قلم اور بندوق میں طاقت کی جنگ

ہفتہ 3 مئی 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

پاکستان میں صحافیوں کی مشکلات نے ایک نئی جنگ کو جنم دے دیا ہے ۔یہ جنگ معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے سے تیز ہوئی ہے ۔حملے کے بعد ان کے خاندان کی جانب سے اس حملے کا الزام پاکستان کی سب سے طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پرلگا یا گیاہے۔جس سے پاکستانی قوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی اور اسی طرح پاکستان کے صحافتی ادارے بھی دو ڈھروں میں بٹ گئے ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پاک فوج ایک جانب آئی ایس آئی کے دفاع میں جت گئی ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ” جنگ “حامد میر کے دفاع میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔کئی صحافیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے اور کئی ایک جان کی باز ی ہار گئے ۔

(جاری ہے)

پاکستان میں خانہ جنگی اور نظریاتی اختلافات نے صحافیو ں کو فوج اور طالبان دونو ں کا ہدف بنا دیا ہے ۔طالبان سے مزاکرات کا عنوان ہویا امن کا معاملہ صحافیوں کے تجزیے یا تو طالبان مخالف ہوتے ہیں یا فوج ان سے ناراضگی کا مفہوم اخذ کرتی ہے ۔طالبان کی مخالفت بھی خود کشی کے مترادف ہے اور فوج کو اپنا مخالف بنانا بھی نری حماقت ہے ۔ایسی صورت حال میں صحافی کیسے کام کریں؟ ۔

یہ ایسا سوال ہے جب اس کا جواب مل جائے تو یہ محاذآرائی خود بخود ختم ہوجائے گی ۔پاکستان میں میڈیا جہاں نظریاتی سرحدوں کا نگہبان ہے وہاں اس کی ذمہ داری میں جمہوریت کا دفاع بھی شاملہے ۔سابق صدر پرویز مشرف کے غداری کیسکا معاملہ عدالتوں کے سپرد ہے ۔صحافی چاہتے ہیں کہ آئین شکنی اورآئین کی توہین کا سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے ،اس مقصدکے لیے وہ پرویز مشرف کو عبرت ناک سزادلوانیکے حق میں ہیں جبکہ پرویز مشرف سابق آرمی چیف ہیں اور آرمی چیف کوئی بھی ہوں،فوج کاسرمایہ ہیں ۔

فوجی زبان میں جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوا کرتے ،خاص کر آرمی چیف کے پاس ملک کے بہت سار ے راز ہوتے ہیں اس لیے فوج ریٹائرڈ آرمی چیف کوکبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ دشمن ملک اس تاک میں ہوتاہے کہ کسی طرح فوج کا مورال کم کیا جائے ۔اس لیے فوج کبھی بھی سابق آرمی چیف کی حفاظت سے چوکتی نہیں ۔جو ادارہ اپنے سابق چیف کاتحفظ نہ کر سکے وہ ملک کی کیا حفاظت کر ے گایہ نکتہ ہی کسی جنرل کو فوج سے ریٹائر نہیں ہونے دیتا ۔

دوسری جانب پاکستان کی سیاسی جماعتیں،میڈیا اور سول سوسائٹی مشرف کو عبرتناک سزا دینے کے پرزور حامی ہیں۔ پاکستان میں فوج طاقتور ترین ادارہ ہے اور اس کے مقابل کوئی سیاسی جماعت آج تک جم نہیں سکی ۔لے دے کر قوم کی ایک ہی امید بچتی ہے اور نظرصحافیوں پرجا ٹکتی ہے ۔ماضی میں صحافت بحیثیت صنعت کبھی اتنی مضبوط نہیں رہی۔جتنی اب الیکٹرانک میڈیا کی بدولت طاقتور ہے ۔

یوں پاکستان میں فوج کی طاقت کاتوازن میڈیانے سنبھال لیا ہے ۔یوں پاکستان میں حساس اداروں اور میڈیا میں حالیہ اورتازہ محاذآرائی دراصل طاقت کی جنگ ہے ۔میڈیا نے غیرمحسوس انداز میں فوج کے مقابل اپنی طاقت متواز ن بنا لی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا اپنی متوازن حیثیت تسلیم کروالے گا ۔یا مزید کمزور ہو جائے گا ؟اس سوال کا جواب اس محاذآرائی کے منطقی انجام سے بخوبی معلوم ہو سکے گا۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں بحیثیت ادارہ کبھی بھی اپنے آپ کو منوانہیں سکیں۔اورفوج بحیثیت مضبوط ادارہ ماضی سے تسلیم شدہ ہے۔اخباری صنعت کو الیکڑانک میڈیا نے ایک مضبوط ادارے کی حیثیت دلادی ہے۔افرادی قوت کے لحاظ سے بھی صحافی فوج کی طرح ہر جگہ موجودہیں اورصحافیوں کی بھی تعداد فوج کی طرح لاکھوں میں ہے۔حامد میر پر حملے نے صحافیوں کو بھی تقسیم کردیا ہے اور یوں انکا بحیثیت ادارہ نیا وجود بھی اپنی اہمیت منوانے سے پہلے ہی خطرے میں ہے۔


پاکستان میں فوج اور میڈیا میں بظاہر کوئی بڑا خلا نہیں ،پرویز مشرف کے کیس ،او رطالبا ن کے ایشو کی نزاکتوں نے غلط فہمیوں کو بڑھا دیاہے۔ان دو ایشوز کو اگر الگ تھلک رکھ کر دیکھا جائے تو میڈیا اور فوج میں کہیں تصادم نہیں ۔بلکہ یہ دونوں ادارے پاکستان کے محافظ ہیں ۔فوج سرحدوں کی نگہبان ہے اور صحافی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں ۔اس تناظر میں دونوں ایک ہی فریضہ انجام دے رہے ہیں صرف نوعیت کافرق ہے۔

اسی طرح صحافیوں اور حساس اداروں کا کام بھی ملتا جلتاہے اور یہ دونوں اپنے پیشہ ورانہ امور میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔صحافی بھی لکھتے ہیں اور حساس ادارے بھی نوٹ کرتیہیں صحافی لکھ کر چھاپ دیتے ہیں اور حساس ادارے لکھ کر چھپالیتے ہیں۔
آئی ایس آئی پاکستان کی وہ آنکھ ہے جو نیند میں بھی بیدار رہتی ہے ۔پاکستان اس وقت چومکھی جنگ کے دھانے پر ہے ۔

دنیا کی سب سے خطرناک جنگ پڑوسی ملک افغانستان میں جاری ہے ۔اور وہ جنگ پاکستان میں کب کی داخل ہے ۔آئی ایس آئی اس جنگ کو واپس افغانستان دھکیلنے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہے ۔اور امریکا ،اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح یہ جنگ افغانستان میں کم ہو،تاکہ وہاں سے اس کی فوج کے انخلاء میں شکست کھاکر بھاگنے کا تاثر پیدا نہ ہو۔پاکستان نے افغانستان سے نیٹو انخلا ء سے قبل ہی امن بحالی میں کامیابی حاصل کر لی تھی مگر اب اچانک صورت حال یکسر بدل سی گئی ہے ۔

نواز شریف حکومت نے طالبان ایشو پر فوج کو مذاکرات پالیسی پر آمادہ کرلیا تھا ۔اور آج کل میں مزیدمزاکرات ہونے تھے مگر اب حالات ہی بدل گئے ہیں حکومت خود الجھ کر رہ گئی ہے ایک طرف فوج ہے اور دوسری جانب میڈیا دنوں مضبوط ترین شعبے ہیں دونوں کو قائل کرنا اور مطمئن کرنا خاصا مشکل ہے ۔نواز شریف نے اپنے اقدامات سے اس محاذآرائی کے تناؤ کوکم کرنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔

حامد میر حملے کے حوالے سے عدالتی کمیشن بھی بیٹھا دیا گیا ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مشتمل جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم بھی بنا دی گئی ہے ۔
میڈیا اور فوج میں غلط فمہیوں کا سبب بھی مشرف ہیں ۔طالبان ایشو پر صحافیوں کوجو مشکلات ہیں کہ فوج اور طالبان دونوں کی مخالفت لازم آتی ہے۔یہ بھی مشرف کیا کیا دھرا ہے ۔نہ قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون کے شبخون کی اجازت دی جاتی نہ پاکستان میں خانہ جنگی کا عذاب مسلط ہوتا ۔

اسی طرح حکومت او ر فوج میں خلیج کا سبب بھی مشرف ہیں ۔غداری کیس اورطالبان ایشو یہ دونوں ہی مشرف کے پیدا کردہ ہیں۔معلوم ہوا کہ تمام تر غلط فہمیوں رنجشوں کا سبب ایک ہی ہے۔اور وہ مشرف ہیں ۔اب مشرف کا معاملہ کس طرح حل کیا جائے ۔اس بارے میں غور کرنے سے قبل یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مشرف فوج کی نظر میں ریٹائر نہیں ہوئے ۔جب یہ تسلیم کرلیا جائے توپھر معاملہ حل کرنا آسان ہے ۔

عدالت کی جانب سے جب ان پر آئین شکنی ثابت ہوجائے تب جس طرح محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی انہوں نے ٹی وی پر معافی سے تذلیل کروائی تھی ۔ویسی ہی اپنی تمام غلطیوں کی معافی مشرف قوم سے ٹی وی پر آکر مانگ لیں تو انہیں معاف کردیا جائے ۔ تاکہ غلط فہمیوں کا یہ باب بند ہوسکے۔اور میڈیا اور فوج میں توازن طاقت بھی برقرار رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :