حامد میر پہ حملہ کے بعد فوج کی ذمہ داری

ہفتہ 3 مئی 2014

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

حامد میر پہ حملہ ہوا ہی تھا کہ جیو اور جنگ گروپ کی توپوں کا رخ آئی ایس آئی کی جانب کر دیا گیا ،اور وہ کام جو دشمن ایک عرصہ سے نہیں کر سکا تھا ،چند اپنوں کی مہربانی سے اس کا کام آسان ہوگیا اور چند ہی لمحوں میں ہماری محب وطن اور قابل فخر تنظیم پوری دنیا میں لعن طعن کی جانے لگی،اگر حامد میر پہ حملہ آئی ایس آئی کی جانب سے ہوتا تو سوچنے کا مقام ہے کہ چھ گولیو ں کے باوجود بقول نامور شعبدہ بازڈاکٹر عامر لیاقت میر صاحب نعرے لگاتے رہے،اور آئی ایس آئی کا نشانہ باز اتنا اناڑی تھا کہ چھ گولیوں کے باوجود شکار بچ نکلا،حیرت صد حیرت،وہ ایجنسی جس کی دہشت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے،اس سے اپنے ملک میں ایک آدمی بچ نکلا،لیکن یہ سوال ان لوگوں کے ذہنوں میں نہیں آسکتا ،جنہوں نے مغربی ممالک کی فنڈنگ سے اپنے پروگرا م اور ٹی وی چینل چلانے ہوں ۔

(جاری ہے)


میں اس شام اسلام آباد کے ایک پکنک پوائنٹ پہ تھا،موسم کی گرمی کی باوجود اسلام آباد کی ٹھنڈی ہوا بھلی معلوم ہورہی تھی۔ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے کہ بریکنگ نیوز آگئی کہ حامد میر قاتلانہ حملہ میں زخمی ہوگئے،میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوچکا تھا کہ پرویز مشرف کی کراچی روانگی کی خبر کو کم اہم بنانے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہوگا،۔لیکن معلوم نہیں تھا کہ گیم اس سے بھی اوپر کی ہے۔

جنگ اور جیو گروپ جس کی پالیسیاں ہمیشہ ہی سے مشکوک رہیں ،اسلام اور وطن دوست حلقہ ہمیشہ سے اس سے نالاں رہا،نجم سیٹھی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے لوگوں کا اس کی ٹیم میں ہونا ہی اس کی پالیسیوں کا مرکز بتاتا ہے،پھر بھی کسی نے اس کا قبلہ درست نہیں کیا او ر یہ میڈیا گروپ سب کے سیدھے قبلے کا رخ بدلنے کی کوشش میں رہا،امن کی آشا کے نام پہ لگائے جانے والے تماشے نے اس کی بھارتی لابی ہونے کی نشاندہی کر ہی دی تھی،اگر بھارت میں اس کی حمایت میں آواز نہ بھی اٹھتی تو،امن کی آشا کے نام پر کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مئو قف کی ہمیشہ سے اس میڈیا گروپ نے مخالفت کی،حامد میر جیسے اس کے اینکرز نے بلوچستان کے علٰحدگی پسندوں کی کھلم کھلا حمایت کی،ماما قدیر جیسے سکھلائے ہوئے طوطوں کو حد سے زیادہ کوریج دی،کسی نے اس کو لگام نہ دی،اور اب جب اس کی تان ٹوٹی تو آئی ایس آئی پر،
ہمارا ہر گز یہ مئو قف نہیں کہ میر صاحب پہ حملہ ایک درست قدم ہے،یقیناً یہ ایک بزدلانہ حرکت ہے،کسی انسان پہ حملہ پوری انسانیت پہ حملہ ہے،اختلاف رائے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں ،اس قدم پہ سب نے برا منایا،حامد میر کی غلطی یہ کہ حملہ کا براہ راست الزام آئی ایس آئی پہ لگا دیا،وہ بھی پوائٹ آؤٹ کر کے ،ایسے رویے معاشرے میں عدم برداشت کی کہانی سناتے ہیں۔


ہر روز فوج اور آئی ایس آئی کے حق میں ہونے والے مظاہرے بھی کوئی اچھا پیغام نہیں،جو بات ہو گئی اب اس کو بار بار دہرانے کی مشق ایک لاحاصل عمل ہے،اور اس ایکشن کے ری ایکشن ہونے کو کون روکے گا پھر؟؟فوج کو اب چاہیئے کہ اپنے حق میں بھی ہونے والے ان مظاہروں کو روک دے،کچھ فرقہ پرست بھی اس عمل سے ناجائز مفادات کے چکر میں ہیں،کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے علماء و مشائخ کانفرنسز کے انعقاد پہ امریکہ سے ڈالرز لیئے تھے ،جس کا اعتراف خود امریکی سفارتخانے نے کیا تھا،اب بھی وہی حالات،فرق صرف اتنا کہ کل باپ تھا آج بیٹا،
حامد میر پہ حملہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تدارک کیلئے ہم نے کیا کیا؟
ایک درخواست پیمرا بجھوا دی کہ اس حوالے سے نوٹس لیا جائے،پیمرا کچھ نہیں کر سکتا،صرف جیو کو ایک نوٹس جاری کر دے گا۔

اور اس کے بعد کیا ہو گا؟
وہی امن کی آشا،وہی ملک و قوم سے تماشا،کیا یہ وقت آئیڈئیل نہیں تھا کہ ہم صرف ایک میڈیا گروپ کی اصلاح کرنے کی بجائے پورے کے پورے میڈیا کا قبلہ درست کر لیتے،مغربی مفادات کا محاف میڈیا ہماری نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کر رہا ہے،اگر آج بھی ہم اس کو ڈھیل دے دیتے ہیں تو کل کو مودی سرکار کو پاکستان سے بھی ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔


یہ کام حکومت نہیں کرسکتی،فوج کا کام صرف جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں ،جب حکومت بے بس ہوجائے،قوم کے عقائد و نظریات کا تحفظ گروی رکھ دیا جائے تو پھر فوج ہی کو میدان میں آکر ایسے غیر ملکی آلہ کار میڈیا کے حوالے سے اصلاحات نافذکرنی پڑتی ہیں،اگر فوج آج یہ کام نہیں کرتی تو کل کو پھر ایسی کوئی گیم ڈال کے خاکم بدہن آرمی چیف پہ بھی الزام لگایا جاسکتا ہے۔
کرنے کے اب دو کام ہیں ،اول تو اس شتر بے مہار میڈیا کے حوالے سے اصلاحات نافذ کی جائیں،اور دوسرا یہ کہ فوج کے حق یا خلاف ہر دو صورتوں میں ہونے والے مظاہروں پہ پابندی لگائی جائے،تا کہ اس ایکشن پہ کوئی ری ایکشن نہ آئے،موجودہ حالات کے گرداب سے نجات کی یہی دو صورتیں ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :