پاکستان کی پاکستانیوں سے فریاد

بدھ 23 اپریل 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

آج سے پیسٹھ برس قبل بر صغیر کے نامور فرزند اور بہترین انسان قائد اعظم نے ایک الگ ملک پاکستان بنانے کی خاطر جتنی جدو جہد کی اور جس ملک میں آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔جناح صاحب کا پاکستان بننے کے چند ہی دن بعد انتقال ہوگیا، لیاقت علی خان کو، جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے اور ایک بہترسیاست دان تھے، کو بھی 1951ء میں قتل کردیا گیا- ملک میں جمہوریت لانے کی ساری کوششیں 1958ء میں ختم ہوگئیں جب ملک میں آمریت نے سارے حقوق غصب کر لئے اور مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان مصالحت کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔

آج قائد کا پاکستان خود فریاد کناں ہے اس ملک کو ایک فلاحی مملکت بننا تھا جس میں ہر شہری کے حقوق محفوظ ہونے تھے اور جس کی بنیادی ضروریات کا پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہونا تھا مگر نہ ہی یہاں شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اور نہ ہی یہ فلاحی ریاست بن سکا ،ریاست اور سیاسی اشرافیہ عوام کے معامالات سے نہ صرف دور ہوچکی ہے بلکہ عوام کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے ،ہسپتالوں میں چلے جائیں لوگ سسک رہے ہیں ،تعلیم کو دیکھیں تو برا حال ہے ،امن و امان کی صورت حال کا یہ عالم ہے کہ اب کسی بھی سڑک اور چوراہے پر دن کو نواجون لڑکے لوٹ مار میں مصروف ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اپنی شناخت چھپائے بغیر دھڑلے سے وارداتیں کرتے ہیں اور رفو چکر ہو جاتے ہیں ، ایک ریڑھی والے سے لیکر بڑے سے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور پر جو اشیاء فروخت کی جاتی ہیں نہ ہی ان کی قیمت کا اندراج ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ایکسپاری ڈیٹ درج ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

رکشے ٹیکسی ولا رکشے اور ٹیکسی کو ہاتھ لگانے کے پیسے وصول کرتا ہوا پایا جاتا ہے آئے روز کرائے کی کمی بیشی پر لڑائے جھگڑئے معمول بنتے جارہے ہیں بلکہ نوبت قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے حالانکہ اس کا بڑا آسان سا حل ہے ،تمام رکشے اور ٹیکسی پر دیگر ممالک کی طرح میٹر نصب کر دیے جائیں جس سے سواری اور رکشے والے کے مابین لڑائی جھگڑے کے واقعات میں کمی واقع ہونے کے ساتھ رکشے ٹیکسی والوں کی لوٹ کھسوٹ بھی ختم ہو سکتی ہے ۔

اگر حکومت چاہے تو سب کچھ بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر حکومت کی ترجیح عوامی مشکلات میں کمی کرنا نظر ہی نہیں آتا۔پاکستان پر جان وارنے والے آج رو رہے ہیں جبکہ لوٹنے والے خوشحال ہیں۔ دنیا بھرمیں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
ایک وقت تھا جب اس نو زائدہ ملک کے شہریوں کو دنیا بھر کے ممالک میں جانے کام کرنے ،,پڑھنے کی مکمل آزادی تھی آج اگر پاکستان میں آپ کو کچھ امارت اور ترقی نظر آرہی ہے اس کی بنیاد بیرون ممالک بسنے والے وہ پاکستانی ہیں جو اپنا سرمایہ ،ہنر اور فنی مہارتیں پاکستان لاکر پاکستانی ترقی میں شامل ہوتے رہے ہیں،ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پاکستان نے اپنی افرادی قوت بیرون ممالک فراہم کر کے کثیر زرمبادلہ کمایا،، کبھی ہمارا مقام ترقی یافتہ ممالک کے برابر کے قریب تھا اور آج ہم ترقی کے میدان اور دوڑ میں ، افغانستان، صومالیہ، یمن، نائیجیریا، عراق،سوڈان اور شام کے ممالک کے ساتھ گنے جارہے ہیں کیا یہ ترقی ہے یا تنزلی؟ ،،اس کی وجہ ہماری سوچ کو قرار دیا جارہا ہے دنیا سے ہٹ کر اپنائی جانے والی سوچ اور حقیقی طور پر راستے الگ ہونے کے نتیجے میں دنیا ہمیں کٹر انتہا پسند سمجھنے لگی ہے اس کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ تعلق رکھنے میں ان کے ممالک میں بھی یہ انتہا پسندانہ سوچ سرائت کر سکتی ہے اس لئے ہمارے لئے دنیا کے راستے بند ہوتے جارہے ہیں اور ہم تنہا ہوتے جارئے ہیں۔

۔۔کیا تنہائی یا دنیا سے الگ رہ کر کوئی ملک یا افراد زندہ رہ سکتے ہیں ،، اس سوال پر بھی کوئی غور کرنے کے لئے تیار نہیں جبکہ پاکستان کی فریاد پاکستانی شہریوں سے ہے کہ اس کا وقار اسے لوٹا دیا جائے جس کی خاطر یہ ملک وجود میں آیا تھا اور دنیا بھر میں ایک عظیم مملکت کے طور پر جانا جانے لگا تھا۔ کبھی پاکستان متحد تھا اور آج باقی مائندہ پاکستان کی بقا پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔

۔اس ملک کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ پاک فوج کے بعد اس ملک کے وہ عوام ہیں جن کی بنیاد بھی یہ ملک ہے اور جن کا اوڑھنا بچھونا بھی پاکستان ہے پاکستان کی فریاد بھی انہی لوگوں سے ہے جو دن رات محنت مشقت کر کے اس ملک کی تعمیر اور ترقی میں حصہ ڈ ال رہے ہیں ورنہ اس ملک کی سیاسی اشرافیہ سے تو خیر کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔اگر ایک حصّہ کھو دینے کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں اور ایک قوم کے طور پر اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہوا تو آج جو تباہی اور بربادی ہورہی ہے وہ بھی ہمیں کچھ نہیں سکھا سکتی ، زندہ قومیں تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں تاریخ بناتی اور خود اس کا قابل فخر حصہ بنتی ہیں پاکستان بھی ہمیں آج ایک ایسی ہی قوم بننے کی تلقین اور فریادکر رہا ہے تا کہ ایک مظبوط پاکستان کا وجود قائم رہے اور دنیا بھر میں اس کی پہچان امن پسند تحمل ،بردبار اور مساوات کے اصولوں پر قائم ملک کے طور پر ہو ،ہمیں یاد رکھنا چاہے کہ پاکستان ہے تو ہم اور ہماری سیاست ہے اور کسی بھی ملک پر حکومت کرنے کے لیے اس کا مظبوط معاشی پس منظر کا ہونا ضروری ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو ایسا مظبوط ملک بنانے کے طرف توجہ دیں جس پر وہ اور ان کی ال اولاد حکومت کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :