تم ٹھیک کہہ رہے ہو !

پیر 5 مئی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آج ورکشاپ کا آخری دن تھا ،جیسے ہی سیشن ختم ہواکیتھرین نے مجھے چائے کی دعوت دے دی ۔کیتھرین سری لنکا سے ورکشاپ میں شرکت کے لئے لا ہو ر آئی تھی ،کیتھرین گوتم بدھ کی پیرو کار تھی اور میں نے ورکشاپ کے پہلے دن ہی میانمار میں بدھووٴں کے ظلم و ستم کی داستانیں اس کے سامنے رکھ دی تھیں ۔مجھے یقین تھا کہ آج چائے کی دعوت پر وہ اپنی صفائی پیش کرنا چاہتی ہے لیکن کیفے کی میز گرد بیٹھتے ہی اس نے مجھ سے پہلا سوال کیا ”میں بینظیر بھٹو کے مزار پر جانا چاہتی ہوں کیا آپ میری راہنمائی کریں گے “مجھے کیتھرین سے اس سوال کی توقع نہیں تھی میں نے اسے کریدناشروع کیا تو مجھے معلوم ہوا پاکستان کے بارے میں اسکی معلومات ہمارے گریجویشن کے اسٹوڈنٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔

میں نے اس سے وجہ پوچھی تو بولی ”میں محترمہ کی بہت بڑی فین ہو ں ،میری معلومات کے مطابق آپ کے مذہب میں ایک عورت کے حکمران بننے کی بالکل گنجائش نہیں لیکن محترمہ نے نہ صرف اس روایت کو توڑا بلکہ دو دفعہ اس ملک کی وزیر اعظم بھی بنیں اور شاید یہ محترمہ کی بہت بڑی کامیابی تھی “میں کیتھرین کو مزید گہرائی سے جاننا چاہتا تھا چناچہ میں خاموش رہا ،وہ دوبارہ گویا ہوئی ”میں نے مذہب اسلام کو بڑی تفصیل سے اسٹڈی کیا ہے مجھے اس کی اکثر باتیں اچھی لگی ہیں لیکن خواتین کے بارے میں میں اسلامی احکام سے مطمئن نہیں ہوں ،آپ سیاست کو ہی لے لیں ،اسلام ایک طرف عورت کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور دوسری طرف اس کے حکمران بننے پر پابندی عائد کردیتا ہے ایسا کیو ں ہے “اب بولنے کی باری میری تھی ،میں اگر اب بھی خاموش رہتا تو شاید کیتھرین کبھی مطمئن نہ ہوتی چناچہ میں نے موقعے کو غنیمت جانا اور بولنا شروع کیا ” ہمارے مذہب کے مطابق ریاست کا سربراہ نماز باجماعت کرانے کا پابند ہوتا ہے ،ہمارے نبی علیہ السلام جب تک حیات رہے سوائے ایک دو مواقع کے ہمیشہ خو د جماعت کرواتے تھے اس لیئے وقت کے امام ،خلیفہ اور حکمران کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کی امامت خود کروائے اور عورت امام نہیں بن سکتی اس لئے اسلا م نے سرے سے عورت کے حکمران بننے پر پابندی لگا دی ۔

(جاری ہے)

آپ شریعت کو چھوڑیں عقلی دلا ئل کو ہی دیکھ لیں ، صدر یا وزیر اعظم کو سربراہ ریاست کی حیثیت سے غیر ملکی سربراہان سے ملاقاتیں کرنی پڑ تی ہیں ،ان سے ہاتھ ملانے کی نوبت آجا تی ہے ،تنہائی میں بات چیت اور گفتگو کر نی پڑتی ہے ،بعض اہم اور خفیہ معاملات میں مرد وزیروں کے ساتھ میٹنگ میں شریک ہو نا پڑتا ہے اور اسلام کسی بھی صورت میں مرد وعورت کو تنہائی میں بیٹھنے اور ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں دیتا ۔

مزید برآں عورت مخصوص ایا م میں نفسیاتی طور پر ابنارمل ہو جاتی ہے اور اس کا مجموعی رویہ نارمل نہیں رہتا توان ایا م میں عورت کوایک گھر سنبھالنا ہی مشکل ہو جاتا ہے تو وہ پورے ملک کو کس طرح سنبھال سکتی ہے ۔عورت میں فطری طور پر اظہار مافی الضمیر کی بھی کمی ہو تی ہے اور وہ کھل کر اپنے خیا لا ت کا اظہار نہیں کر سکتی اور سربراہ ریاست کی حیثیت سے انٹرنیشنل فورمز پر اپنے ملک کا مقدمہ اچھی طرح سے نہیں لڑ سکتی، سائیکالوجسٹ بتاتے ہیں کہ عورت میں دور اندیشی کی صلاحیت مردوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے اس لئے عورت کے کئے ہو ئے فیصلے مردوں کی نسبت اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں ۔

اس کے علا وہ عورت کی عائلی زندگی کی مجبوریاں بھی اس کی روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہو تی ہیں ،مثلا اسے گھر میں رہتے ہوئے ماں ،بیوی یا بہن کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے لہذٰاایک عورت اگر حکمران بن جاتی ہے تو وہ اپنی خانگی زندگی کو بہتر طریقے سے ڈیل نہیں کرسکتی ۔اور عورت فطرتا نرم دل بھی ہو تی ہے اورجذباتی بھی جبکہ سربراہ ریاست کا غیر جذباتی اور حقیقت پسند ہو نا ضروری ہے “میں نے کیتھرین کی طرف دیکھا،کیتھرین کا اعتراض کافی حد تک رفع ہو چکا تھا ،چنانچہ اس نے دوسرا سوال داغ دیا ”اسلام نے مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے کر عورت پر نفسیاتی ظلم کیا ہے“میں نے کہا ”دیکھو کیتھرین ایک سے زائد شادیوں کی اجازت صرف اسلام نے نہیں دی بلکہ اس سے پہلے جتنے بھی ادیان تھے یہودیت ،عیسائیت سمیت تمام ادیان نے اس کی اجازت دی تھی اور پہلی تمام شرائع میں اس کا حکم مو جو د ہے ۔

میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت ذیادہ صحت مند ہو تی ہیں اور لمبی عمر پاتی ہیں ۔مرد جنگوں میں ہلا ک ہو جا تے ہیں یا کا م کاج کے دوران حادثات کا شکار ہو جا تے ہیں جس سے معاشرے میں عورتوں کی تعداد بڑھ جا تی ہے اور معاشرے کا اعتدال اور توازن بگڑ جا تا ہے اس لئے اسلا م نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی تا کہ معاشرے میں توازن برقرار رہ سکے ۔

امریکہ اور یورپ میں اگر ہر مرد ایک عورت سے شادی کرے تب بھی تین کروڑ خواتین ایسی بچ جا ئیں جن کی شادیاں نہ ہو سکیں اب آپ خود بتائیں کیا وہ ساری عمر کنواری رہ سکیں گی ؟ہرگز نہیں کیوں کہ کنوار پن فطرت کے خلاف ہے اور کو ئی انسان فطرت سے نہیں لڑ سکتا اس لئے مختلف ہاتھوں میں کھلونا بننے اور ہر روز نئی شادی رچانے کی بجائے یہ بہتر نہیں کہ ہم مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دیں “اب شایدکیتھرین کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا چناچہ اس نے عورت کی آدھی گواہی ،مخلوط تعلیم اور خواتین کی جا ب کے متعلق سوال کرنے شروع کر دیے ،میں نے کیتھرین کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے عرض کیا ”دیکھواسلام میں صرف چند مسائل ایسے ہیں جن میں عورت کی گواہی آدھی تسلیم کی جاتی ہے ان کے علاوہ بقیہ تمام مسائل میں اسلا م نے عورت کی گواہی کو مرد کے برابر قرار دیا ہے بلکہ بعض مسائل تو ایسے ہیں کہ ان میں اسلام نے صرف عورت کی گواہی کو ہی معتبر قرار دیا ہے لہذٰا اگر بعض مسائل میں مرد کی گواہی قابل قبول نہیں اور اس پر کو ئی اعتراض بھی نہیں کر تا تو پھراسلام نے اگر کسی جگہ پر عورت کی گواہی کو قابل اعتبار نہیں مانا تو اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہو نا چاہے۔

اس کے علاوہ مالی معاملا ت میں اسلا م نے عورت کی گواہی کو اس لئے آدھی تسلیم کیا ہے کیوں کہ مالی معاملات کا تعلق مردوں سے ہو تا ہے اور عورتیں مالی معاملات کے بارے میں کچھ ذیادہ نہیں جانتی ۔اورقتل کے معاملے میں بھی اسلام عورت کو آدھی گواہی کا حق دیتا ہے کیوں کہ عورت اپنی سلیم الطبعی کے باعث اکیلے قتل کی گواہی دینے سے گھبراتی ہے ۔اوررہ گئی جا ب کی بات تو آ پ رپورٹس اٹھا کر دیکھ لیں مردوں کے ساتھ کام کرنے والی پچاس فیصد خواتین جنسی طور پر ہراساں ہو تی ہیں ۔

اگرجاب ماڈلنگ کا نام ہے تو اسلام اس سلسلے میں روایات کہن کا علمبردار ہے ۔آپ صرف ایئر ہوسٹس کی جاب کو دیکھ لیں ،ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی پچاس فیصد لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایئر ہوسٹس بنیں لیکن حقیقت میں یہ سب سے اذیت ناک جاب ہے ،اس کے لئے سب سے پہلی شرط ہے کہ آپ خوبصورت ہوں ،نوجوان ہوں ،آپ تنگ لباس پہنیں ،مسافروں کی خوشنودی کے لئے ہر لمحے مسکراہٹ آپ کے چہرے پر چھائی ہو ،آپ ان کو شراب پیش کریں، ہر مسافر کی آلودہ نگاہ کو ہنس کر” فیس“ کریں اور جب آپ پینتیس سال کی ہوجائیں تو ادارہ آپ کو” بوڑھی“ ڈکلیئر کر کے آپ کو فارغ کر دے ۔

اگر جاب اس بے حسی اور بے حمیتی کا نام ہے تو اسلام قطعا ایسی جا ب کی اجازت نہیں دیتا “ویٹر چائے لے کر آ چکا تھا ،کیتھرین نے چائے کا کپ اٹھایا ،گرم چائے کی چسکی لی اور کپ دوبارہ ٹیبل پر رکھتے ہو ئے مطمئن انداز میں بولی ”ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :