ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات !!

جمعرات 1 مئی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

فرض کریں آپ اپنی فیملی کے سا تھ لا ہور ،فیصل آباد یا ملتان میں رہتے ہیں ،آپ کی فیملی دس افراد پر مشتمل ہے جس میں آپ کے چار بیٹے،دو بیٹیاں ،ماں باپ اور آپ کی بیوی شامل ہیں،آپ کے گھر کا سارا خرچ آپ کی ماہانہ آمدنی سے چلتا ہے ،آپ کے گھر روزانہ دس افراد کا کھانا پکتا ہے ،آپ ایک دن میں دو کلوآٹا اور دو ٹائم سالن بناتے ہیں ،مہینے میں ایک دن آپ کے گھر چاول بھی پکتے ہیں ،آپ نے اپنے بوڑھے والدین کی چائے اور اپنے چھوٹے بیٹے کے لیئے دو کلو دودھ بھی لگوایا ہوا ہے ،آپ کے تین بیٹے اسکول جاتے ہیں اوران کی فیس ہزار وں کے ہندسے میں ہے ،آپ کی ایک بیٹی کالج جاتی ہی جس کی سالانہ فیس چالیس ہزار ہے ،آپ کا سب سے چھوٹا بیٹا ٹی بی کا مریض ہے اور آپ ہر مہینے اس کی میڈیسن لینے کے پابند ہیں ،آپ کی بیوی کی طبیعت بھی اکثر خراب رہتی ہے ،آپ کے بوڑھے والدین دوائیوں کے سہارے سانس لیتے ہیں ، آپ منتھلی پانچ ہزار روپے مکان کا کرایہ ادا کرتے ہیں ،آپ کا بجلی کابل پندرہ سو روپے سے کم نہیں آتا اور آپ گیس اور پانی کا بل بھی ادا کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

آپ اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں ،آپ کے سوا گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ،آپ لاہو ر کی کسی فیکٹری،فیصل آباد کی کسی مل یا ملتان کے کسی کارخانے میں ملازمت کرتے ہیں،آپ آٹھ آٹھ گھنٹوں والی ڈبل شفٹ میں کا م کرتے ہیں ،آپ سولہ گھنٹے کام ،چھ گھنٹے آرام اوردو گھنٹے اپنے والدین ،بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں ،اتنی محنت مشقت کے باوجود آپ کے گھر کا سسٹم چلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ،آپ ہرماہ پانچ دس ہزار روپے ادھار پکڑ کر اخراجات پورے کرتے ہیں ، ایک دن آپ اپنے گھر سے نکلتے ہیں ،ماں باپ کو سلا م کرتے ہیں ،آپ کی ماں بڑے پیار سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے اور آپ کو ہزاروں دعائیں دیتی ہے ،آپ اپنے والد کو سلام کرتے ہیں وہ کپکپاتے ہاتھوں سے آپ کے سلام کا جواب دیتا ہے،آپ فیکٹری پہنچ جاتے ہیں ،کا م شروع ہو جاتا ہے اور آپ ہمہ تن کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ،اچانک آپ کے گھر سے فون آتا ہے اور آپ کی والدہ کو ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے ، آپ جلدی جلدی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں ،ڈاکٹر آپ کی والدہ کے علاج کیلیئے ایک لاکھ روپیہ ایڈوانس مانگ لیتا ہے اور آپ ایک لمحے کے لیئے زمین میں گھڑ کر رہ جاتے ہیں ۔

آپ کو زمین پھٹتی اور آسمان ٹوٹتا ہو ادکھائی دیتا ہے ،آپ زندگی میں پہلی مرتبہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش آپ اس انسانی معاشرے میں پیدا نہ ہوئے ہوتے ،آپ کوئی لمحہ ضائع کیئے بغیر اپنی والدہ کی جان بچانا چاہتے ہیں ،آپ اپنے جگری دوستوں کی ایک فہرست بناتے ہیں ،آپ دل ہی دل میں فیصلہ کرتے ہیں کہ اس آڑے وقت میں کس کا سہارا لوں ،پھر آپ اپنے کالج کے دوست کو فون کرتے ہیں اور اس سے ایک لاکھ روپے کی درخواست کرتے ہیں ،آپ کا وہ دوست آپ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے آپ کو ایک لاکھ روپیہ دے دیتا ہے ،آپ اس ایک لاکھ سے اپنی والدہ کا علاج کروالیتے ہیں اور کچھ ہی دنوں بعد آپ کی والدہ صحت یاب ہو کر گھر آجاتی ہیں مگر اب ان کی زندگی دوائیوں پر منتقل ہو جاتی ہے ،آپ ہر ہفتے اپنی والدہ کے لیئے دو ہزار کی دوائی لے کر جاتے ہیں،اللہ کی مہربانی سے کچھ ہی عرصہ بعد اپ کی والدہ ٹھیک ہو جاتی ہیں اور زندگی دوبارہ معمول کے مطابق رواں دواں ہو جاتی ہے ۔

کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی زندگی میں ایک نیا امتحان آ جاتا ہے اور آپ ایک نئے کرب میں مبتلاء ہو جاتے ہیں ،آپ کا ماہانہ خرچ آپ کی تنخواہ سے پانچ گنا بڑھ جاتا ہے ،آپ کے چھوٹے بیٹے اور والدہ کی دوائیوں کا خرچ،مکان ،گیس،بجلی اور پانی کابل ،تین بیٹوں کی اسکول فیس اور ایک بیٹی کی کالج کی فیس ،مہینے بھر کے راشن کا خرچ اور اس سے بڑھ کر قرض خواہوں کے مطالبے اب آپ بتائیں اس لمحے آپ” کیا کریں گے “آپ کس پتھر سے سر ماریں گے اور کس دیوار سے سر ٹکرائیں گے ،یہ ”کیا “آج کے مزدور کا سب سے بڑا سوال ہے اور پاکستان کا اسی فیصد مزدور اس” کیا“ کی ّآگ میں جل رہا ہے۔

آج کے مزدور کی حالت اس سے بھی ذیادہ پتلی ہے اور رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ نے پوری کر دی ہے۔ایک دیہاڑی دار مزدور کو جب اس کا مالک یہ کہہ کر فیکٹری سے فارغ کر دیتا ہے کہ کام کم ہو گیا ہے اس لیئے تمہاری ضرورت نہیں تو آپ بتائیں اس لمحے اس مزدور کے دل پر کیا گزرے گی ،وہ اپنی بوڑھی والدہ کی دوائی اور چھوٹے بیٹے کے لیئے دودھ کہاں سے لائے گا ،وہ اپنی دس افراد پر مشتمل فیملی کے لیئے کھانا مانگنے کس کے در پر جائے گا اور اور اس کے بچوں کی اسکولوں کی فیسیں کہاں سے آئیں گی ۔


ہمارے ایک انگریزی سال میں 365دن ہوتے ہیں اور ہم ان 365دنوں میں سے 162دن کسی نہ کسی واقعے ،شخصیت یا کسی جذبے کے تحت مناتے ہیں ۔یکم مئی کو لیبر ڈے کے حوالے سے منایا جاتا ہے اور اس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے حق میں کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کیئے جاتے ہیں ،پاکستان میں بھی یکم مئی کو چھٹی کی جاتی ہے اور مزدوروں کے حق میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں لیکن کیا یکم مئی کے بعد مزدور کو حقوق ملنا شروع ہو جاتے ہیں ،ہرگز نہیں یکم مئی کے بعد دو مئی کا سورج اپنی پرانی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو تا ہے اور ظلم کا دریا پہلے سے ذیادہ تیزی سے بہنا شروع ہو جاتا ہے ۔

ہمار ا جاگیر دار کبھی مزدور کے ساتھ مخلص نہیں ہوا اور نہ ہو گا کیوں کہ ظلم کے بغیراس کا کارو با رنہیں چلتا ،اگر جاگیر دار مزدور کے ساتھ اتنا ہی مخلص ہے تو پارلیمنٹ کے باہرکوئی سائیکل کھڑی کیوں نظر نہیں آتی ،مزدور کو قانون سازی کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ،ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر قانون سازی کرنے والوں کو کیا پتا مزدور کے مسائل کیا ہیں اوریکم مئی کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار منعقد کرنے والوں کو کیا معلوم ایک دیہاڑی دار مزدور کا گھر کیسے چلتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے ہمارا جاگیر داراورہمارے پرائیویٹ مالکا ن ظالم بھیڑیے ہیں جو اپنے ملازم کی چھوٹی سی غلطی بھی برداشت نہیں کرتے اور اس کی دس سالہ خدمات کو بھول کر فورا اسے فارغ کر دیتے ہیں ،وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح کا انسان ہے اور کچھ حق اور کچھ مجبوریاں یہ بھی رکھتا ہے ۔کا ش ہم یکم مئی کو نمائشی جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کی بجائے یہ دن کسی گامے ،نورے اور فضلو کے ساتھ منائیں اور اس کے دکھ درد کا احساس کر سکیں ۔یہ حقیقت ہے جب تک ہم یکم مئی کو کسی گامے کی آنکھ ،کان ،ہاتھ اور پاوٴں بن کر نہیں دیکھیں گے اس وقت تک ہمیں یکم مئی سے کسی قسم کا سبق حاصل نہیں ہو گا اور اس وقت تک ہمارا مزدور اسی طرح ظلم کی چکی میں پستا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :