یومِ شُہداء اور مِلّی یکجہتی

پیر 5 مئی 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہمارے موبائل فون پر SMS کے ذریعے یا تو ”سیاسی لطیفے “ آتے ہیں یا پھر موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے طرح طرح کے میسجز جن میں راتو ں رات امیر بننے کے ”نسخہ ہائے کیمیا“ درج ہوتے ہیں ۔کوئی کمپنی ہمیں زبردستی لاکھوں روپے تھمانا چاہتی ہے تو کوئی نئی نویلی لشکارے مارتی گاڑی دینے کے لیے بیتاب ۔ ہمیں تو بَس اتنا ہی کرنا ہوتا ہے کہ موبائل کمپنیوں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے تھوڑا سا ”لوڈ“ کروا لیں اور پھر عیش ہی عیش۔

ہم ایسا ضرور کرتے لیکن اپنا تو یہ حال ہے کہ ”یوٹیلٹی بِلز“ کی ادائیگی کے بعد شِکم سیری کے لیے بھی کچھ نہیں بچتا تو لوڈ کہاں سے کروائیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی ”اشرافیہ“ کی ہمارے خلاف گہری بلکہ گھناوٴنی سازش ہے اور اِس سازش میں یقیناََ امریکی CIA کا ہاتھ بھی ہو گا کیونکہ پاکستان میں جتنی سازشیں پلتی اور پَنپتی ہیں وہ امریکہ سے ہی دَر آمد کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)


موبائل کمپنیاں توہمیں دِل خوش کُن SMS بھیجتی ہی رہتی ہیں لیکن یہ لطیفہ باز ”ایویں خوامخواہ“ ہمیں ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہم تو اتنے ”قنوطی“ ہیں کہ خوشی کی خبر میں بھی غم تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور بادِ بہاری میں بھی چلّا اُٹھتے ہیں کہ
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری ، راہ لگ اپنی
تُجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ، ہم بیزار بیٹھے ہیں
ابھی کل ہی ہم نے ایک ایسا SMS پڑھا جس نے ہمارے اوسان خطا کر دیئے اور ہم دَر ِ نواز لیگ پر زانوئے تلمذ تہ کرکے اپنی تشنہ آرزووٴں کی تکمیل کے جو منصوبے باندھ رہے تھے وہ سب ہَوا ہو گئے ۔

SMS یہ تھا ”پاکستان میں جتنے ”مونچھوں والے“ چیف آرمی سٹاف آئے ، سبھی نے مارشل لاء لگایا لیکن سارے”کلین شیوڈ“ چیف آف آرمی سٹاف جمہوریت نوازنکلے۔اگر کسی کی میاں نواز شریف صاحب تک رسائی ہو تو وہ اُنہیں بتلا دے کہ مونچھیں تو جنرل راحیل شریف کی بھی ہیں“۔جب ہم نے یہ SMS پڑھا تو ہم سوچنے بیٹھ گئے کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے ؟۔

اپنے میاں سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا ”میں ایسی فضولیات پر یقین نہیں رکھتا “ لیکن ہماری تسلی نہ ہوئی اور ہم دِل ہی دِل میں ایوب خاں سے جنرل راحیل شریف تک سبھی کی مونچھوں کا موازنہ کرنے لگے ۔ہم وہم میں پَڑ چکے تھے کہ جس کی جتنی بڑی مونچھ ہو گی وہ اُتنی ہی جلدی مارشل لاء لگائے گا ۔ہمارے اِ س وہم کی بنیاد ضیاء الحق مرحوم کی ”عظیم الشان“ مونچھیں تھیں لیکن وہ تو اللہ بھلا کرے انتہائی محترم چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا جنہوں نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں پانچویں یومِ شُہداء کے موقعے پر ایسا خطاب کیا کہ ”سَواد“ آ گیا ۔

اُنہوں نے فرمایا ” فوج جمہوریت اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہے ۔باغی آئین و قانون کی پابندی قبول کریں ورنہ اُن سے نپٹنے میں کوئی شک نہیں“۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ” قوم نے ہمیشہ افواج کا ساتھ دیا ۔ہر آنے والا دن فوج اور عوام کے رشتے کو مضبوط کرے گا اور افواجِ پاکستان دیگر سکیورٹی اداروں کے ہمراہ خطرات کے خلاف دیوار بن کر کھڑی رہیں گی“َاُنہوں نے پولیس کی صلاحیتوں ، قُربانیوں اور میڈیا اور سول سوسائٹی کے کردار کو بھی سراہا ۔

دروغ بَر گردنِ راوی NGO,s جنرل صاحب کے اِس خطاب پر ”تَپی“ بیٹھی ہیں۔اُن کا گِلہ یہ ہے کہ جنرل صاحب نے سبھی کی تعریف کی لیکن ملک و قوم کی بہتری کی خاطر دِن رات امریکہ اور یورپ سے پیسے اکٹھے کرنے والی NGO,s کی خدمات کو یکسر فراموش کر دیا۔ یہ خطاب جمہوریت نواز حلقوں کے کانوں میں رَس گھول گیا لیکن کچھ ایسے بھی ہونگے جن کے کانوں میں یہ پِگھلا ہوا سیسہ بَن کر ٹپکا اور وہ جَل بھُن کر کباب بلکہ ”چھِتر کباب“ہو گئے۔

ایک صاحب جو کسی زمانے میں میاں نواز شریف صاحب کے دِل کے بہت قریب ہوا کرتے تھے اور شنید ہے کہ میاں صاحب کے ”سپیچ رائٹر“ بھی وہی تھے لیکن جونہی میاں فیملی کو زوال آیا تو محترم لکھاری نے ”پارٹی بدلنے“ میں ایک لحظے کی دیر بھی نہیں لگائی اور بوستانِ زرداری کی بُلبلِ ہزار داستان بن کر چہکنا شروع کر دیا ۔محترم لکھاری سے جب نیوز کاسٹر نے چیف آف آرمی سٹاف کے خطاب پر تبصرہ کرنے کو کہا تو اُنہوں نے لوگوں کو ذہنی خلجان میں مبتلاء کرنے کے لیے فرمایاکہ چیف صاحب کے اِس جملے کا کوئی بھی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ ”ہماری اندرونی اور بیرونی خطرات پر گہری نظر ہے “۔

ایک اور صاحب جوبیک وقت کالم نویس بھی ہیں ، اینکر بھی ، مزاحیہ اداکار بھی ہیں اور عالمِ دین بھی۔اُنہوں نے بھی یومِ شُہدا کے حوالے سے ایک کالم لکھا ہے جس میں شُہداء کا تو کہیں ذکر تک نہیں البتہ میاں برادران کی ”اچانک“ لندن روانگی پر تلملاہٹ ضرور نظر آتی ہے ۔اُن کے خیال میں میاں برادران کی اچانک لندن روانگی در اصل ”یومِ شُہداء“ کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا بہانہ تھی ۔

وہ کہتے ہیں ”موجودہ حکمرانوں کی کچھ عادات ایسی ہیں جنہیں بدلنے کے لیے ہر دَور میں کسی ”مسیحا“ کا آنا لازمی ہے ۔اب اگر اِس مرتبہ پھر ”مسیحا“ آ جائے تو کسی کو الزام نہ دیجئے گا “۔عرض ہے کہ ایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور پرویز مشرف جیسے جن ”مسیحاوٴں“ کی اُنہیں تلاش ہے ، وہ تو آنے سے رہے کیونکہ اب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور جمہوری سفر کے خَد و خال واضح ہونے لگے ہیں ۔

جنرل راحیل شریف صاحب نے بھی اپنے خطاب میں کم از کم یہ ضرور ثابت کر دیا کہ اُن کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کسی بھی دوسرے جمہوریت نواز سے کم نہیں ۔اِس لیے محترم لکھاری کی کسی ”مسیحا“ کی آمد کی خواہش تو بہرحال ادھوری ہی رہے گی البتہ اطلاعاََ عرض ہے کہ ”یومِ شُہداء“کی تقریب محترم جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شروع کی اور کسی بھی تقریب میں صدرِمملکت کو مدعو کیا گیا نہ وزیرِ اعظم اور نہ ہی اِس کی ضرورت محسوس کی گئی کیونکہ یہ ایک خالصتاََ فوجی تقریب ہے جس میں افواجِ پاکستان کے شُہداء کی لازوال قُربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور یہ خراجِ تحسین افواجِ پاکستان کے سَر براہ ہی کو ہی زیبا ہے ۔

موصوف نے اپنے کالم کے آخر میں ”دو خبروں والا“ ایک لطیفہ بھی درج کیا ہے ۔ہمارے پاس بھی محترم لکھاری کے لیے دو خبریں ہیں ۔ایک بُری اور دوسری بہت بُری۔بُری خبر یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور جنرل راحیل شریف قدم قدم پر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت میں کوئی اختلاف نہیں اور بہت بُری خبر یہ کہ ایک ہی صفحے پر موجود یہ دونوں رہنما افواہیں پھیلانے والوں کو ”صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے لیے تیار ۔


شُہداء پر عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنا ہمارا دینی ومِلّی فریضہ تو ہے ہی لیکن یہ بھی مدّ ِ نظر رہے کہ ربّ ِ ذوالجلال کے ہاں شُہداء کا رُتبہ اتنا عظیم ہے کہ میرے آقا ﷺنے فرمایا ”ربّ ِ کعبہ کی قسم میری یہ خواہش ہے کہ میں شہید ہو جاوٴں ، پھر زندہ کیا جاوٴں ، پھر شہید ہو جاوٴں ، پھر زندہ کیا جاوٴں ، پھر شہید ہو جاوٴں ۔۔۔ (مفہوم)“۔

عالمِ اسلام کے عظیم سپہ سالار خالد بِن ولید کی آنکھوں سے دَمِ واپسیں آنسو رواں ہو گئے ۔امیر المومنین حضرت عمر ابنِ خطاب سرہانے کھڑے تھے ۔اُنہوں نے فرمایا ”خالد! کیا موت سے ڈر لگتا ہے؟“۔حضرت خالد بِن ولید نے کہا ”نہیں امیر المومنین ! موت سے کیا ڈرنا ۔میں تو اِس لیے رو رہا ہوں کہ طبعی موت مَر رہا ہوں، شہادت نصیب نہیں ہوئی حالانکہ میں جذبہٴ شوقِ شہادت میں دشمن کی صفیں چیرتا ہوا نکل جاتا تھا“۔

یہ ہمارے ایمان کا حصّہ ہے کہ شہید صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے اور اُسے ہر گز موت نہیں آتی کیونکہ میرے رَبّ نے حکمت کی کتاب میں یہ درج کر دیا ہے کہ شہید زندہ ہے اور اپنے رَبّ کے ہاں سے خوراک حاصل کر رہا ہے ۔یہ بجا کہ شُہداء کے لواحقین عارضی جدائی کا دُکھ سہہ رہے ہیں لیکن اُنہیں یہ سوچ کر اطمینانِ قلب نصیب ہو جانا چاہیے کہ رَبّ ِ کعبہ نے اُن کے پیاروں کو جس عظیم منصب کے لیے چُنا ہے اُس کی خواہش تو ہر مومن مسلمان کے دِل میں پَلتی ہے لیکن یہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :