زخمی شیر حامد میر کے ساتھ کچھ لمحات

پیر 5 مئی 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اٹھائیس اپریل رات نو بجے میں اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کراچی کے آغا خان ہسپتال پہنچا، لیکن اس وقت حامد میر کی فزیو تھریپی ہورہی تھی لہذا ہمیں پونا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ حامد میرکو روزانہ تین مرتبہ فزیو تھریپی کے سیشنز سے گزرنا پڑتا ہے جو درحقیقت چھ گولیاں لگنے والیانسان کیلئے تکلیف دہ مراحل ہیں۔ ہم ویٹنگ روم میں انتظار کررہے تھے۔

میرے دوست سبوخ سید جو کافی دور اندیش،حساس اور دانشمند انسان ہیں نے میرے چہرے پر منڈلاتی اداسی اور بے بسی کے آثار بھانپ لئے اور میری توجہ ہٹانے کیلئے میرے ساتھ مزاحیہ انداز میں گفتگو کرنے لگے جیسے وہ اکثر دفتر میں فارغ وقت میں میرے ساتھ کرتے رہتے ہیں، میں بھی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر لانے کی ناکام کوشش کرتا رہا لیکن دل اداس ہو تو پریشانی کے گہرے بادل چہرے پرضرور نمایاں ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

بالآخر حامد میر صاحب کی فزیوتھریپی اور ڈریسنگ کا سیشن مکمل ہوگیا اور انہوں نے ہمیں اندر بلایا۔ ایک گرجنے والا،نڈر اور بے باک شیر جو قاتلانہ حملے سے قبل پورا دن میری آنکھوں کے سامنے برق رفتاری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتا تھا، جس کے کام کی رفتار گولی سے بھی زیادہ تھی ، جس کو میں نے ایک لمحہ بھی کبھی فارغ بیٹھے نہیں دیکھا، اعلیٰ کردار اور اوصاف کا مالک یہ شخص جو کبھی سچ بولنے سے نہیں گبھراتا ، انسانیت کی پرچار کو اپنا فریضہ سمجھ کرمظلوم اور بے بس انسانوں کیلئے ہمہ وقت اپنی آواز بلند کرتا،جو ملک کے نا مساعد حالات کی وجہ سے ہر وقت فکر مند رہتا، ایسے شخص کو ہسپتال میں دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور انسان ضرور غم زدہ ہوگا۔

میں ویسے بھی اس زخمی شیر کے نہ صرف کافی قریب رہا ہوں بلکہ وہ میرا استاد بھی ہے،اس لئے اس حالت میں دیکھنا میرے لئے کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ ہے۔ بہر حال جونہی ہم ہسپتال میں حامد میر کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ بیڈ پر تھے، انہیں اس حالت میں دیکھنے کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔انہوں نے ہمیں دیکھ کرہکلا سا مسکرایا، شائد اس لئے کہ ہم انہیں اس حالت میں دیکھ کر زیادہ افسردہ نہ ہوں، انکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خود ہر تکلیف سہہ لیتے ہیں لیکن دوسرے کی تکلیف انہیں برداشت نہیں ہوتی۔

میں نے حامد میر کو جس حالت میں دیکھا وہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ میں سرہانے کے پاس حامد میر کے دائیں جانب کھڑا ہوا، انہوں نے میری طرف دیکھا تو میری آنکھیں اس وقت تک بھیگ چکی تھیں اس لئے وہ اپنے بائیں جانب کھڑے سبوخ سید اور دیگر دو ساتھیوں سے مخاطب ہوکر ان سے حال پوچھنے لگے۔ میں نے ضبط کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے نہیں رہا گیا اور جب رونے کی چیخیں نکلنے لگیں تو میں کمرے کو دوحصوں میں تقسیم کرنے والے پردے کی دوسری طرف گیا اور زاروقطار رونے لگا حامد میر صاحب نے آواز دی او بھائی ادھر آؤ۔

حامد میر کی اہلیہ جسے ہم بھابی کہتے ہیں نے مجھے کرسی پر بٹھایا اور پانی پلایا۔ وہ بھی آخر حامد میر کی زندگی کی جیون ساتھی ہیں اس لئے کافی دلیر ہیں اور جذبات پر قابو رکھنا جانتی ہیں۔ انہوں نے اپنے آنسو پوجتے ہوئے مجھے چپ کرایا۔ اس دوران حامد میر صاحب کے سرہانے کے بائیں جانب کھڑے سبوخ سید میرے پاس آئے اور مجھے حوصلہ دلاتے ہوئے پھر حامد میر صاحب کے پاس لے گئے۔

پھر میں چپ چاپ انکے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ انکی باتیں سن کر اور انکے چہرے کے تاثرات اخذ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا، یہ واقعی ایک شیر ہے جسے زخمی حالت میں بھی نہ صرف چوہے ، کتے اور خونخوار جانور ڈرتے ہیں بلکہ ہاتھی بھی انکی بہادری، زندہ دلی اور بے باکی پر رشک کرتے ہیں۔حامد میر صاحب ایک مرتبہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ، آپ کو تو میری حوصلہ افزائی کرنی چاہئے لیکن آپ خود ہی دل ہار دیتے ہو۔

میں نے گلوگیر آواز میں کہا، آپ کو میرا خواب یاد ہے جو میں نے آپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے ایک ہفتہ قبل سنایا تھا؟ اور میں نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ میرا خواب سچا ہوتا ہے۔ حامد میر صاحب نے کہا ہاں ہاں، دیکھو بیگ صاحب نے پہلے ہی خواب دیکھا تھا۔ زرا دوبارہ سناؤ وہ پورا خواب، وہ مجھ سے کہنے لگے۔ میں نے وہ خواب دوبارہ سنایاجس میں میں نے دیکھا تھا کہ حامد میر صاحب اور میرے پیچھے ایک ہی کالے رنگ اور ایک دوسرے کے ساتھ چین میں بندھے کئی کتے کاٹنے کیلئے ہمارے پیچھے بھاگ رہے تھے۔

۔۔۔اس کے بعد حامد میر صاحب نے معمول کی طرح ہم سے نصیحت کی اور اپنا بہت خیال رکھنے کی ہدایت کی ۔ ہاتھ ملانے کیلئے وہ اپنا بازو اوپر نہیں اٹھا سکے، شائد بہت درد محسوس کررہے تھے۔ لیکن میں نے ان کے دائیں ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر چوما، اور انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالر کر انہیں ایک مرتبہ پھر بھیگی آنکھوں سے خدا حافظ کہہ دیا۔ حامد میر کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ وہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف جتنے سخت ہیں انسانیت کیلئے اتنے ہی نرم بھی ہیں۔

وہ سادہ طبعیت اوررحم دل انسان ہیں ۔
جسم پر لگی چھ گولیوں کے زخم کھانے والے حامد میر ہسپتال کے ایک بیڈ پر بھی زخموں کا درد سہتے ہوئے ملک اور قوم کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ اپنے زخموں پر غم زدہ نہیں اور نہ ہی انہیں ان زخموں کے درد کی فکر ہے، اگر انہیں اب بھی فکر ہے تو ملک میں لاقانونیت، عدم استحکام، عدم تحفظ، معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کی فکر ہے۔

جنگ اخبار میں تو انہوں نے قاتلانہ حملے کے صرف ایک ہفتے بعد اپنا کالم دوبارہ لکھنا شروع کردیا لیکن وہ ٹیلی وژن سکرین پر بھی پہلے کی طرح ظلم، نا انصافی، عدم مساوات اور اقرباپروری کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ حق اور سچ کا بول بالا کرنے سے وہ کبھی نہ گبھرائے اور نہ ہی آئندہ ڈرنے والے ہیں۔ انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن اس بار موت کے منہ سے باہرآکر انکے جذبہ ایمانی اور اللہ کی قدرت اور رسول ﷺ پر یقین کامل کی حرارت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔


میں نے گریک میتھالوجی کے ہیروز اور سٹون ایجز کے دور میں بڑی بہادری کا مظاہرہ کرنے والےKnights(سپہ سالاروں) کے کئی کارنامے پڑھے ہیں لیکن اپنی زندگی میں حامد میر جیسا نڈر ، بہادر اور دلیر آدمی اور کوئی نہیں دیکھا ہے۔ وہ اپنے زخموں کو دیکھ کر اداس نہیں ہوتے بلکہ مسکراتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :