میر۔۔۔ اور فرسٹ لائن آف ڈیفنس

پیر 5 مئی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

محترم حامد میر پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے اتنا متنازعہ رخ اختیار کر لیا ہے کہ اصل مجرموں کا شاید کبھی پتا نہ لگ سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں جب ایک دوسرے کو گھسیٹنا شروع کر دیا جائے تو اصل مجر م اطمینان سے بچ نکلتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحافیوں کے لیے وطن عزیز میں بہت سے مشکلات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان مشکلات کی وجہ سے خود کو ہی کلہاڑی مارناشروع کر دی جائے۔

ہم بطور صحافی ہمیشہ عوام کو مشکل میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن حیران کن طور پر خود صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔
حالیہ واقعے میں ہم نے وہ طرز عمل اپنا جو اکثر ہمسایہ ملک کسی بھی واقعے میں اپناتا ہے اور ہم اس کا مذاق اڑایا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہاں پٹاخہ بھی چلتا ہے تو الزام لگتا ہے کہ یہ پاکستان اور ان کی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے ۔

اور حقیقت میں ان کے الزامات کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ۔ صرف بے پر کی اڑائی جاتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حامد میر پر حملے میں ہوا۔ اہلخانہ کی طرف سے فوراً ملک کی ایک اہم ایجنسی اور اور اس کے سربراہ کو اس حملے میں ملوث قرار دے دیا گیا۔ اب تکلیف دہ حقیقت یہ ہے اس ایجنسی کا نمائندہ یا اس کے سربراہ براہ راست معاملات کی صفائی کے لیے خود میڈیا پر نہیں آ سکتے ۔

اس کے لیے ان کا ترجمان اداراہ ہی یہ فرائض سر انجام دیتا ہے۔
دراصل اس ترجمان ادارے کا کام ہنگامی حالات میں میڈیا کو با خبر رکھنا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاک فوج کے ترجمان ادارے نے چند بیانات اس طرح کے میڈیا تک پہنچائے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید فوج اور سیاستدانوں میں اختلافات کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے ۔ لیکن حقیقت میں پاک فوج کے ترجمان ادارے کا اس طرح کے ہنگامی حالات میں ردعمل ظاہر کرنا ضروری ہو گیا تھا۔


اب اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ معاملہ ایک سنگین صورت حال اختیار کر گیا ہے۔ حامد میر صاحب پاکستان کے 80 ہزار سے زائد صحافیوں کی طرح ایک صحافی ہیں فرق یہ ہے کہ وہ پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والے صحافی ہیں۔ شیخ رشید صاحب تو آج تک ان کے ایک پروگرام کو شکست کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ان کا اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین جوڈیشل کمیشن ان پر قاتلانہ حملے کی وجوہات جاننے کے لیے تشکیل پا چکا ہے۔

حامد میر صاحب نے ابھی کوئی بیان نہیں دیا (لیکن حملے سے پہلے کے ان کے بیانات متنازعہ ضرور ہیں)کیوں کے شاید ابھی وہ بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن ان کے بھائی نے ایک متنازعہ بحث چھیڑ دی ہے۔
صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے مجھے بھی حامد میر صاحب پر ہونے والے حملے کا افسوس ہے اور اس کی غیر جانبدرانہ تحقیقات بھی ہونی چاہیے ۔

لیکن حیران کن طور پر کسی بھی قسم کی ایف آئی آر سے پہلے اور کسی بھی طرح کی تحقیقات کے بناء ملکی سلامتی کی ضامن اہم ترین حساس ایجنسی(جسے پاکستان کی پہلی دفاعی لائن بھی کہا اور سمجھا جاتا ہے) اور اس کے سربراہ کو اس واقعے میں ملوث قرار دے دیا گیا۔مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ چار دن گزر جانے کے باوجود رپورٹ درج نہیں کی گئی اور تحقیقات بھی شروع کر دی گئیں۔

اب سوچنا یہ ہے کہ ان تحقیقات کا کتنا فائدہ ہو گا جن کی بنیاد ہی ہوا میں رکھی گئی ہو۔ حامد میر صاحب یا ان کی فیملی کسی پر الزام لگانے میں حق بجانب بھی ہے لیکن انہوں نے شاید یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ اس کے ملک کی موجودہ صورت حال پر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حامد صاحب کا کیس ان کی فیملی نے ہی متنازعہ بنا دیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ امریکہ کی طرف سے سرکاری سطح پر اس واقعے کی مذمت نے کہی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ حملہ صحافت پر حملہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حامد صاحب ایک عام پاکستانی بھی ہیں۔ اور ایک عام پاکستانی پر حملے کی امریکہ مذمت کرے تو " دال" کی رنگت پر ویسے ہی لوگوں کا شک نمایاں ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس واقعے کی ٹائمنگ بھی بہت حیران کن ہے۔ وفاقی وزراء نے پہلے ہی حکومت وقت و فوج میں دوریاں بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اوپر سے اس واقعے کے بعدیہ دوری کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔

ایک سابق جنرل صاحب غداری کا مقدمہ بھگت رہے ہیں کچھ بعید نہیں کہ کل کو کوئی حساس ایجنسی اور اس کے سربراہ پر الزامات کی بنیاد پرالزام لگانے والوں پر غداری کا ایک نیا مقدمہ کھول کر ایک نئی بحث کو جنم دے جائے۔
سابقہ دور حکومت بہت سے حوالوں سے بہتر نہیں رہا لیکن ایک لحاظ سے بہتر ضرور رہا کہ اس میں حکومت اور فوج میں ایک توازن رہا۔ اور تعلقات میں اگر گرمجوشی نہیں رہی تو سرد مہری بھی نہیں رہی۔

یہ صورت حال اب نہیں ہے۔ دن بدن فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں موجودہ صورت حال کو ذہن میں رکھا جائے تو کیا کل کو ہمارے سیاستدان کسی غیر جمہوری اقدام پر سارا ملبہ فوج پر ڈال سکتے ہیں؟ کیوں کہ فوج پر الزامات تو سیاستدان اور میڈیا خود لگا رہا ہے۔ حقیقت میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع سیاستدان خود نہیں دیتے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سیاستدان ہمیشہ مارشل لاء کی راہ خود ہموار کرتے ہیں۔

فوج کو ایک ایسے کونے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے کہ وہ مجبوراً کوئی ردعمل دینے پر مائل ہو جاتی ہے۔
جس حساس ایجنسی پر الزام تراشی کی گئی ہے اسے عام زبان میں" فرسٹ لائن آف دیفنس " کہا جاتا ہے ۔ جنگ کی صورت حال میں تو آپ کی مسلح افوج کا کردار بہت بعد میں آتا ہے اولین محاذ پر اسی ایجنسی کو کام کرنا ہوتا ہے۔ مسلح افواج زمانہ جنگ میں ہی دشمن کا سامنا کرتی ہیں جب کہ فرسٹ لائن آف ڈیفنس یہ ایجنسی ہر لمحہ ، ہر گھڑی دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہوتی ہے۔

اسی لیے اس کے کردار پر حملہ ہر صورت پاکستان کے دفاع کی پہلی سیڑھی پر حملہ گردانا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔
ملکی دفاع کی ضامن حساس ایجنسی پر الزامات سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو ہمارے دشمنوں کو فائدہ ضرور ہوا ہے۔ غیر ملکی میڈیا جو عرصے سے ہماری افواج کے خلاف ایک محاذ قائم کیے ہوئے ہے۔اس کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ جب اپنے ہی اپنی فوج کے خلاف ہیں تو پھر یقینا ہماری بات بھی ٹھیک ہے۔

میری دعا ہے کہ حامد میر صاحب جلد از جلد صحت یاب ہوں اور کاش وہ حالات کی سنگینی کا انداز ہ کرتے ہوئے خود ان الزامات کی نفی کر دیں اور تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی ایسا بیان نہ دیں جو ملک کی سلامتی پر اثر انداز ہو رہا ہو۔اس واقعے کے ذمہ داران اگر منطقی انجام تک نہیں پہنچیں گے تو وطن عزیز میں حالات ابتر ہوتے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :