آئینِ پاکستان

پیر 5 مئی 2014

Hussain Jan

حُسین جان

میں اُن بزرگ کو بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا ،وہ زور زور سے چلا رہے تھے کہ مہنگائی نے ہماری جان نکال دی ہے، غربت بیروزگاری اور اُوپر سے لوڈشیدنگ کا عذاب۔میں نے جا کر بزرگ صاحب سے کہا کہ چچا آپ سڑک پر اس طرح احتجاج کر کے ملکی آئین کو توڑ رہے ہیں یہ سننا تھا کہ برزگوار نے مجھے گندی گندی گالیاں نکالنا شروع کردی۔وہ شائد سمجھ رہا تھا کہ آئین کی وجہ سے وہ اپنے حقوق نہیں مانگ سکتا مگر میں نے پیا رسے سمجھایا کہ آئین آپ کو بنیادی حقوق کی زمانت دیتا ۔

تو انہوں نے پوچھا پہلے تو یہ بتاؤ یہ آئین ہوتا کیا ہے اور یہ میرے حقوق کیسے پورے کرئے گامیری 60سالہ زندگی میں تو میں نے آج تک کسی آئین کو نہیں دیکھا۔ کیا یہ کسی آٹے والے سٹور کا نام ہے یا یہ راشن کی دُکان ہے کہ میں وہاں سے جا کر اپنے لیے ضروریات زندگی مفت میں لے لوں۔

(جاری ہے)

کیا آئین دیکھانے سے میرے بچوں کی سکول فیس معاف ہو جائے گی۔ کیا اس آئین کی وجہ سے میرے بیروزگار بیٹے کو نوکری مل سکتی ہے۔

کل میں ہسپتال گیا تھا اپنی بیوی کا علاج کروانے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے علاج پر 3سے 4لاکھ خرچہ آئے گا تو کیا آئین میری بیوی کا علاج کروا دے گا۔ میری بڑی بیٹی کی شادی ہونے والی ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ بیٹی کو جہیز دے سکوں،تو کیا آئین کے پاس کوئی اچھا سا رشتہ موجود ہے جو میری بیٹی کو جہیز کے بغیر بیاہ کر لے جائے۔ کہنے لگے بیٹا میں نے اپنی پوری زندگی میں آئین کا لفظ صرف سن رکھا ہے یہ ہوتا کیا ہے کام کیا کرتا ہے کیسے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ۔

کیسے امیروں کی تجوریاں بھرتا ہے مجھے کچھ نہیں پتا میں تو اس ملک میں آج تک جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ ہی دیکھتا چلا آرہا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وہ آگے چل پڑئے۔
ہم لوگ بھی عجیب شے ہیں ایک ایسی چیز کو سارا سارا دن ڈسکس کرتے ہیں جس کے بارے میں 90فیصد عوام کو پتا ہی نہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ یہ آئین،نظریہ،ملکی مفاد ،دفعات ،صوبایت ،خودمختاری، پارلیمنٹ، اسمبلیاں اور ان جیسے بیشمار الفاظ جن سے اس ملک کی اکثریت جو کہ ناخواندہ ہے واقف ہی نہیں۔

ایک مستری جو سارا دن دھوپ میں اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے ،ایک مزدور جو دن بھر کی تھکن کے بعد دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا ہے ان بیچاروں کو آئین سے کوئی سروکار نہیں ان کو توبس اپنے کنبے کے لیے ضروریات زندگی درکار ہیں اور یہ اُن کی اپنی محنت سے پوری ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک لفظ ہے فلاہی ریاست اس کا بھی بہت ڈھندورا پیٹا جاتا ہے مگر یہ فلاہی ریاست پچھلے 65 سالوں میں بن نہیں پائی ہاں کچھ خاندانوں کی اچھی خاصی فلاح ہو چکی ہے۔

مشرف کو دھمکی دی گئی کہ اگر اُس نے افغانستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دی تو اس ملک کو پتھر کے زمانے میں دکھیل دیا جائے گا ۔ لیکن شائد یہ دھمکی دینے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ملک کے کرتا دھرتا ہی اسے پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے، باہر کے دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا میڈیا کے لوگ بھی کمال کے ہیں کہ عوامی مسائل کو چھوڑ کر ایسے ایسے مسائل پر پروگرام رکھ لیتے ہیں جن مسائل کا عوام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔


آئین جیسی دستاویز جو کہ عام شہریوں کو ملک میں موجود تمام حقوق کی زمانت دیتا ہے کو ہمارے چند احباب نے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی غریب کو دھانے کچہری کا کوئی کام پڑ جائے تو اُس کی روح تک کانپ جاتی ہے ۔ اگر غلطی سے کوئی تھانیدار کواپنا آئینی حق جتانے کی کوشش کرئے تو تھانیدار صاحب کہتے ہیں کہ پاؤ بھی اس کو لمے یہ اب ہمیں قانون سیکھاے گا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آئین کو سعی معنوں میں نافذ ہی نہیں کرنا تو اس کا کیا فائدہ۔ جب جس کا دل کرتا ہے آئین پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر لیتا۔ یہ کیسا آئین ہے جو آج تک ہم کو پاکستانی نہیں بنا سکا۔ ہم آج بھی سندھی پنجابی ،بلوچی، پٹھان کی لڑائی میں پڑئے ہوئے ہیں۔ بقول ایک شخص کے کہ ہم تو لوگوں کا گروہ ہیں اور گروہ بھی ایسا جسے کوئی بھی کدھر بھی ہانک لے جائے۔

لوگ کہتے ہیں گزشتہ حکومت کرپٹ تھی لہذا عوام نے اُسے ووٹ نہیں دیے بندہ پوچھے سندھ میں تو انہی کی حکومت ہے۔ کیا سندھیوں کو کرپٹ لوگ زیادہ پسند ہیں "باری کا کمال ہے بھائی"۔
ہمارے اس پیارے آئین میں بہت سی دفعات بھی شامل ہیں جن لیکن بدقسمتی سے ان دفعات کا بھی کسی کو کچھ نہیں پتا ہاں فلموں میں اکثر یہ ضرور سنا ہے کہ آپ کا دفعہ فلاں کے تحت یہ سزا دی جاتی ہے۔

مزے کی بات فلم میں بھی سزا پانے والا ایک غریب ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح حقیقت میں بھی سزا صرف غریبوں کے لیے ہے۔ آئین پاکستان کہتا ہے پاکستان کے عوام کی تمام ضروریات پوری کرنا ریاست کا کام ہے۔ لیکن یہاں تو عوام کو بجلی پانی، ہسپتال،تعلیم تک میسر نہیں۔ کروڑوں کے اشتہارات کے لیے ہر حکومت کے پاس پیسہ ہوتا ہے مگرغریب کو دینے کے لیے کسی کے پاس کچھ نہیں۔

آئین کہتا ہے حکمران کو سچا ہونا چاہیے پر یہاں تو روز بیانات بدلے جاتے ہیں ۔ آئین کہتا ہے حکمرانوں کو وعدے کا پاس کرنے والا ہونا چاہیے مگر بجلی ختم کرنے کی تاریخ روز بدلی جاتی ہے۔ ہر دفعہ ایک دو سالوں کو آگے پیچھے کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غریب خوش قسمتی سے میڈیا تک رسائی حاصل کر لے تو اُس کو کچھ آئینی حصہ مل جاتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں آئین کسی بھی ملک کا طرز حکومت، ملک میں رہنے کے آداب ،حقوق فرائض کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

اور تمام شہریوں کو ملکی وسائل میں برابر کا حصہ دار بتاتا ہے ۔ لہذا اگر ہمارے ملک میں آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے تو عوام کے بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے۔ اپنے اپنے محل بنانا چھوڑ کر اگر حکمران غریب کی جگی میں خوشی کے کچھ پل دے سکیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔ آئین کے مطابق دولت کی منصفانہ تقسیم ، نوکریاں ،تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات ہر حال میں حکومت عوام تک پہنچائے۔

اگریہ چیزیں عوام تک پہنچا دی جائیں تو وہ وقت دور نہیں ہو گا کہ ہم ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں گے۔ ابھی ہم نے کیا ترقی کرنی ہے کہ ہر انسان کو دووقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے۔ خالی پیٹ تو دماغ ویسے بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ایجادات کیسے کرئے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موجودہ حکومت پانچ سالوں میں آئین کی کتنی پاسداری کرتی ہے اور عوام کو کس قدر سہولت باہم پہنچاتی ہے۔

ویسے حکومت کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر عوام کو کچھ نا بھی ملا تو کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ مرکز میں حکومت نہیں ملے گی پنجاب میں پھر بھی مل جائے گی جیسے پی پی کو سندھ میں مل گئی ہے۔ سیاسی شہیدوں کو زندہ رکھنے کی بجائے اگر زندہ عوام کو کچھ دے دیا جائے تو بہتر ہے۔ آئین تحریری ہو جا غیر تحریری بہتر وہی ہوتا ہے جو عوام کو کچھ دے رہا ہو۔
آئین کچھ حدیں مقرر کرتا ہے ملک میں رہنے والوں پر لیکن کچھ لوگ ان حدود کو توڑنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اگر آئینی حدود میں تمام معاملات حکومت چلائے جائیں تو خوشحالی ایک دن اس ملک کا منہ ضرور دیکھے گی ۔ ورنہ چل چلاؤ تو آدھی صدی سے چل ہی رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :