بدترین اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ

ہفتہ 19 اپریل 2014

Qasim Ali

قاسم علی

سچ کہتے ہیں کہ جہاں علم کی روشنی نہ ہو وہاں جہالت کے اندھیروں کو کوئی نہیں روک سکتا ہمارے ملک میں اگرچہ آئے روز نت نئے جہالت کے نمونے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ ہماری کسی بھی حکومت نے تعلیم کو کبھی بھی اولین ترجیح نہیں دی مگر گزشتہ کچھ عرصہ میں ارض پاک پر جہالت اور اخلاقی گراوٹ کے کچھ ایسے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسانی عقل تو حیرت میں ہے ہی شائد درندے بھی اس سے شرما جائیں کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ درندے اور جانور بھی اپنے بچوں سے پیارومحبت کرتے ہیں اور ان کی ذراسی تکلیف بھی برداشت نہیں کرتے مگر ایبٹ آباد کے ندیم کے سرپر تو جیسے شیطان ہی سوار تھا جس نے ایک جعلی عامل کے کہنے پر اپنے من کی مراد کیلئے اپنی بین کا گھر اجاڑدیا اور اپنے ننھے منے تین بھانجوں کی شہہ رگوں پر چھری چلادی اس سے ٹھیک ایک دن قبل بھی ایک جعلی عامل نے ملتان کے ایک رہائشی کی عقل پر ایسا پردہ ڈالا کہ وہ راتون رات امیر ہونے کیلئے خزانے کی تلاش میں اپنے گھر میں کنواں کھود کر خود ہی اس میں دفن ہوگیا اور اسی ہفتے یہ اندوہناک خبر بھی سامنے آئی کہ بھکر کے آدم خور دو بھائیوں نے جیل سے رہائی کے بعد مردہ خوری کا سلسلہ پھر وہیں سے ہی شروع کردیا جہاں سے انہوں گزشتہ بار گرفتاری کے وقت ختم کیا تھا اس بار ان کے قبضے سے ایک بچے کا سر بھی برآمد ہوا جس کو یہ انسان نما گِدھ نوچ رہے تھے ۔

(جاری ہے)

اس سے قبل لاہور اور ظفروال میں پانچ سالہ بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کی خبروں نے بھی بیشمار حساس دلوں کو زخمی کیا مگر ایک ماں کے ہاتھوں اپنے ہی دو بچوں کی ہلاکت نے تو سر ہی گھمادیا کہ ہمارا معاشرہ آخر کس طرف جارہا ہے اور اس کا قصوروار اصل میں ہے کون ؟
میرے خیال میں اس بدترین معاشرتی اخلاقی انحطاط کی وجوہات میں سب سے پہلی اور بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے کیوں کہ اسلام وہ عظیم الشان مذہب ہے جو پوری دنیا کیلئے رحمت وسلامتی کا پیغام بن کرآیاہے اور اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی ایسی بدسلوکی سے منع فرماتا ہے جیسے مظاہرے آج کل دیکھنے میں آرہے ہیں کہ ایک ماں ہی اپنے بچوں کی دشمن اورقاتل بن جاتی ہے اگر یہی ماں اسلام کے اس زریں سبق اور اصول لا تقنطو من رحمة اللہ( اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں)سے واقف ہوتی تو کبھی بھی کسی بھی قسم کے حالات سے تنگ آکر وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کا گلا نہ گھونٹتی ۔

اسی طرح اگر ملتان کے نور عالم اور ایبٹ آباد کے ندیم کا یہ ایمان ہوتا کہ دولت اور اولاد سمیت ہر نعمت صرف اور اللہ کے در سے ملتی ہے اس کے آگے جھکنے سے ہی ملتی ہے نہ کہ کسی کی گود اجاڑنے سے یا کسی جعلی عامل کے کہنے پر پچاس فٹ گہرا گڑھا کھودنے سے تو وہ یقیناََ ایسے قبیح افعال سے باز رہتے ۔اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس جیسے واقعات کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جو اپنے عوام کو صحت،خوراک اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے ذمہ دار ہوتی ہے اور اسی لئے ہی ریاست کو عوام کی ماں بھی کہا جاتا ہے جو اپنے سب بچوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے اس کی گود سب بچوں کو ایک جیسا پیار اور اس کی آنکھیں ہر بچے کیلئے ایک ہی جیسی بیتابی رکھتی ہیں مگر ہماری ''ماں ''کا یہ عالم ہے کہ یہ نہ تو اپنے تمام بچوں کو انصاف فراہم کرتی ہے اور نہ ہی ایک جیسی تعلیم و تربیت اور مناسب ماحول اور یہیں سے ہی ایک ایسی معاشرتی تفریق کی بنیاد پڑتی ہے جو امیر و غریب کے درمیان فاصلوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے اور ہمارا نظام بھی امیر کو ہی سپورٹ کرتا ہے اورپاکستان میں یہ فقرہ مشہورعام ہے کہ ''قانون صرف غریبوں کیلئے ہوتا ہے نہ کہ امیروں اورطاقتوروں کیلئے''۔

عوام کی اس اجتماعی سوچ کے پیچھے ہماری حکومتوں کی وہ بے عملی اور وعدہ خلافی ہے جو اس نے عوام سے ملک میں اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کاوعدہ پورانہ کرکے کی ہے کہنے کو تو ملک میں سپریم لا ء کی حیثیت اسلام کو ہی حاصل ہے مگر عملی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے اور باوجود اس کے کہ آئین میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام ملک کا سپریم لا ہو گامگر ملک میں سات سو سے زائد قوانین ایسے نافذ ہیں جو اسلامی تعلیمات کے بالک منافی ہیں ۔

ہمارے آئین میں تو یہ بھی درج ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اور خود بھی اسلامی تعلیمات دینے اور عربی سمجھنے و پڑھانے کے ذمہ دار ہیں مگر ایسا نہ کرکے حکومت خود ایسے جاہلانہ واقعات کو دعوت دے رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے لرزہ خیز واقعات کی ذمہ داری خودعوام پر بھی عائد ہوتی ہے جو ہر بار ایسے نمائندوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں جو اپنی تنخواہوں و مراعات اور اپنی تاحیات سیکیورٹی جیسے بل تو بڑے خشوع و خضوع کیساتھ اور راتوں رات اسمبلیوں سے پاس کروا لیتے ہیں مگر جعلی عاملوں اور مردہ خوروں سے عوام کو بچانے کیلئے اور ان کو سخت ترین سزائیں دلوانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتے ان کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کرواتے بھکر کے مردہ خوروں کی محض ایک سال بعد ہی رہائی ان نام نہاد عوامی نمائندوں کی مجرمانہ غفلت کی ایک بدترین مثال ہے کہ تین سال قبل یہ واقعہ سامنے آیا تو پورا پاکستان دہل کے رہ گیا کہ مرنے کے بعد بھی کسی کو چین نصیب نہیں اور ہر طرف سے یہ مطالبات سامنے آئے کہ ان درندوں کو عبرتناک سزا دی جائے مگر سزا کیسی اس بارے کوئی قانون تھا نہ اور نہ ہی اب تک بن پایاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان درندوں نے ایک سال بعد ہی رہائی کے بعد واپس آکر پھر مردہ خوری شروع کردی ۔

سب سے آخری بات یہ کہ اگر پاکستان کے تمام مالدار لوگ اپنے نصاب کے مطابق پوری زکواة حق داروں تک پہنچانی شروع کردیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی غریب نہ رہے اور یہ کون نہیں جانتا کہ غربت و مفلسی سے اللہ کے رسول ﷺ نے بھی پناہ مانگی تھی کیوں کہ یہ انسان کو کفر تک لے جاتی ہے ۔ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ ''ہر امت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے''لہٰذا اگر ہر شخص اپنا قبلہ دولت کو بنانے کی بجائے انسانیت کی خدمت کوبنا لے اور اپنے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی ضرورتوں کو بھی اپنی بساط کے ممطابق پورا کرتا رہے تو بھی ایسے دلخراش واقعات سے کافی حدتک بچا جاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :