صحافی۔ہوشیار باش

جمعہ 25 اپریل 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

خدا کا شکر ہے کہ حامد میر کی جان بچ گئی ہے جبکہ مارنے والے نے قتل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ حامد میر کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ ملک کے نڈر، بے باک، سچے اور کھرے صحافی پر گزشتہ دنوں کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔وہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں کراچی آئے تھے۔ حامد میر کی گاڑی نے جونہی کراچی ائیر پورٹ سے باہر ٹرن لیا تو وہاں پہلے سے موجود گھات لگائے مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی ، جس کے نتیجے میں حامد میر شدید زخمی ہوگئے، تاہم اللہ کے فضل و کرم سے ڈرائیور کی چابک دستی کے باعث انہیں بر وقت قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔

جہاں ڈاکٹروں کی کوششوں سے کئی گھنٹوں جاری آپریشن کے بعد انکی جان بچا لی گئی ہے۔

(جاری ہے)

انکی حالت اگر چہ مکمل ٹھیک نہیں ہے تاہم ڈاکٹروں کے مطابق وہ بہت جلد مکمل صحت یاب ہو کر ہمارے درمیان ہونگے۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ در اصل ایک بہت بڑی سازش دکھائی دیتی ہے۔ ۔یہ اندھوناک حادثہ تو تھا ہی، مگر حادثے کے کچھ ہی دیر بعد حامد میر کے بھائی اور نامور صحافی عامر میر کا قومی سلامتی کے ادارے سے متعلق بیان نے ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا۔

جس کی رُو سے موجودہ آئی ایس آئی چیف اور ادارے کے چند دیگر افسران کو حادثے کا براہ راست ذمہ دار ٹہرا یا گیا ہے۔یہ بیان قوم کے لئے حامد میر کے حادثے کے بعد بیک وقت دوسرا حادثہ تھا ۔جس سے ہر پاکستانی پہلے سے موجود ہزار مسائل کے ساتھ ایک نئی مگر خطرناک صورت حال سے دوچار ہو گیا۔حامد میر کا ایک بڑا مگر محدود حادثہ عامر میر کے بیان کے بعد اب ایک بین الاقوامی سطح کا انتہائی اہم رُوپ دھار چکا ہے۔

مذید یہ کہ عامر میر جیسے ذمہ دار صحافی کا اپنے چینل کو دیا جانے والا بیان بھائی کی محبت اور جذبات کے تناظر میں شائد برداشت کیا جاسکتا ہے مگر ملک کے ایک بڑے میڈیا گروپس کی جانب سے اس بیان کے رد عمل کے طور پر قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت قطعی ناقابل فہم ہے۔ملکی مفاد کو یکسر پس پشت ڈال کر بغیر سوچے سمجھے ملک کے اس انتہائی اہم ادارے کے sitting سربراہ کی تصویر چینل پر اسطرح سے بار بار چلا ئی گئی جیسے کسی انتہائی مطلوب مجرم کی گرفتاری پر چلائی جاتی ہے۔

نجی چینل کی اس غیرسنجیدہ حرکت نے اس کیس کو دنیا کا ہائی پروفائیل کیس بنا دیا۔۔۔۔ترجیحات دیکھئے،،، کبھی اس چینل نے راء، موساد یا بلیک واٹر کی پاکستان میں جاری خفیہ سرگرمیوں سے متعلق خبر تو کُجا ایک ٹکر تک چلانے کی زحمت نہیں کی۔۔ جبکہ نام نہاد ’آمن کی آشا ‘ کا راگ الاپتے گروپ نے بلوچستان میں بھارت کی کُھلی مداخلت پر بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

۔۔۔حامد میر ایک قدآور صحافی ہے جو بحیثیت ایک سچے پاکستانی کے حکومت ، حکومتی اداروں اور ایجنسیوں کے غلط کردار پر ایک تعمیری تنقید کے طور پرمسلسل لکھتا اور بولتا آرہا ہے۔حامد میر نے اپنے خلاف ایک دہائی سے جاری متوقع خطرات و خدشات کی ہمیشہ نشاندہی بھی کی ہے۔مگر انہوں نے قومی مفاد کے خلاف نہ تو کبھی گویائی کی اور نہ ہی کبھی ایسی خبر کو سپورٹ کیا۔

مگر بدقسمتی سے حامد میر کے حادثے کو بنیاد بناتے ہوئے اس کیس کوباقائدہ ایک سازش کی طرف موڑا گیا ہے اور یہ اُسی منحرف طبقے کا کام ہے جو66 سالوں سے ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہے اور موقع پاتے ہی اپنے مذموم عزائم کی آبیاری کرتا ہے۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ پورے پاکستان اور بالخصوص صحافی برداری کے لئے ایک المئے سے کسی طور کم نہیں۔

یہ حملہ ان تک محدود رہتا تو ہزم ہوجاتا کیوں کہ صحافی پوری دنیا میں عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ پاکستان اسوقت صحافیوں کئلئے خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک54 صحافی قتل کئے جا چکے ہیں ۔ نجی چینل کے غیر ذمہ دارانہ رویئے سے فی الوقت معاملہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ مستقبل قریب میں تو ٹھندا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

اسکے کیا نتائج نکلتے ہیں اور یہ معاملہ کہاں جا کر رُکتا ہے ، اس پر کچھ کہنا یا رائے قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہے
اس سارے معاملات و محرکات کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایک یہ بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صحافی بیچارہ ہمیشہ سے میڈیا مالکان کے ہاتھوں قربانی کا بکرہ بنتا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی اہم امور پر پالیسی میڈیا مالکان کی خودساختہ اور مفاد پر مبنی پالیسی کا پرچار اور نفاذ صحافیوں سے کروایا جاتا ہے اور صحافی اندازہ ہی نہیں کر پاتا کہ اُس کے ساتھ کس کس طرح سے ہاتھ ہوتا ہے۔

اسکی قابلیت اور صحافتی مہارت کو جذبات پر مبنی رپورٹنگ یا زرد صحافت کی نظر کرنے کی کوشش کر کے اُسے صحافتتی مقصدیت اور مشن سے دور کیا جاتا ہے۔میڈیا مالکان، حکومت اور ادارے سب اپنی اپنی آپس کی جنگ اور طاقت آزمائی میں آج کے اہم اورvibrant ستون میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔کیونکہmeritاور صحافتی تقاضوں کے عین مطابق کی جانے والی رپورٹنگ سے ایسے تمام مفاد پرستوں اور منحرف طبقے کا معاشرے میں survival مشکل ہوجاتا ہے اسی لئے یہ تمام طاقتیں صحافتی حلقے کو ایکdriving force کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو نشے کی عادت ڈال کر اسکا ذہن ماوٴف کر دیا جائے پھر اس سے عقلی کام کی بجائے جسمانی کام لیا جائے ۔حامد میر کے کیس کے تانے بانے بھی اسی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔آئی ایس آئی سے لاکھ تحفظات کے باوجود حامد میر نے کبھی ملکی مفاد کے خلاف بات نہیں کی اور عامر میر کا بیان بھی اگر چہ غیر ذمہ داررانہ تھا مگر بھائی کی critical حالت کے سبب قابل معافی تھا۔

جبکہ انکے بیان کے فوری بعد قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی نے دنیا بھر میں پاکستان اور آئی ایس آئی کے دشمنوں کو کُھلا موقع فراہم کر دیا ہے۔یہ ملک ایک گھر کی طرح ہے اورایک گھر میں بسنے والوں کو ایک دوسرے سے ہر قسم کی شکائت ایک فطری عمل ہے، مگر اسکے تدارک کے لئے دشمن کو موقع فراہم کرنا اورغیر ذمہ دارانہ رو یئے سے انکی راہ ہموار کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوسکتی۔


ملک کے سارے ادارے تو اپنی تباہی کی آخری نہج پر ہیں ہی، اب پاک فوج اور آئی ایس آئی جیسے منظم ادارے کو بھی بھی داوٴ پر لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی ایک واحد ادارہ بچا ہے جو اپنے انگنت دشمنوں اور دنیا کے پریشر کے باوجود پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے دشمن اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔پرابلم یہ ہے کہ اس ادارے کی اپنی کوئی زبان نہیں۔

یہ تو اشارے اور حکم پر کام کرتا ہے اور ملک کے لئے کام کرتا ہے، اسکی زبان اور اسکا spokesperson سول حکومت یا وزارت دفاع ہے جو اس ادارے پر آنے والی ہر تنقید اور آنچ کو روکتا ہے اور اسکا بھر پور جواب دیتا ہے مگر بدقسمتی سے کبھی اسے کیری لوگر کے نام پر ، کبھی میمو گیٹ کے نام پر اور کبھی ناپختہ سول اداروں کے زیر اثر کر کے اس organisedادارے کی ساکھ خراب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

جسکی بنا پر ادارہ اپنی لائین و لینگتھ کھو بیٹھتا ہے ۔
اب سول اور سکیوریٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین مکمل ہم آہنگی اور ملک کے اندرونی حالات اور سفارت کاری کے معاملات میں ایک پیج پر کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے ۔کیونکہ ان دونوں قوتوں کے مابین خوشگوار تعلقات ہی ملک کی مفاد میں ہیں۔یہی ایک حل پہلے بھی تھا اور اب بھی صرف یہی ایک حل ہے جس سے حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف اب حالات اس بات کے بھی متقاضی ہیں کہ صحافی برادری اپنے درمیان unity قائم کریں اور خبر کے معیار، زرد صحافت کا تدارک اور meritپر مبنی صحافت کے لئے صحافتی شعبے ، اسکی ضروریات و ذمہ داریوں کو از سر نوreviewکرے۔اور یہ بات جاننے اور سمجھنے کی بھی کوشش کرے کہ ایک چینل پرکام کرنے والاصحافی دوسرے چینل یا اخبار کے لئے نا معلوم کیوں ہوتا ہے۔

ایک چینل کا مالک دوسرے چینل سے صرف بزنس ریٹنگ کے لئے مقابلے پر ہوتا ہے اورمیڈیامالکان کی گورمنٹ سے ٹسل ہو یا کسی ملکی ادارے سے یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے صحافیوں کو بطور ملازم استعمال کرتے ہیں۔اس طرح صحافی انکی بزنس پالیسی کی ترویج اور اشاعت کی بھینٹ چڑھتا ہے اوراُسی تنخواہ پر کام کرتا جو اسکی مختص ہوتی ہے۔ پھر صحافی کیوں ان میڈیا مالکان کی من پسند پالیسیوں کا حصہ بن کر اپنے صحافتی تقاضوں پر compromise کرے۔

صحافت کو انتہائی اہم اور ذمہ دار شعبہ سمجھتے ہوئے ہر صحافی کو اس بات کی بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں انکا ادارہ صحافی کی بجائے ان سے ایک ملازم کا کام تو نہیں لے رہا۔ کیونکہ صحافتی تقاضوں سے روشناس صحافی کبھی ڈکٹیشن نہیں لیتا جبکہ ملازم ہمیشہ ڈکٹیشن پر چلتا ہے۔۔حامد میر ہمارا بھائی ہے، دوست ہے اور ہماری صحافی برداری ایک اہم ستون ہے۔اُس پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے کا دُکھ ہمیں بھی اُتنا ہی شدیدہے جتنا کہ ایک بھائی یا ایک دوست کو ہو سکتا ہے۔مگر اپنے بھائی اوردوست پر حملے کی آڑ میں ملک اور ملک کے اہم ترین قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف کسی بھی قسم کی شرانگیزی نا قابل معافی جُرم تصور کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :