چلے جائیں تووہاں لذت ِ کام ودہن کے لیے پھلوں کے تازہ جوس، ملک شیک اور فروٹ چاٹ کی دکانیں کھلی ملیں گی۔

یہیں کہیں ’چسکاہاؤس ‘کے نام سے بھی ایک دکان ہوتی تھی،معلوم نہیں کہ اب ہے یا نہیں؟
خیرالمدارس میں ہمارے رہتے رہتے ہی بہت تبدیلی آگئی تھی۔ اب تو برسوں سے جانا نہیں ہوا، مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کا نِک سُک ہی بدل گیا ہے۔ البتہ دارالحدیث اور اس سے ملحقہ عمارتیں ابھی باقی ہیں۔ ’دارالحدیث‘ ہمارے دورطالب علمی کا آخری پڑاؤ تھا۔

اس دارالحدیث کی چٹائیوں اور تپائیوں پر بیٹھنے والے اب جانے دنیا کے کس کس گوشے میں کس کس منصب پر فائز ہیں۔ جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد صدیق صاحب دامت فیوضہم آج بھی اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اپنی مسند کو رونق بخشتے ہیں۔ آپ کے بلامبالغہ ہزاروں شاگرد ہیں۔ سفید براق لباس میں ملبوس اور سفید پگڑی باندھے، متبسم چہرے کے ساتھ جب دارالحدیث میں داخل ہوتے تو آپ کے وجود سے ہی دارالحدیث منور نظر آنے لگتا۔

بخاری شریف کے سبق کا آغاز فرماتے تو پتا ہی نہ چلتا کہ دو گھنٹے کیسے گزرگئے۔ آپ کے سبق میں خواہ مخوا ہ کی یبوست نہیں ہوتی تھی، نہ ہی آپ اپنے علم کے بحر ذخّار سے طلبہ کو مرعوب فرماتے۔ دوران سبق بعض مشکل مقامات کو لطیفوں، خوشگوار چٹکلوں اور مضحک اَمثلہ سے حل فرماتے تو دماغی تکان یکسر کافور ہوجاتی۔ آپ ”علیٰ قدر عقولہم “گفتگو فرماتے اور سبق کو نہایت آسان انداز میں بیان فرماتے۔


دورہٴ حدیث کے سال مسلم شریف حضرت مولانا منظوراحمد دام ظلہم کے پاس تھی۔ آپ جامعہ کے قدیم استاذ ہیں اور خیرالمدارس کی تاریخ نے شاید آپ ایسا طنطنے اور دَب دَبے والا استاذ نہ دیکھا ہوگا۔ پہلا گھنٹہ آپ ہی کا ہوتا، اس گھنٹے میں غیرحاضری کا تصور نہیں تھا۔ پوری کلاس پر آپ کی نگاہ ہوتی اور کوئی طالب علم”ہیراپھیری“ نہ کرسکتا تھا۔

بعض من چَلے گھنٹے کے آغاز میں حاضری دے کر دارالحدیث کے پچھلے دروازوں سے نکلنے کی کوشش کرتے مگر ایک دو دفعہ کے بعد ہی پکڑے جاتے۔ آپ ماقلّ ودلّ گفتگو کے قائل ہیں۔ حدیث کی قرات کے دوران ہی مختصر جملوں میں مشکل مقامات حل فرمادیتے۔ آپ کے سبق میں تقریر سے زیادہ طالب علم کے مطالعے پر انحصار ہوتا۔ یہ ایسا طریق ہے کہ طالب علم تھوڑی محنت سے بہت کچھ حاصل کرلیتا ہے، مگر اس طریقے کو برتنے والے کم ہیں۔

ہم نے کئی بزرگ اساتذہ کو اسی پر عامل دیکھا۔ اب بات دوسری ہے۔ شروح ِحدیث کی کثرت نے مبلغ علم کو وسعت دے دی ہے۔ علم اپنا اظہار چاہتا ہے اور جب یہ اظہار ہوتا ہے تو بسااوقات کتاب بروقت مکمل نہیں ہوپاتی اور سال کے آخر میں تلاوت حدیث کا ناقابل بیان منظر ہوتا ہے۔ ہمارے خیرالمدارس کے دیگر اساتذہ حضرت مولانا شیرمحمد صاحب، حضرت مولانا شبیرالحق صاحب اور دیگر کئی اساتذہ کرام تدریس کے میدان میں پرانے ذوق کے آدمی تھے۔


مولانا محمد عابد صاحب کے پاس ہم نے تفسیر اور فقہ کے اسباق پڑھے ہیں، رفتاروگفتار میں عجیب دیوانگی لیے ہوئے، حضرت مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمہ اللہ کے فیض یافتہ، مدینہ یونیورسٹی کے فاضل، آپ کے سبق کی بھی نرالی شان ہوتی تھی۔ طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے اور ان کی تربیت کا کوئی لمحہ خالی نہ جانے دیتے۔ اکابر واسلاف کے تعارف، ان کے مزاج ومذاق کا بطور خاص اپنے اسباق میں تذکرہ فرماتے۔

ان کی نرم مزاجی سے طلبہ بسااوقات فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے،انہیں ’سیدھا‘ کرنے کے لیے کبھی کبھی ”سوٹی“ سے خبرگیری فرماتے مگر اس خبرگیری کا انداز بھی ایسا مشفقانہ ہوتا کہ طلبہ… سوٹیاں کھاکے بھی بے مزہ نہ ہوتے۔
ہمارے استاذ مولانا خدابخش صاحب بھی اپنی طرح کے آدمی ہیں،ہنس مکھ سرخ وسفید چہرہ،سفید ڈاڑھی،سفید لباس اورسر پہ کپڑے کی سفید ٹوپی،گرمی کے دنوں میں اپنی موٹر سائیکل پرگھر سے جا معہ آتے تو آنکھوں پہ لگاکالا چشمہ دلوں میں اچھی خاصی ہلچل مچادیتا ،مطالعے کے رسیا ،طالب علموں میں بھی مطالعے کا ذوق پیدا کرتے،آپ سینکڑوں کتابوں کے حامل ذاتی کتب خانے کے مالک ہیں،جب وہ سبق کے دوران اپنے کتب خانے کی چیدہ چیدہ نایاب کتابوں کے نام اور اوصاف گنواتے تو آدمی مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا،جنوبی پنجا ب کی عظیم علمی شخصیت مولا نا عبدالعزیز پر ہاروی رحمہ اللہ کی کتابوں کی جتنی کلیکشن آپ کے پاس ہے شاید ہی کسی اور کے پاس ہو،ہم نے منطق کی کتاب ’قطبی‘ آپ کے پاس پڑھی ،مگر ’ کتب‘ کی محبت پائی۔

آپ شاعری بھی فرماتے ہیں اور غالبا ً ’ ندیم ‘ تخلص ہے ،عربی ،فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار یاد ہیں،جن کا تڑکا سبق کے دوران لگایا کرتے تھے۔
کیا کیا ذکر کیجیے، کئی اساتذہ کا ذکر رہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں دیکھ کر ہم نے اپنے اکابر واسلاف کے مذاق کو جانا، ان کی نگاہ ِفیض گستر نے ذرّوں کو ماہتاب اور خاک کو کاخ بنایا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ شہرت سے نفور اور جدیدیت کی آلائشوں سے دور مگر اپنی ذات میں پارس ہیں، جس کو چھولیں سونا بن جائے۔ انہوں نے دنیا پر عقبیٰ کو ترجیح دی۔ خود کو دین اور دینی علوم کے تحفظ اور اشاعت کے لیے وقف کردیا۔ آج جو اس خطے میں دین کے قلعے نظر آتے ہیں انہی کے دم سے آباد ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے مدارس دینیہ کے تمام اساتذہ کی کہانی ایک ہی جیسی ہے۔


گزشتہ دنوں ایک معروف اخبار کے کالم نگار نے مدارس کے اساتذہ کی معاشی صورت حال کو موضوع بنایا۔ اچھا کیا یا برا، ہمیں اس سے بحث نہیں مگر مدرسے کا استاذ روکھی سوکھی کھاکر بھی علم کی خوشبو بانٹ رہا ہے۔ عقل وفہم کی وادیوں میں کتنے ہی بھونچال آتے رہتے ہیں، مغرب سے آنے والی ہوائیں بھی اپنی دشمنی نبھاتی ہیں، نئے سے نئے سَراب دِکھتے ہیں مگر اس کی وابستگی … ”وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے“سے عبارت ہے۔

وہ اپنے محاذ پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم جیسے نکمے شاگرد ان کے ایک لمحے کی بھی قیمت ادا نہیں کرسکتے، اللہ پاک ہی انہیں اپنی بارگاہ اقدس سے بہترین اجر عطا فرمائیں گے۔
آج ظہر کی نماز کے بعد جُُھلستی دھوپ میں گھر سے دفتر آنے کے لیے نکلا تو اپنی مادر علمی” جامعہ خیرالمدارس“ بہت یاد آئی… اور بے طرح یاد آئی… اللہ تعالیٰ اس چمن کوہمیشہ پھلتا پھولتا رکھے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :