کلوننگ مشین

جمعہ 25 اپریل 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

ہمارے سکول میں ایک استاد ہوا کرتے تھے۔استاد الله نظر۔ وہ کان کھینچتے تھے کہ الله کی پناہ ۔ اور خود سارا دن کرسی پر بیٹھ کر ناک میں انگلی مارتے رھتے تھے۔ کلاس کے سارے بچوں کو انہوں نے کچھ چیزیں رٹوائی تھیں۔
بچو۔۔الله پاک نے ہاتھ کس لیے دئیے ہیں؟ بچے سب ایک آواز ہو کے۔۔کام کے لیے
بچو۔۔الله پاک نے کان کس لیے دئیے ہیں؟ بچے سب ایک آواز ہو کے۔

۔سننے کے لیے
بچو۔۔الله پاک نے ناک کس لیے دی ہے؟ بچے سب ایک آواز ہو کے۔۔سانس لینے کے لیے
بچو۔۔سب سے اچھا استاد کون ہے؟ بچے سب ایک آواز ہو کے۔۔استاد الله نظر
کلاس میں ایک بچہ اور تھا۔کریم طوفان کا بیٹا،بہت ہی جینیس بچہ تھا۔ لیکن رٹنا رٹانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔باقی سارے استادوں کے کلاس میں فرسٹ آتا تھا لیکن استاد الله نظر کی کلاس میں لاسٹ۔

(جاری ہے)

کیونکہ اسے مار پیٹ سے چڑ تھی اور استاد الله نظر کو اپنے رٹے ہوئے جوابات درکار تھے۔اس لیے کریم طوفان کے بیٹے کی روز پٹائی کرتے تھے۔ پھر ایک دن کلائیمکس ہو ہی گیا
لو چھوٹے طوفان ادھر آ
چھوٹا طوفان اٹھتے ہوئے بڑبڑایا
مار تو ویسے ہی پڑنی ہے پھر کیوں ناں آج اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لوں۔
چھوٹے طوفان۔۔الله پاک نے ہاتھ کس لیے دئیے ہیں؟ ڈنڈے کھانے کے لیے
چھوٹے طوفان۔

۔الله پاک نے کان کس لیے دئیے ہیں؟ استاد جی کے کھینچنے کے لیے
چھوٹے طوفان۔۔الله پاک نے ناک کس لیے دی ہے؟ انگلی کرنے کے لیے
بس اس کے بعد تو اگلے سوال کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔اور چھوٹے طوفان کے ہاتھوں اور کانوں کے ساتھ استاد الله نظر نے وہی سلوک کیا جو جو چھوٹے طوفان کے جوابات میں تھااور کچھ دیر بعد اپنی ناک کے ساتھ بھی وہی کیا جو چھوٹے طوفان نے بتایا تھا۔


اس دن یقین سا ہونے لگا کہ شاید چھوٹا طوفان چھوٹا ولی ہے
چھوٹا طوفان مجھے حامد میر صاحب تک یاد آیا۔ جیسے جوابات حامد میر صاحب گزشتہ کچھ عرصے سے اداروں کو دیتے رہے ہیں اس سے ان کو چھوٹے طوفان کی طرح یقین تھا کہ مار تو پڑے گی۔ جس کا انہوں نے مار پڑنے سے پہلے ہی اظہار کر دیا تھا۔
ممکن ہے حامد میر صاحب پر حملہ کسی اور نے کیا ہو۔

اور حملے کے انداز سے تو لگ رہا ہے کہ یہ کسی اناڑی گروپ کا کام ہے کسی خفیہ اور مضبوط ادارے کا نہیں۔ لیکن اس سے نا ں حامد میر کے خدشے کا حق سلب ہوتا ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر حامد میر کو غدار ٹہرایا جا سکتا ہے
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ جیو نے جس طرح اس کو ڈیل کیا۔ وہ بالکل غلط تھا۔ اس دوران وہ بزوز شمشیر عالم بننے پر مصر فنکار نے جو کارستانی کی اس سے خود جیو اور حامد میر کی سبکی ہویٴ اور پھر جس بھونڈے انداز میں انصار عباسی گوہر افشانی کر رہے تھے وہ بھی نہایت غلط تھا۔

لیکن اس تمام کاروائی کی آڑ میں ایک موت سے کشمکش میں مبتلا شخص پر بہتان تراشی نہایت مجرمانہ عمل ہے۔
یہ بات اپنی جگہ کہ ریٹنگ کی رقابت نے باقی چینلوں کو بھی یہ موقع دیا کہ ان کو بھی عوام کی کثیر اکثریت میں دیکھا جانے لگا اور وہ صحافی نما شاگرد بھی سب نے دیکھ لیے جو استاد الله نظر کے رٹائے ہوئے سبق دھرا رہے تھے۔ لیکن اپنی نمک خواری کے تسلسل کے لیے لوگوں میں غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنا ایک قبیح اور قابل نفرت جرم ہے۔


ملک کے ساتھ کون وفادار ہے اور کون غدار یہ طے کرنا کسی ایک شخص یا ایک ادارے کا کام نہیں ہے۔کیونکہ اگر کسی ایک شخص یا ایک ادارے کے معیار پر فیصلہ کرنا ہے تو دیکھیے کہ اس ملک میں کتنے غدار موجود ہیں؟ اور تھے؟
خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، عبد الصمد خاں اچگزئی، غوث بخش بزنجو، حکیم اسلم سنجاری، عبدالولی خان، عطاو الله مینگل، مولانا مودودی، مفتی محمود، مولانا بھاشانی، افضل بنگش، مرزا مہدی، حبیب جالب، فیض احمد فیض، اکبر بگٹی، عبد الحئی بلوچ، جام ساقی، اجمل خٹک، مرتضی بھٹو، کشور ناہید، الطاف حسین، مسعود قریشی، اور ہاں چھ سالہ فراز بھی…۔

یہ سب اور ان جیسے ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں کیونکہ یہ عام لوگ نہیں تھے ان کے پیچھے لاکھوں کروڑوں وہ لوگ تھے جو ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔۔کیا یہ سب غدار ہوں گے؟؟
ہاں مگر
ان کا تو کوئی نام بھی لینے کو تیار نہیں جہنوں نے بار بار اس ملک کے آئین کو پامال کیا۔کوئی غدار کہہ کے تو دیکھے؟؟ ایک صاحب پر صرف مقدمہ درج کرنے کی ہمت ہوئی اس قوم کو۔

۔لیکن کوئی اس کو عدالت میں پیش کر کے دکھا تو دے؟
آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی ہوا ناں۔۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔۔
حامد میر کا خدشہ اتنی بھی بڑی فلاسفی نہیں ہے کہ اس کے لیے بل گیٹس کے دماغ کی ضرورت ہو اور نہ ہی عقل و شعور وہ بکری ہے جو ہمیشہ ہارون رشید اور مبشر لقمان کے کھونٹے سے بندھی رہے گی۔
اگر آپ کو صرف وہی لوگ وفادار لگتے ہیں جن کو وفاداری کا سرٹیفیکیٹ وہ لال ٹوپی والا کلون شدہ ہٹلر اور غزوہ ہند کامتمنی جاری کرے گا۔

تو حامد میر سمیت ان سب لوگوں کو قتل کر دیجیے جو آپ کی وفاداری کی تعریف پر پورے نہیں اترتے۔اور ایک کلون مشین بنوایئے اور ایسے انسان اس ملک کے لیے برآمد کیجیے جو سارے غزوہ ہند کے متمنی ہوں۔ہاں ان کے لیے البتہ لال ٹوپیوں کا ٹھیکہ چین کے بجائے کسی عسکری ادارے کو دیجیے تاکہ کچھ بچے ہویٴے نامراد سیاستدان ان میں غبن نہ کر سکیں۔اور ملک کی معیشت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :