سمندر کا چیلنج

ہفتہ 3 مئی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

آٹھ مارچ2014کو ملائشین ایئرلائنز کے طیارےMH370نے، جس میں239مسافر سوار تھے، کو الالمپورسے بیجنگ کے لیے اُڑان بھری اور تقریباً ایک گھنٹے بعد اس طیارے کا رابطہ زمینی کنٹرول سے کٹ گیا،اس ساعت یہ بدقسمت طیارہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ابتداء میں تو یہ ہوابازی کی دنیا کا ایک پریشان کن واقعہ تھا لیکن چند دنوں بعد یہ پوری دنیا کے لیے ایک معمہ اور بعدازاں چیلنج بن گیا۔


اس طیارے کی پراسرار گمشدگی کو نو ہفتے گزر چکے تھے لیکن دو درجن کے قریب دنیا کے سرکردہ ممالک کے جدید علوم و فنون سے آراستہ ماہرین کئی بحری و فضائی جہازوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے باوجود بدقسمت طیارے کا سراغ لگانے میں تاحال ناکام ہیں۔ طیارے کی تلاش کے دوران 4.5ملین مربع کلومیٹر سے زائد سمندر کی سطح پر طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔

(جاری ہے)

اس تلاش پر اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 60ملین ڈالر(تقریباً60ارب پاکستانی روپے)خرچ ہوچکے ہیں۔ اب اس طیارے کی تلاش دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں اسے سمندر میں ہزاروں میٹر گہرائی میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس واقعے نے پوری دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔آج سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کے دور میں دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کے لیے یہ ایک ناقابل قبول اور حیرت انگیز واقعہ ہے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے معجزوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے ذہنوں میں یہ سوال کانٹابن کر چبھ رہاہے کہ حشرات الارض کی جسامت کے ڈرون تیار کرلینے اور ان کی مدد سے افق کی بلندیوں سے غاروں،بیابانوں اور ویرانوں میں کی جانے والی سرگوشیاں تک سن لینے والوں اور روبوٹ کو انسان کے متبادل کے طور پر پیش کرنے والے ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترویج پر تیسری دنیا کے ممالک کے مجموعی سالانہ بجٹ سے زائد رقم خرچ کررہے ہیں، اس بدقسمت طیارے کے کسی ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے اور239انسانوں کی شکستہ ہوتی سانسوں کی آہٹ تک کیوں نہیں پہنچ پا ئے۔

ان نو ہفتوں کی تلاش کے بعد یہ حقیقت مزیدواضح ہوگئی ہے کہ انسان ابھی تک قدرت کے سامنے بے بس ہے۔یہاں ایک سوال یہ بھی ابھرتاہے کہ کیا ابھی تک اس کائنات کی وسعتوں میں کئی رازو اسرار پوشیدہ ہیں جو اس خالق کائنات کے حکم پر متعین وقت پر حضرت انسان پر عیاں ہوں گے۔اللہ تعالیٰ نے سمندر کو ہیبت ،جوش اور پر اسراریت کا پیکر بنایاہے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں میں خالق کائنات کی عظمت کی کئی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔

آج انہی وسعتوں اور گہرائیوں کودنیا کے بہترین دماغ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ آلات سے ماپنے پر مجبورہیں۔ اب جب بدقسمت طیارے کی تلاش کا سفرسطح سمندرکی بے کراں وسعتوں سے نیلے پانیوں کی اَتھاہ گہرائیوں کی طرف مڑ گیا ہے تو کئی ذہنوں میں سمندر کے ایک بہت بڑے اسرار برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت نمایاں ہوگئی ہے۔
برمودا بحر اوقیانوس( Atlantic Ocean )کے کل 300 جزیروں پر مشتمل علاقہ ہے جن میں سے اکثر غیر آباد ہیں۔

صرف بیس جزیروں پر انسان آباد ہیں، وہ بھی بہت کم تعداد میں۔اس میں جو علاقہ سب سے خطرناک سمجھا جاتا ہے اسے برمودا تکون کہتے ہیں۔ اس تکون کا کل رقبہ 11,40,000 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کا شمالی کوناجزائر برمودا،جنوب مشرقی سرا پورٹوریکو اور جنوب مغربی سرا میامی (فلوریڈ امشہور امریکی ریاست) ہے۔ یعنی اس کا تکون میامی میں بنتا ہے۔ فلوریڈا کے معنی ہیں "اس خدا کا شہر جس کا انتظار کیا جا رہا ہے" اس کے دوسرے معنی "وہ خدا جس کا انتظار کیا جا رہا ہے"۔

تقریبا چار سو سال سے کسی انسان نے ان ویران جزیروں میں جا کر آباد ہونے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ جہاز کے کیپٹن اس علاقے سے دور ہی رہتے ہیں۔ ان میں ایک جملہ بڑا عام ہے جو وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، " وہاں پانی کی گہرائیوں میں خوف اور شیطانی راز چھپے ہیں"۔
برمودا مثلث کی شہرت کا باعث وہ حیرت انگیز واقعات ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ان واقعات کے مطابق کئی بحری اورہوائی جہاز اس بحری علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتا ہوگئے اور ان کاکوئی بھی نشان نہیں ملا۔اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی یا آسیبی مثلث بھی کہا گیا ۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان نے دنیا کے بہت سے سربستہ راز معلوم کر لیے ہیں تا ہم سائنسدان اور ماہرین ان بحری اور ہوائی جہازوں کی گمشدگی کا راز معلوم نہ کر سکے اور نہ ہی غرق ہونے والے مسافروں اور جہازوں کے ملبے کا کوئی پتاچلا سکے۔


عام خیال یہ ہے کہ فزکس کا کوئی قانون یہاں کام نہیں کرتا اور یہاں ہر طرف عجیب و غریب روشنیوں(شعاؤں) کا ہجوم رہتا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں شیطانی قوتوں کی حکومت ہے۔ جو مقبولیت آج اس علاقے کوحاصل ہے وہ چارلس برلٹیز( Charles Berlitz ) نامی شخص کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ''برموداٹرائی اینگل'' کے نام سے چارلس کی ایک کتاب 1974ء شائع ہوئی اور بعد میں اس پرایک فلم بھی بنائی گئی۔

چارلس کی کتاب ''برموداٹرائی اینگل'' میں ان ہوائی اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اورپراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں غائب ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو 5 دسمبر 1945ء کو یہاں پہنچ کر غائب ہو گئے تھے۔اس واقعے میں 14افراد بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس مثلث کے بارے میں سائنسدانوں کی سرگردانی صرف بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے غائب ہوجانے سے متعلق ہی نہیں بلکہ اب تک ہزاروں پائلٹوں، ملاحوں اوردوسرے بحری و ہوائی سفر کرنے والے مسافروں نے اس منطقے کو عبور کرنے کے موقع پر بہت سی حیرت انگیز اور مافوق الفطرت باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

ان پراسرار واقعات میں بھی یہ بات مشترکہ ہے کہ مسافر جب بھی اس ٹرائی اینگل کے قریب پہنچے ،ان کی گھڑیوں میں تعطل پیدا ہوگیا اور مشینوں نے اپنی حرکت بند کردی اور اس کا کنٹرول پائلٹوں اور ملاحوں کے اختیار میں نہیں رہا۔
موجودہ ریکارڈ کے مطابق پہلا بحری جہاز مارچ 1918ء میں لاپتا ہوا۔ سائی کلون نامی یہ ایک امریکی جہاز تھا۔ بعد ازاں 1952ء میں یہاں ''اسکارپین'' نامی امریکی ایٹمی آبدوز غائب ہوئی تھی۔

23مارچ 1973ء کو ''آمتا'' نامی امریکی مال بردار بحری جہاز غرق ہوا جبکہ1950ء میں سپین کے تین بحری جہاز سمندر کی تہ میں چلے گئے۔ بحری اور ہوائی جہازوں سے جو آخری ریڈیائی پیغام موصول ہوا وہ یہ تھا کہ ''ہمارے تمام آلات سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگی ہیں'' اس کے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی۔ پانچ امریکی تارپیڈو بمبار جہازوں کی غرقابی کے بعد عملے اور ملبے کی تلاش میں بھیجا جانے والا ہوائی جہاز بھی برمودا تکون کے اوپرپہنچتے ہی پراسرار کشش کا شکار ہوگیا اور پھر اس کا بھی نام و نشان نہ مل سکا۔


مندرجہ بالا پراسرار واقعات کی روشنی میں بعض ماہرین قیاس کرتے ہیں کہ اس مقام پر سمندر میں موجود کوئی طاقتور مقناطیسی قوت بحری اورہوائی جہازوں میں نصب ریڈیائی آلات پر اثرانداز ہوجاتی ہے جس سے سارا نظام ہی معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔بعض مذہبی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ برمودہ تکون اصل میں دجال کا مسکن ہے۔بہرحال اس حوالے سے افواہیں،کہانیاں، اندازے اورحقیقت جو بھی ہے، سچ یہ ہے کہ آج حیرت انگیز سائنسی ترقی کے باوجود برموداٹرائی اینگل سائنسدانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔


اسی طرح جس طرح گمشدہ ملائشین طیارے کے ملبے ،239انسانی جسم اوران کا سازوسامان حتی کہ بلیک باکس سے خود کار نظام کے تحت نکلنے والے سگنلز کی مدہم آہٹ تک رسائی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ بے شک ہر راز اللہ کے حکم سے عیاں ہوتا ہے ،انسان کا کام تو جستجو ہے اور جستجو کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :