پاکستان چھوڑ کر گھر کے رہے نہ گھاٹ کے!!!

جمعہ 25 اپریل 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

صریر خالد۔ سرینگر :
جموں و کشمیر سرکار کی جانب سے ہتھیار چھوڑ کر پاکستان سے واپس لوٹنے پر آمادہ جنگجووٴں کے لئے نہایت ہی طمطراق سے مشتہر کی گئی ”باز آبادکاری“پالیسی کے چار سال بعد خبر یہ ہے کہ”قومی دھارے“میں لوٹ آئے یہ سابق جنگجواور انکا عیال خود کُشی کرنے پراُتر آیا ہے۔شمالی کشمیر کے حاجن علاقہ میں ایک سابق جنگجو کی پاکستانی بیوی کی خود سوزی کے واقعہ نے نہ صرف ایک انسانی المیے کو اُجاگر کیا ہے بلکہ اس سے اُس نام نہاد باز آبادکاری پالیسی کی ہوا بھی نکل گئی ہے کہ جسکے تحت ترکِ تشدد پر آمادہ سابق جنگجووٴں کو واپسی کی اجازت دی گئی تھی۔


حالانکہ تشدد کے ایک لمبے دور سے گذری وادیٴ کشمیرمیں سیاسی غیر یقینیت اور افراتفری کی وجہ سے سکونِ قلب و ذہن انقاہ ہو گیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ خود کُشی کے واقعات میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے تاہم ہفتہٴ رفتہ کے دوران یہاں خود کُشی کا ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔

(جاری ہے)

شمالی کشمیر کے حاجن علاقہ میں3بچوں کی ماں، 30برس کی، سائرہ بٹ نامی ایک خاتون نے خود کو آگ لگائی جس سے وہ بُری طرح جھلس گئی اور پھر دو ایک دنوں تک اسپتال میں دم توڑ گئیں۔

سائرہ اصل میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع باغ کی باشندہ تھیں ،سابق جنگجو جاوید احمد کے ساتھ شادی کر کے وہ دو ایک سال قبل ہی عمر عبداللہ کی باز آبادکاری پالیسی کے تحت جاوید کے ساتھ کشمیر آگئی تھی۔جاوید احمد اُن سینکڑوں کشمیریوں میں سے ہیں کہ جو ہتھیاروں کی تربیت لینے کے لئے سرحد پار کر گئے تھے تاہم بعدازاں جنگجووٴں کے تربیتی مراکز کو چھوڑ کر پاکستانی علاقے میں ہی عام زندگی گذارنے لگے اور 2010کے بعد ریاستی سرکار کی جانب سے باز آبادکاری کا وعدہ کئے جانے کے بعد وطن لوٹ آئے۔

جاوید کہتے ہیں کہ سائرہ وادی لوٹنے کے بعد سے ہی زبردست ذہنی دباوٴ کا شکار تھیں کہ ایک طرف غربت اور دوسری جانب اپنے عزیز و اقارب سے دوری اُنہیں زبردست پریشان کئے ہوئے تھی۔
جموں و کشمیر سرکار نے مرکز کی اجازت سے چار سال قبل حاتم کی قبر پر لات مارنے کی سی کارروائی کے تحت اُن کشمیری نوجوانوں کو وطن واپس لے آنے کا اعلان کیا تھا کہ جو ترکِ تشدد پر آمادہ ہوں اور ایک عام زندگی گذارنے کے متمنی۔

حالانکہ ”آزادی “کی تلاش میں ہتھیاروں کی تربیت لینے کے لئے پاکستان کی گود میں جابسے کشمیری نوجوانوں کو محفوظ راہداری دیکر انہیں واپس کشمیر میں زندگی بسانے کا موقعہ دئے جانے کی بات کئی سال سے سرکار کے زیرِ غور بتائی جا رہی تھی۔ اس مسئلے پر سال2010 کی ابتدا میں تب بڑی پیشرفت ہوتے محسوس ہوئی کہ جب وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے نئی دلی میں وزرأ اعلیٰ کی کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران اس منصوبے کا تذکرہ کیا۔

7/فروری(2010) کو منعقد ہوئی اس کانفرنس کے دوران عمر عبداللہ نے کہا”زیادہ سے زیادہ جنگجووں کو عام زندگی کی جانب لوٹنے پر آمادہ کرنے کے لئے میری سرکار ایک نئی سرنڈر اور باز آبادکاری پالسی پر سوچ رہی ہے“۔مسٹر عبداللہ نے مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا کہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ جنگجووں کو معاف کر کے انہیں واپس لوٹنے کی اجازت دی جانی چاہیئے تاکہ وہ پُر امن زندگی کی نئی شروعات کریں۔


جموں و کشمیر میں جاری مسلح مزاحمتی تحریک کی ابتدا ،زائد از بیس سال قبل،ایسے انداز میں ہو گئی تھی کہ ہتھیاروں کی تربیت کے لئے سرحد پار جانا جیسے ایک فیشن بن گیا ہو۔چناچہ ایک لہر سی اٹھی تھی کہ جس میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ گویا بہہ گئے ہوں۔سرینگر شہر کے فیشن پرست نوجوانوں سے لیکر دیہات کے کمسن اور سادہ لوح لڑکوں تک سبھی طبقوں کے لوگ دشوار گذارراہوں اور آسمان سے باتیں کرنے والے پہاڈوں سے ہو کر گذرنے والی خونی لکیر کو روندتے ہوئے ہتھیاروں کی تربیت لینے کے لئے سرحد پار گئے تاہم یہ سبھی لوگ ہتھیاروں سے لیس ہو کر واپس وطن نہیں لوٹے۔

سرکاری فورسز کے ہتھے چڑھنے کے ڈر سے ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد مظفر آباد میں قائم تربیتی مراکز میں رہ گئی جہاں سے نکل کر بعد ازاں سینکڑوں نوجوان،ذرائع کے مطابق، محنت مزدوری کے مختلف کام کر کے اپنا گذارہ کرنے لگے۔ مذکورہ نوجوانوں میں سے بیشتر نے دیارِ غیر میں ہی بیاہ رچایا اور وہیں اپنے بچوں کے ساتھ رہنے لگے تاہم گذشتہ کئی سال سے ان نو جوانوں کی حالتِ زار پر کشمیر میں باتیں ہونے لگی تھیں۔


ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا دعویٰ ہے کہ جب وہ کئی سال قبل ایک سرکاری وفد کے ساتھ پاکستان گئے تھے تو وہاں اُنسے ایسے کئی کشمیری نوجوان ملے تھے کہ جنہوں نے گھر واپسی کے لئے ان ( عمر )کی مدد مانگی تھی۔ سن دو ہزار پانچ میں اس مسئلے سے متعلق ریاستی اسمبلی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے یوسف تاریگامی کی جانب سے ایک قرار داد بھی پیش ہو ئی تھی جسے تاہم ایوان نے قبول نہیں کیا۔

حالانکہ اسکے بعد بھی ایوان میں اس مسئلے پر بحث کئے جانے کی ایک ناکام کوشش ہوئی۔البتہ 2010میں وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سلسلے میں مرکزی سرکار کو آمادہ کر کے یہ اُمید پیدا کر دی کہ مذکورہ نوجوانوں کی وطن واپسی حقیقت میں بدل سکتی ہے ۔
مرکزی سرکار نے وزیر اعلیٰ کے اس منصوبے کو منظور کرنے میں دیر نہیں لگائی اور اس نے اعلان کیا کہ” امن کی راہوں“ پر چلنے کو آمادہ جنگجووں کی وطن واپسی نا ممکن نہیں ہے۔

نئی دلی میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں ،اُسوقت کے،وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کشمیری نوجوانوں کو ”ہندوستانی“ کہکر پکارتے ہوئے کہا ”جوہندوستانی پاکستانی مقبوضہ کشمیر چلے گئے تھے ان کی واپسی کی کسی بھی تجویز کایقیناً خیر مقدم کیا جائے گا“۔انہوں نے کہا کہ وہ کشمیری جو ہتھیاروں کی تریت یا دیگر مقاصد کے لئے سرحد پار چلے گئے تھے اور اب واپس آنا چاہتے ہوں ، واپس آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ترکِ تشدد پر آمادہ ہوں۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو بھارت کا ایک حصہ بتاتے ہوئے چدمبرم نے کہا ”پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھی آخر کار بھارت ہی کا حصہ ہے اور اگر کچھ لو گ کسی وجہ سے اْس طرف چلے گئے تھے اور اب وہ آنا چاہتے ہیں تو ان کی واپسی میں مدد کی جانی چاہیے“۔بی جے پی کے احتجاج،نیشنل کانفرنس،کانگریس اور پی ڈی پی کے مابین اس فیصلے کا Creditلینے کی دوڑ اور اس طرح کی سرگرمیوں کے دوراں یہ معاملہ کئی ماہ تک گرما گرم بحث کا موضوع بنے رہنے کے بعد ٹھنڈا ہو گیا اور کشمیر میں بحالیٴ اعتماد کی دیگر تجاویز کی طرح ہی یہ مثل بھی گرد آلودہ ہو کر کہیں گم ہو کے رہ گئی۔


جون2010 میں ایک معصوم طالبِ علم طفیل متو کے پولس کے ہاتھوں ہوئے قتل سے کشمیر میں لگی آگ جب مزید 110 نوجوانوں کے طفیل متو کے انجام کو پہنچنے کے قریب پانچ ماہ بعد جب کشمیر آہستہ آہستہ”نارملسی“کی طرف لوٹنے لگااور عمر عبداللہ کوسکون کے پل نصیب ہونے لگے توانہیں زیرِ تبصرہ معاملے پر پھر سے سوچنے کی سوجھی ۔چناچہ 22/نومبر(2010) کو ریاستی کابینہ نے ترکِ تشدد پر آمدہ نوجوانوں کی ،پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے،وطن واپسی اور انکی باز آبادکاری کی پالسی کو منظوری دی۔


کابینہ نے” جنگجووٴں کی بازآبادکاری بل“ پر کافی بحث ومباحثہ کے بعداسے منظوری دی اور واضح کر دیا کہ اس پالسی کے تحت سرحد پار سے ریاست آنے والے خواہشمند نوجوانوں کی واپسی کو آسان بنایا جائیگا اور انکی باز آبادکاری کے اقدامات کر کے انہیں ”وقار کی زندگی“گذارنے کا ایک موقع دیا جائے گا۔ بعد ازاں پالسی سے متعلق وضع کردہ خدوخال میں بتایا گیا کہ ایسے نوجوان جو جنوری 1989ءء سے لیکر 31/دسمبر 2009ءء تک حد بندی لکیر پار کر کے ہتھیاروں کی تربیت لینے کی غرض سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پہنچ گئے ہیں البتہ اب تر کِ تشدد کر کے واپس گھر لوٹنا چاہتے ہیں،پالسی سے مستفید ہونے کے اہل ہونگے۔

اس پالسی میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اسے جنگجووٴں کے لئے ”عام معافی“تصور کرنا غلطی ہوگی اور یہ کہ جن نوجوانوں کو وطن واپسی کا پروانہ مل جائے انکے خلاف سنگین نوعیت کا کوئی معاملہ درج ہو تو وہ معاف نہیں ہوگا بلکہ انہیں فقط حد بندی لکیر پار کرنے کے مقدمے سے آزاد کیا جائے گا۔پھر ”وقار کی زندگی“پانے والے ان لوگوں کے بارے میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ وطن لوٹنے کے دو سال بعد تک سکیورٹی ایجنسیوں کی کڑی نگرانی میں رکھا جائے گا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کہیں وہ پھر سے ”دائرہٴ امن“کو پھلانگ تو نہیں رہے ہیں۔

یعنی کہ ان ”با وقار شخصیات“کے لئے Give a Dog Bad Name and Kill Him کا خدشہ ہمیشہ باقی رکھا گیا۔بعد ازاں دلی پولس کے ہاتھوں لیاقت شاہ کی گرفتاری نے اس خدشے کو صحیح ثابت کر بھی دیا۔
ترکِ تشددپر آمادہ نوجوانوں کی وطن واپسی کے اس فیصلے کا اعلان ہوتے وقت ریاست کی سبھی سیاسی پارٹیوں،با الخصوص حکمران نیشنل کانفرنس اور حزبِ اختلاف پی ڈی پی ،نے سیاسی روٹیاں سیکنے کی خواہش میں اس فیصلے کو اپنے کھاتے میں جمع کرانے کی کوشش کی۔

یہ الگ بات ہے کہ در اصل یہ فیصلہ مرکزی سرکار کا اپناتھا اور مرکز کو اس فیصلے کے زبردست فوائد کی بھر پور سمجھ تھی۔تاہم اس حوالے سے اخباروں میں سرخیوں کی اشاعت تھم جانے کے بعد سبھی سیاسی پارٹیاں اس فیصلے اور اسکے تحت لوٹنے والے ”بھٹکے ہوئے اپنوں“کو یوں بھول گئے کہ جیسے کوئی جھوٹے کھانے کو پھینکنے کے لئے چھوڑ کر بھول جاتا ہے۔


جیسا کہ سرکار نے تاثر دیا تھا کہ مذکورہ فیصلے کے تحت لوٹنے والوں کو ایک پروگرام کے تحت واپس آنے کی با ضابطہ سہولیات دی جائیں گی ویسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ سرحد پار کی جانب سے اس پالسی کے تئیں ،ظاہر وجوہات کے لئے،سرد مہری کا اظہار کئے جانے کے بعد اسکے متعلق کچھ بھی ”با ضابطہ“نہ رہا بلکہ کئی جنگجووٴں نے نیپال یا دوسرے راستوں کا استعمال کرکے ،بظاہر،چوری چھپے کشمیر میں داخلہ لیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین سال میں کم از کم تین سو سابق جنگجو کشمیر لوٹ چکے ہیں۔ان ذرائع کے مطابق ان میں سے بیشتر کے ساتھ انکی پاکستانی بیویاں اور بچے بھی ہیں لیکن خود ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ”با وقار زندگی“کے خواب دکھا کر مایوسی کے ایک دلدل میں چھوڑ دیا گیا ہے۔برسوں تک پاکستان میں بھٹکتے رہنے کے بعد گذشتہتین سال کے دوران وطن لوٹ آئے ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گھر پہنچنے کے بعد ابھی تک کئی بار سڑکوں پر آکر اپنے لئے اُس ”عزت و وقار“کا مطالبہ کرتی رہی ہے کہ جسے ہڈی بناکر ڈال کے سرکار نے انہیں ”قومی دھارے“کی طرف کھینچ لایا تھا۔

سائرہ کی خود سوزی نے ان لوگوں کی مایوسی میں اور بھی زیادہ اضافہ کر دیا ہے جسکا اظہار اُنہوں نے گذشتہ دنوں اخبار نمائندوں کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے کیا۔سائرہ پھر اس قبیل کے لوگوں میں پہلی جان نہیں ہے کہ جس نے غمِ دوران سے ہار مان کر اپنا کام تمام کر دیا ہو۔اس سے قبل بشیر احمد بخاری نامی ایک اور نوجوان نے بھی یونہی خود کُشی کر لی تھی۔

بشیر بھی کئی سال تک پاکستان میں رہنے کے بعد اپنی بیوی اور پانچ بچے لیکر ”عزت و وقار کی ہڈی“سونگھتے سونگھتے وطن لوٹ آئے تھے مگر سرکار ی دسترخوان کو محض ایک سراب پاتے ہوئے نڈھال ہو کر خود کُشی کے سوا کسی بھی امکان سے مایوس ہو گئے۔
تیل چھڑک کر اُنہوں نے خود کو جھلسا دیاتوظاہر ہے کہ سائرہ کی موت انتہائی دردناک اور تکلیف دہ تھی تاہم موضوعِ تبصرہ قبیل کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سائرہ کی کہانی اُن سبھی کی ہے اور اُن سب کی زندگی سائرہ کی موت کے مقابلے میں کم دردناک نہیں ہے۔

جیسا کہ خود سائرہ کے شوہر جاوید احمد کہتے ہیں کہ وہ بے کاری،غربت اور سرکاری و سماجی بے رخی کی وجہ سے خود بھی اسقدر تنگ آچکے ہیں کہ سائرہ کی ہی طرح خود کُشی کرنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں”میری بیوی ایک عرصہ سے ذہنی دباوٴ اور بے سکونی کی شکار تھیں،وہ یہاں خود کو قیدی کی طرح محسوس کرتی تھی کہ سرکار کی جانب سے دستاویزات نہ ملنے کی وجہ سے وہ ایک بار بھی اپنے میکے کی طرفسے کسی سے مل نہیں سکی تھیں“۔

وہ کہتے ہیں کہ فقط اُنہی کی نہیں بلکہ سرکار کے وعدوں پر بھروسہ کر کے وطن لوٹ آئے سبھی سابق جنگجووٴں اور اُنکے عیال کی داستان ایک ہے اور انہیں ” عزت و وقار کی زندگی“ کا خواب دکھا کر در اصل ایک سہرا میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
سائرہ کی دردناک موت کو ایک بڑے طبقے کے درد کا ترجمان بتاتے ہوئے باز آبادکاری پالیسی کے تحت کشمیر لوٹ آئے لوگوں،جن میں خواتین و اطفال کی خاصی تعداد شامل تھی،ہفتہٴ رفتہ کو سرینگر میں احتجاج کے دوران الزام لگایا کہ اُنہیں خوبصورت زندگی کے وعدوں سے بہلا کر ایک بد ترین اور کربناک زندگی جینے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

احتجاجیوں میں سے ایک نوجوان نے اپنا نام محمد لطیف پیر بتایا جو 1994میں ہتھیاروں کی تربیت لینے کے لئے پاکستان گئے ہوئے تھے تاہم وہاں پہنچنے کے بعد محنت مزدوری کرنے لگے۔لطیف کا کہنا تھا”میں نے وہاں پہنچ کر ملیٹنسی نہ کرنے کا فیصلہ لیا،میں ٹیکسی چلانے لگا اور اسی دوران میں نے سائرہ نامی لڑکی کے ساتھ شادی کر لی،جب میں نے جموں و کشمیر سرکار کی جانب سے مجھ جیسے افراد کے لئے معافی کا اعلان سنا تو میں نے اپنی پاکستانی بیوی کو آمادہ کیا اور یہاں لوٹ آیا“۔

لطیف کا کہنا ہے ”مجھے لگا تھا کہ یہاں ہماری ہر طرح سے مدد ہوگی اور ہمیں ایک پر سکون زندگی فراہم ہوگی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،میں کراچی میں رہتے ہوئے مہینے کے تیس ہزار روپے کماتا تھا لیکن یہاں آکے بیکار ہوگیا“۔لطیف کا کہنا ہے کہ وہ جہاں بھی نوکری کی تلاش میں جاتا ہے اسے پولس سے ملی ہوئی ”کریکٹر سرٹفکیٹ“مانگی جاتی ہے جو مگر پولس اسے نہیں دیتی ہے۔

منیر احمد نامی ایسے ہی ایک اور سابق جنگجو کا کہنا تھا”پولس تو ہمیں اب بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے اور سرکار تو جیسے ہماری طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھی ہے،ہمیں شناختی کارڈ تک نہیں ملتا ہے ،بے گناہی کی سند اور نوکری تو دور کی بات ہے“۔منیر کا کہنا تھا کہ واپس پاکستان جانے کی تو وہ سوچیں گے بھی نہیں لیکن غیر یقینی مستقبل کی فکر نے ان جیسے سبھی افراد کو انتہائی مایوس اور ”ڈپریشن“کا شکار کیا ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں”پھر اگر ہم واپس جانا بھی چاہیں تو ہمیں جانے نہیں دیا جائے گا کہ ایسی کوشش میں کئی لوگ گرفتار ہو چکے ہیں“۔
ان لوگوں کی پاکستانی بیویوں کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر آکر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع کے ایک سابق جنگجو کی بیوی بن کر کشمیر آچکی مظفر آباد میں صحافی رہ چکیں شبینہ نے گذشتہ سال ایک ایسے ہی احتجاجی مظاہرے کے دوران کہا تھا”یہاں کی سرکار نے تو ہمیں ذلیل کیا ہے،مجھ جیسی کئی خواتین نفسیاتی دباوٴ کا شکار ہوگئی ہیں اور اس مرض کی گولیاں لینے پر مجبور ہیں،آکر جب ہمیں روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے تھوڑے بہت زیور بھی بیچنا پڑ رہے ہوں تو ہم پاگل ہونے کو کیوں نہ آئیں“۔

وہ کہتی ہیں”میں اور مجھ جیسی دیگر خواتین یہاں آنے کے اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہیں اور ہم واپس لوٹنا چاہتی ہیں“۔فاروق احمد نامی ایک سابق جنگجو کا کہنا ہے کہ ان خاندانوں نے ایک انجمن بنائی ہے جسکے تحت وہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں لیکن کوئی انکی مدد ہی نہیں کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں”حکومت کے کہنے پر ہتھیار چھوڑ کر آنے والے ہم سبھی کو عام لوگ اور علیٰحدگی پسند قیادت غداروں کی طرح دیکھتی ہے جبکہ ہمیں بلاکر دربدر کر چکی سرکار بھی ہمیں بھول چکی ہے،ہمیں کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا ہے“۔

وہ کہتے ہیں”واپس ہتھیار اٹھانے کی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں لیکن ہماری حالت دیکھ کر وہ لوگ اپنے قدم روکنے پر ضرور مجبور ہونگے کہ جو پاکستان کی سرحدوں کو چھوڑ کر واپس لوٹنے کے منتظر ہیں،پھر اس صورتحال کو لیکر ہمارے ان ساتھیوں کو کوئی بھی طاقت ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے پر آمادہ کر سکتی ہے“۔
سرکار کی جانب سے اس صورتحال پر کوئی کھل کر بات کرنے کو جیسے آمادہ ہی نہیں ہے حالانکہ ماضی میں کئی پولس افسر اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ باز آبادکاری پالیسی کے تحت لوٹ چکے سابق جنگجووٴں اور اُنکے عیال ہا مشکلات سے دوچار ہیں اور یہ بات سکیورٹی کے لئے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اس طرح کے مسائل کی آگاہی رکھنے کی دعویداری کے ساتھ قریب ڈیڑھ سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان لوگوں کی باز آبادکاری کے اقدامات جاری ہیں اور اس سلسلے میں مرکزی سرکار کی جانب سے نئے اور جامع ضوابط وضع کئے جا چکے ہیں لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ قرضے کے مارے کسانوں کی طرح اب ان لوگوں کو خود کُشی کے جیسے انتہائی اقدامات پر مجبور پایا جانے لگا ہے۔


مرکزی سرکار کی ایما ء پر جموں و کشمیر سرکار کی جانب سے اُٹھائے گئے سابق جنگجووٴں کی باز آبادکاری کے فیصلے سے ،جیسا کہ اس فیصلے کا اعلان ہونے کے وقت ہی محسوس کیا گیا تھا، ہندوستان کوہر طرح سے فائدہ تھا جبکہ جنگجو قیادت اور پاکستانی سرکار کے لئے اس طرح کے فیصلوں میں احساسِ شکست کے سوا کچھ بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا ہے۔قریب چارسال قبل اس پالیسی کے زیرِ بحث آنے پر کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے ایک استاد نے عالمی سہارا کو بتایا تھاکہ اگر سرکار نے ایسا فیصلہ کو روبہ عمل لایا تو اسے دنیا کو یہ باور کرانے میں مدد ملے گی کہ وہ امن کے تئیں کس قدر مخلص ہے۔

مذکورہ استاد کا کہنا تھا ”پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے جنگجووں کا مورال کم ہو جائے گا اور سرکار کو ان پر نفسیاتی غلبہ حاصل ہو سکتا ہے“۔اتنا ہی نہیں بلکہ ”کشمیر کی آزادی“کے لئے ”تمناوٴں کے پاکستان“گئے بعض لوگوں کے ناک رگڑتے ہوئے مایوسی کے ساتھ لوٹنے سے سرینگر سے لیکر نئی دلی تک کی سرکاریں کشمیر میں دیوانوں کی طرح پاکستان سے لگاوٴ جتانے والوں کو بھی ایک پیغام دیکر ٹھنڈا کرسکتی ہیں۔

البتہ تین سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ اگرچہ مذکورہ بالا امکانات صد فیصد صحیح ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے تاہم پالیسی کے موعودہ خطوط پر روبہ عمل نہ آنے کی وجہ سے نہ صرف مذکورہ بالا امکانات صحیح ثابت ہونے سے رہ گئے بلکہ اُلٹا اِس پالیسی کے غلط نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔جیسا کہ غلام قادر نامی ایک سابق جنگجو،جو زیرِ تبصرہ پالیسی کے تحت ہی وطن لوٹ چکے ہیں،کہتے ہیں پاکستانی زیرِ انتظام میں ہمارے کئی ساتھی ہیں کہ جو وطن آکر ایک عام زندگی گذارنا چاہتے تھے لیکن،وہ کہتے ہیں،ان لوگوں کے اپنے ارادے پر قائم رہنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

غلام قادر کا کہنا ہے”باز آبادکاری کی جس پالیسی کی لالچ ہمیں یہاں لے آئی تھی اسکا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا،ایک طرف لوگ ہمیں غداروں کی نظر سے دیکھتے ہیں اور دوسری جانب سرکار نے بھی ہماری طرف پیٹھ پھیر دی ہے،نہ ہمارے پاس کوئی کام ہے اور نہ ہی پاکستان میں پیدا ہوئے ہمارے بچوں کا کوئی مستقبل کہ جنہیں ہمارے وطن کی شہریت تک نہیں دی جا رہی ہے“۔

واضح رہے کہ ریاستی پولس کے سربراہ اشوک پرساد ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ سرنڈرڈ جنگجووٴں کے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں یا بیگمات کو ریاست کی شہریت دینے میں جموں اور لداخ کے لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے۔تو پھر ان بچوں کا مستقبل کیا ہے یہ ایک سوال بنا ہوا ہے۔
زیرِ تبصرہ پالیسی کی Mishandelingکے نفع نقصانات کا حساب اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جموں و کشمیر کے مزاحمتی قائدین نے نہ لیاقت شاہ کی گرفتاری کو لیکر کوئی خاص ہنگامہ کیااور نہ ہی پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے دھکے کھانے کے لئے بلائے گئے مذکورہ بالا قبیلے کی حالتِ زار پر ہی،یہاں تک کہ سائرہ کی خود سوزی پر بھی نہیں،کوئی واویلا کیا۔

ایسا لگتاہے کہ علیٰحدگی پسند حلقہ،با الخصوص جنگجو قیادت،”عزت و وقار کی طرف لپکنے والے ساتھیوں“کے حشر سے مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے محظوظ ہو رہے ہوں گے کہ جن لوگوں کو وہ سرنڈر پر آمادہ ہو کر گھر لوٹنے سے نہیں روک سکے تھے انہیں اب بشیر احمد بخاری اور سائرہ کے جیسے حشر کا ڈر خود ہی کشتیاں جلانے پر مجبور کر دے گا…!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :