شہر قائدکے المیے

منگل 29 اپریل 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

شہر کر اچی کا ہر فر د سہما ہو اڈرا ہو ادکھا ئی دے رہا ہے یو ں محسوس ہو تا ہے گو یا دشمن کے نر غے میں ہیں۔ قا بض فوج فاتح کی طرح قتل عام کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم اپنے مقدر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتے کہ آخر دہلی بھی تو سات بار لٹی تھی نا در شاہ نے وہا ں پر پا نچ روز تک قتل عام کا حکم صادر کر ایا تھا۔ لیکن ! یہا ں تو اپنے ہی اپنے گھر کو آگ لگا نے والے اپنے ہی گھر کے چراغ ہیں یہ تو ہمارے اپنے ہم وطن اور مسلما ن ہیں کراچی میں آگ و خون کا کھیل کئی سالوں سے جاری ہے ۔


نبی محترم ﷺ نے فر ما یا ”تم میں ایک زما نہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مقتو ل کو خبر نہ ہو گی کہ اسے کیو ں قتل کیا گیا “،آج ایسے ہی زما نے سے ہم گذ ر ر ہیں ہیں‘یہ ہمارے لیے کسی عذا ب سے کم نہیں ’ جب انسان کے دلو ں سے انسا ن کا حترام اٹھ جا ئے تو سمجھ لیجیے کہ عذا ب کامو سم آپہنچا ، ایک ہی ملک کے ایک ہی مذ ہب کے پیرو کا ر ایک ہی ملت کے امین ایک دوسرے کو خو فزدہ کر یں یا ان سے خو ف زدہ رہیں تو اس سے بڑھ کر عذاب موسم اور کیا ہو سکتا ہے ،ایک ہی وطن کے لو گ ایک دوسر ے کو بر ی نگا ہو ں سے دیکھیں کو ئی کسی کا پر سان حا ل نہ ہو تو با قی کیا رہ جا تا ہے انسان اپنے ہی دیس میں خو دکو پر دیسی محسو س کر نے لگے تو عذا ب ہے جنا ب وا صف علی وا صف  نے فر ما یا ِ” جب زمانہ امن کا ہو اور حا لا ت جنگ جیسے ہو ں تو سمجھو عذاب ہے جنا زے اٹھ رہے ہوں کند ھا دینے وا لو ں کی تعداد میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہو ، آنکھیں نم ہو ں ارد گرد جشن منا نے وا لے در ند ے ہو ں، دلو ں سے مروت نکل جا ئے ایک دوسرے کا احساس ختم ہو جا ئے “ کیا ہم ظا لم قو م ہیں ،کیا ہم پرکو ئی عذا ب نہیں آئے گا یو م حسا ب نہیں آئے گا مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم واقعی ظالم پا کستا نی بے حس قوم ہیں ہما ری آنکھو ں پر نفرت کی پٹی بند ھی ہو ئی ہے ،کیا ہم نے کبھی یہ سو چا کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پا کستا ن بنا رہے ہیں ہم انھیں کیا جواب دیں گے ۔

(جاری ہے)

ہم نسل، ز با ن اور علا قے کی بنیا دپر کب تک خون بہا تے رہیں گے،ہم یہ کیو ں بھو ل جا تے ہیں کہ جب تعصب کی ہوا چلتی ہے تو پھر انسانیت کو چ کر جا تی ہے ۔کراچی کے با رے میں اب یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسے مختلف قومیتوں کے در میا ن تقسیم کر دیا گیا ہے ایک قو میت کے فرد کو دوسرے علا قے میں جا نے کی اجا زت نہیں ،کر اچی ایک آتش فشا ں کاروپ دھا ر چکا ہے جس میں وقفے وقفے سے لا وا ابل کر با ہر آتا ہے تبا ہی مچا تا ہے جا نو ں کا نذرانہ و صو ل کر تا ہے اور خا موش ہو جا تا ہے ۔


قارئین محترم !اس سے بڑھ کے ظلم تو یہ ہے کہ اپنے آقاؤں کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے ،ان کی عیاشیوں و دوسری ضروریات کو پورا کر نے کی خاطر ان کے بینک اکاؤنٹ بھر نے کے لئے بھتہ خوری اور سیاسی مفادات کے گورکھ دھندے میں پھنسے، معصوم اور بے گناہوں کوخون میں نہلاتے یہ لوگ قانون کے شکنجے میں آتے ہی نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے زیادہ تر ”جوان “ سیاسی کرم نوازیوں کے آشیر باد سے بھرتی ہوئے اور جو کچھ باقی ہیں وہ ان کی طاقت اوررعب و دبدبے سے اتنا خوف زدہ ہیں کہ ”جو چاہے آپ کا کرشمہ حسن سازکرے“ کے مصداق کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سندھ کے آئی۔جی کو بھی اس بات کا اعتراف کر نا پڑ گیا کہ بھتہ خوری اور قبضہ مافیا کی سرپرستی میں پولیس کے ذمہ داروں کا بھی ہاتھ ہے ۔بھلا ہوبر ئگیڈیر باسط جیسے با ہمت اور دلیر رینجرز کے افسران کا جنہوں نے اپنے اوپر ہونے والے خود کش حملوں اور موت کے خوف او ر سفارش سے بالا تر ہو کے ان غنڈہ عناصر کے خلاف آپریشن شروع کئے بلکہ ان کے خلاف مقدمات کا اندراج کر کے عدالتوں میں پیش کیالیکن گواہان کو تحفظ نہ ملنے پر اپنے بیانات سے منحرف ہو نا پڑتا ہے جس کی وجہ سے آپریشن میں گرفتار 60 خطرناک ملزمان سمیت سینکڑوں ملزم بری ہو چکے ہیں۔

پچھلے سال جب بریگیڈیر صاحب کے ساتھ لاہور تک کا سفر کر نے کا موقع ملا جس میں زیادہ وقت کراچی کی سنگین صورتحال پر بات ہو تی رہی اور جس کا نتیجہ پھر یہی کہ جب تک ملزمان کو سزائیں نہیں ملے گی حالات جوں کے توں ہی رہیں گے ۔
شہر قائد پر گذرنے والے المیات ہیں جو روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور جن میں اکثر کی سرپرستی یہاں کے سیاسی لوگ کر رہے ہیں ۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ ”دی سندھ وٹنس پروٹیکشن بل مجریہ2013“ جس کے تحت گواہان کو تحفظ فراہم کیا جانا تھاقانون پاس ہونے کے7ماہ سے زائد عرصے کے بعد بھی اسے نافذ نہیں کیا گیا۔
سیا سی آقاؤں کی بد نیتی ،سستی اور کاہلی کی بدولت مخلص لوگوں کی انتھک محنت، لازوال قربانیوں اور سب سے زیادہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان کی فکر نہ کرتے ہوئے دشمن کے گریبان پرہاتھ ڈالنے اور انہیں کیفر کرداد تک پہچانے کی تمام تر سعی اس وقت دم توڑ جاتی ہے جب جج صاحب پہلی ہی پیشی میں ان لوگوں کو با عزت طور پر بری کر نے کا پروانہ جاری کر دیتے ہیں۔

اگر کراچی میں کئی سالوں پر محیط اس خونی کھیل کو ختم کر نا ہے تو اس کے لئے ضرورت ہے کہ پولیس میں سے سیاسی عناصر کو ختم کیا جائے، رینجرز کو اپنے طور پر کام کر نے اور پہلی ہی فرصت میں ”دی سندھ وٹنس پروٹیکشن بل مجریہ2013“کو فوری طور پر نافذ العمل اور خصوصی عدالتوں کا قیام کر کے ایسے بہادر جج صاحبان کی تعیناتی کی جائے جو جرائم پیشہ عناصر کو قانون کے مطابق سزا دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :