جماعت اسلامی کا جمہوری سفر

اتوار 27 اپریل 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کا سفر بانی و پہلے امیر سید ابواعلیٰ مودودی سے لے کر اب تک جمہوری انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔شاید یہ پہلی دفعہ جماعت اسلامی کی تاریخ میں ہوا ہو، جو موجودہ امیر جماعت اسلامی کے منتخب ہونے اور پھر حلف اٹھانے کے بعد ہو رہا ہے۔پانچویں امیر کے انتخاب کا عمل تو تین ماہ تک جاری رہا۔ان تین ماہ میں جماعتی حلقوں میں جو جوش خروش نظر آیا وہ انفرادیت کا حامل تھا۔ارکان جماعت نے امیر کی معذرت نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ منتخب کرنے کی روایت توڑ دی اور ساتھ سیکرٹری جنرل کی امیر منتخب ہونے کی روایت بھی برقرار نہ رہ سکی۔جماعت اسلامی کے اندرونی معاملات کیا ہیں دھڑے بندی کا تاثر کیسے پیدا ہوا؟ نئے غیر متوقع امیر کے منتخب ہونے کے بعد بعض حلقوں میں اضطراب کی حقیقت کیا ہے؟ بعض جماعتی ادارے سراج الحق کے امیر بننے پر خوف زدہ کیوں ہیں؟ آج کی نشست میں زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے۔

(جاری ہے)

خوش آئند بات جو سامنے آئی وہ سراج الحق کی جماعتی اور عوامی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جمود کا شکار جماعت میں زندگی کی روح پھونک دی گئی ہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خوش دلی سے نئے امیر کا خیر مقدم کررہا ہے۔میرے خیال میں پاکستان کا کوئی کالم نویس اور دانشور ہوگا جس نے اظہار خیال نہ کیا ہو جماعتی حلقوں میں بھی سراج الحق کے انتخاب کا خوش دلی اور خندہ پیشانی سے استقبال کیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کے حلف اور اس کے بعد کی صورت حال کا ذکر ضروری ہوگیا ہے اس سے پہلے نو منتخب امیر محترم سراج الحق کو نئی ٹیم کے انتخاب کا پل صراط عبور کرنے پر مبارک باد ۔حافظ محمد ادریس ،راشد نسیم ،اسد الله بھٹو، میاں اسلم کا بطور نائب امیر بننا نیک شگون ہے۔پروفیسر خورشید کی نائب امارات قائم رکھنا مستحسن اقدام ہے۔لیاقت بلوچ جسے میں عوامی سوچ کہتا ہوں۔سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری پر قائم رکھنا موثر قیادت کا بروقت اور دور اندیشی کا مظہر ہے۔ہمارا ایک دوست منصورہ کی سیاست میں ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے وقفے کے دوران فون آیا ۔آپ کا تجزیہ غلط ثابت ہوگیا۔85فیصد آپ کی خبر درست ہوئی ہے۔لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل بن گئے ہیں۔آپ کے دونوں ناموں میں سے کوئی سیکرٹری جنرل نہیں بنا میں نے اپنے محترم دوست سے درخواست کی کہ آپ میری خبر دوبارہ پڑھیں۔ایک ایک لائن پڑھیں میں نے امیر جماعت اسلامی کی ارکان شوریٰ سے مشاورت اور امیر جماعت کے نام آنے والے مکتوب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا تھا۔سیکرٹری جنرل ،سیکرٹری اطلاعات نائب امرا ڈپٹی سیکرٹری کے لئے یہ نام زیر بحث آئے ہیں۔پھر میں نے کہا میرے بھائی ٹیم کا انتخاب میں نے تو نہیں کرنا تھا۔امیر جماعت کا استحقاق ہے اور مرکزی شوریٰ کی مشاورت شامل رہتی ہے۔ان کے تفصیلی فون سے پہلے روزنامہ ”پاکستان“ میں صفحہ اول پر نئی امکانی ٹیم کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا ردعمل اور فیڈبیک بھگت چکا تھا۔25,26سالہ جماعتی قرابت داری میں پہلا موقع دیکھنے کو ملا کہ ایک بزرگ فون کرتے ہیں۔میاں اشفاق صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی۔دلچسپ بات یہ ہے،یہی باتیں کرنے والے احباب میڈیا میں زور دے کر باتیں کرتے ہیں۔جماعت میں امیدوار نہیں ہوتا۔فتح شکست نہیں ہوتی۔پھر دوعملی کیسی ایک گھنٹہ پہلے آپ کا امیدوار کوئی اور ہوتا ہے۔اعلان ہوتے ہی چاپلوسی دوسرے کی شروع ہو جاتی ہے کیوں؟ ایک اور ساتھی سے بحث ہو رہی تھی میڈیا کس کو امیر دیکھتا ہے میں نے کہا لیاقت بلوچ کو پھر ساتھی فرمانے لگے کیسے؟ میں نے بتایا معاف کرنا اس میں جماعت اسلامی کا کوئی کردار نہیں ہے۔لیاقت بلوچ کی ذاتی فعالیت ہے۔لوگوں کے دکھ درد میں پہنچا، دیگر پروگراموں میں شرکت زندگی کا لازمی جزو بنا چکے ہیں۔اس لئے لیاقت بلوچ میڈیا کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی بھی اگر میڈیا کی اہمیت کو سمجھ جائے اور بات ہے ۔پھر میں نے دوست کو بتایا کہ میں گزشتہ سال اپنے کالم میں ”جماعت اسلامی کا جن“ لیاقت بلوچ کو قرار دے چکا ہوں اب بھی میری خواہش تھی کاش جماعت اسلامی مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی ہو جائے، جماعت اسلامی سینئر نائب امیر کی ذمہ داری لیاقت بلوچ کو دے اور ساتھ بزرگ رہنماؤں پر مشتمل سپریم کونسل بنا دے۔ان کی سرپرستی اور مشاورت شامل حال رہے۔بات ہو رہی تھی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی طرف سے نئی ٹیم کے چناؤ کی۔میری خبر جو جماعتی حلقوں میں دو دن زیر بحث رہی ۔اس میں میں نے سرخی میں لکھا تھا۔سراج الحق نے مرحلہ وار جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچے میں مثبت تبدیلیوں کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس سرخی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔اس کے باوجود بعض احباب کا پسند کی لائن کو اچھا کہنا اور ناپسند پر غصہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔احباب ذاتی رائے پوچھ رہے تھے تو میری رائے ہے۔لیاقت بلوچ صاحب کو سیکرٹری جنرل رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔دور اندیشی کا فیصلہ ہے ۔چودھری اسلم سلیمی ڈاکٹر کمال کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان کی مشاورت بھی یقیناً نئی ٹیم کو حاصل رہے گی۔ایک بات جس کی طرف توجہ دلاناچاہوں گا وہ ہے ”برداشت“ خود کو درست سمجھنا اور باقی تمام کو آڑے ہاتھوں لینا۔ عمل درست عمل نہیں۔”سید مودودی کی جماعت اسلامی“ مفادات سے بالاتر اور رضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔بات کرنی ہے نئی قیادت کا امتحان اور نو منتخب امیر کو درپیش چیلنجز، اس سے پہلے امیر جماعت اسلامی کے حلف کی تقریب کے موقع پر سابق امیر جماعت سید منور حسن جنہوں نے اپنی زندگی حقیقی معنوں میں قرآن و سنت کے مطابق ، الله کے سپرد کی ہوئی ہے۔سید مودودی کی عملی تصویر ہیں ان کی قربانیاں تحریر نہیں کی جا سکتیں، ان کی زبان سے اوپن فورم میں نئے امیر کو مشورہ دینا جماعت اسلامی کو توجہ دینی پڑے گی۔5000سے زائد ارکان نے ووٹ کیوں نہیں ڈالے۔50سے زائد ٹی وی کیمروں ،درجنوں فوٹوگرافوں ،ایڈیٹر حضرات ، دانشور حضرات کے سامنے اس وقت کہنا 5000ووٹ نہیں پڑے۔دستوری لحاظ سے کتنا درست ہے۔یہ تو وہی بتا سکتے ہیں، البتہ میری ذاتی رائے اور سراج الحق کی صورت میں ارکان کا غیر متوقع شدید ردعمل اس سوال کا جواب ہے۔جماعتی حلقے اس حد تک بے اثر ہو رہے تھے، انہیں بیدار کرنا ساتھ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ اور دوسرا افسوس ناک پہلو ان افراد کی طرف سے دیکھنے کو ملا، جن کے بارے میں منصورہ میں بالخصوص اور جماعتی حلقوں میں بالعموم کہا جاتا تھا کہ امیر جماعت ان کی مشاورت کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔خدا کرے یہ سب غلط ہو۔لیکن سوشل میڈیا پر اور محترم سید منور حسن کے اعزاز میں دیئے گئے الوداعی پروگراموں میں جو تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔سید منور حسن جیسا کوئی نہیں ہے۔بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے۔پھر ان پروگراموں میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر رونے کی وڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرنا کیسی روایت قائم کی جا رہی ہے۔سید مودودی کی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جماعتی ارکان پھانسیوں پر لٹک رہے ہیں۔اخوان المسلمین پر تاریخ کا بدترین تشدد اور آزمائش جاری ہے۔جماعتی تاریخ قربانیوں کی عظیم داستان ہے۔ سابق امیر جماعت کے حوالے سے بعض لوگوں نے قربت کا جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی انہی لوگوں کی طرف سے اس انداز میں پروگرام کرنا اس عمل کو تقویت دیتا ہے جو منصورہ میں عمومی پایا جاتا رہا ہے۔ان احباب سے درخواست کرنی ہے۔سید مودودی کے فرمودات کے مطابق جماعتی کام افراد کے ساتھ نہیں جماعتی وابستگی سے مشروط ہیں۔سید مودودی، میاں طفیل محمد،قاضی حسین احمد اور اب سید منور حسن ،چودھری رحمت الٰہی ،پروفیسر غفور، چودھری اسلم سلیمی، ڈاکٹر کمال دیگر رہنما سب کی زندگیاں جماعتی کارکنان کے لئے مشعل راہ ہیں۔مجبوراً کالم دو اقساط تک پھیل گیا ہے۔سید مودودی کے فرمان بیان کرکے پہلے کالم کو ختم کرتا ہوں جس میں سید مودودی فرماتے ہیں ”ہماری بدقسمتی ہے ہر فرد چاہتا ہے اسلام آ جائے مگر دوسروں پر“…شاہد آج وقت آ گیا ہے دوعملی کے خاتمے کا اور اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کا الله کو تو ہم شاہد بھلا بیٹھے ہیں۔الله کے بندوں سے کچھ چھپانا بھی ممکن نہیں رہا۔اب تو ہر دروازے اور چوک میں لکھا ہے۔خبردار کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے، حقیقی آنکھ سے بھی نہیں ڈرتے کیمرے کی آنکھ یا دیواروں کے کانوں سے ڈرنا کب سیکھیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :