جرائم میں اضافہ، اور سد باب؟

منگل 29 اپریل 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ہم اکثر ایک لفظ سنتے ہیں کہ پاکستان بڑئے نازک دور سے گزر رہا ہے، مزئے کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ”نازک دور“کا تکرار پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ حکومت پاکستان بھی اپنے ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت سے کنارہ کش ہو چکی ہے وہ ریاستی ادارئے جن کا کام معاشرے میں امن و امان کا قیام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہی نہیں ان کا فرض بھی ہے اپنی اس ذمہ داری سے انحراف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ،،بلکہ شہریوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی حفاظت خو د کریں(شہری بیچارے سیکورٹی گارڈ رکھتے ہیں اپنی حفاظت کے لئے وہ بھی لوٹ کر چلتے بنتے ہیں) اگر شہریوں نے اپنی حفاظت خود ہی کرنی ہے تو پھر اتنی بھاری پولیس کی نفری کی کیا ضرورت ہے ؟ ۔

(جاری ہے)

ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے بارے اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی آگاہ ہو چکے ہیں، سکولوں اور پارکوں میں جاتے سہمے رہتے ہیں کسی بھی معاشرے کو صحت مند معاشرہ رکھنے کے لئے وہاں تفریح سرگرمیوں اور فنون لطیفہ کی ترویج کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں اب نہ ہی تفریح سرگرمیاں رہیں اور نہ ہی فنون لطیفہ کے فروغ کے ادارئے ،آہستہ آہستہ یہ ملک کھنڈر بنتا جارہا ہے جہاں صرف شدت پسند گروہوں، کی سوچ ہی حاوی ہوتی جارہی یا پھر جن کے ہاتھ میں بندوق ہے وہ من مانی کر رہے ہیں ،عام آدمی کی حالت زار سے بے خبر حکومت کو کیا اس بات کا احساس ہے کہ اب کوئی بھی شہر ایسا نہیں رہا جہاں کے گلی کوچے محفوظ رہ گئے ہوں ،جرائم کی شرح میں ہوش ربا اضافہ کس بات کی دلیل ہے؟ کسی بھی شخص کے ساتھ کوئی واردت ہو جائے اس کی جمع پونجی لٹ جائے تو سب ہی اسے یہ کہہ کر تسلی دئے رہے ہوتے ہیں شکر کرو جان بچ گئی۔

۔۔،حالانکہ جس کی جمع پونجی لٹ جاتی ہے جس نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنایا ہوتا ہے اس سے اس کا سرمایہ لٹ جائے تو وہ زندہ ہی کب رہتا ہے؟ کوئی شخص ون وے کی خلاف ورزی کر کے ساری ٹریفک کے نظام کو ڈسٹرب کر رہا ہو یا حادثے کا باعث بن رہا ہو ا سے روکنے کی یا پوچھنے کی جرات کرنے والے کو جواب ملے گا یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے ،، پاکستان میں کیا سب الٹا ہی چلتا ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 2300 ملیشیا نجی طور پر کام کر رہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی دھڑلے سے کررہی ہیں لہٰذا ان کا وجود ہی غیرقانونی ہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے ولا نہیں ویسے بھی اگر شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت ہے تو پھر نجی ملائشیا یا پرائیویٹ سیکورٹی کے اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
کوئی بھی ملک یا معاشرہ اس وقت تک ترقی اور امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا جب تک اس معاشرے کے افراد قانون کی حکمرانی کو تسلیم نہ کریں اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ ریاست سب سے پہلے اس پر عمل کرے کیونکہ شہری ریاستی اہلکاروں کی قانون شکنی کے بعد خود بھی یہی عمل دہرانے لگتے ہیں یو ں معاشرہ بے امن ہو جاتا ہے۔


پاکستان بھر میں غیر قانونی اسلحے کے انبار ہیں اور جن ہاتھوں میں یہ اسلحہ ہے ان کے عزائم بھی کسی سے چپھے نہیں حکومت کو چاہے کہ وہ اگر ملک میں امن قائم اور جرائم پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے فوری طورپر ہتھیاروں کو واپس لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو تمام آتشیں اسلحہ کے لائسنس منسوخ کردے اور انھیں باضابطہ بائیو میٹرکس کے ساتھ دوبارہ جاری کرے، اسی طرح پی ٹی اے کو چاہیئے کہ وہ فون سمز اور آئی ایم ای آئیز کو رجسٹر کرنے کی یقین دہانی کرائے جو اس کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ غنڈہ گردی کی طاقتوں کے دباو میں نہ آئے اور تجارتی مفادات کو پیش نظر نہ رکھے۔

جس طرح گاڑیوں کی رجسٹریشن کے معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے ایسے ہی اسلحہ اور فون سمز کے معاملے میں بھی حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے ہونگے۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیس کی اصلاح کرنے کے لئے پہلے مرحلے پر اسے غیر سیاسی کرئے اور ان کی ذہنی تطہیر کی جائے انہیں انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے ساتھ پو لیس کو تمام شہریوں کی پولیس بنایا جائے، نہ کہ وہ چند گرہووں ،افراد یا صرف حکومت کے مفادات کی نگران ہو۔


افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری یقیناً اسکی وجہ سے بیچینی پیدا ہوتی ہے لیکن جرائم کی اصلی وجہ پولیس سسٹم کی ناکامی ہے جو مجرموں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے یہ پولیس کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرَے ۔سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں۔ مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کردیتی ہے۔

پولیس کے جوان موٹر سائیکلوں پر اب تو گلی محلوں میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں ،راہ چلتے افراد کی جیبیں کھول کھول کر چیک کرتے ہیں ناکوں پر بھی ایسا ہی عمل دھرایا جا تا ہے جبکہ جرائم پیشہ عناصر ان کی پہنچ سے باہر ہیں اب تو وہ بھی گلی محلے کی راہ چلتی خواتین سے بھی لوٹ مار کرتے پائے جارہے ہیں لیکن گلی محلوں میں گھومنے والی پولیس کو نظر نہیں آتے ،کیوِں؟ اس سوال کا جواب پولیس کے سربراہ کو ڈھونڈنا چاہے کہ مراعات یافتہ پولیس شہریوں کو بے یار و مددگار کیوں چھوڑ چکی ہے ،حکومت کو بھی اس بات کا نوٹس لینا چاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :