وحشت ابھی زندہ ہے

جمعرات 17 اپریل 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

حلال حرام‘نیکی بدی کی تمیز ہرانسان کے ذہن میں ہوتی ہے۔ہاں مذہب اس کے ذہن کو راہ دکھاتے ہیں البتہ تہذیب وتمدن بھی ان عوامل پربھی بعض اوقات اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم دونوں امور کو مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو شاید بات زیادہ طول پکڑجائے تاہم جیسا کہ پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ حلال حرام انسان کاتصور انسان کے اپنے ذہن میں کارفرماہوتاہے اور مذہب اس ذہن کو نئی راہ دکھاتے ہیں۔

مثال کے طورپر حضوراکرمﷺ کے اعلان نبوت سے قبل ایسے افراد (جنہوں نے بعدازاں اسلام قبول کرلیا)جو حرام بھی کھاتے تھے‘ شراب اس دور میں بڑی ہی مرغوب تھی ‘بچیوں کو زندہ درگور کرنے کاعام رواج تھا۔ جونہی مذہب نے ذہن پر اثرکیا ان کی زندگی میں حرام حلال کاتصورہی بدل گیا۔
کہاوڑکلاں ضلع بھکر کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں گذشتہ روز ایکبارپھرمردہ خوری کے حوالے سے مشہور بھائیوں کی جوڑی کو گرفتارکیاگیا عارف عرف اپھل اور فرمان عرف فاما گذشتہ کئی سالوں سے قبروں سے مردے نکال کر کھانے میں مصروف تھے۔

(جاری ہے)

تین سال پہلے 3اپریل 2011کو دونوں بھائیوں کے حوالے سے انکشاف ہوا تھاپولیس چھاپے کے وقت ان کے گھر سے مردوں کی ہڈیاں اور حرا م جانوروں کے اعضا برآمد ہوئے تھے۔ یہ کیس عدالت میں چلتارہا اورپھر عدالت نے انہیں سزا سنائی ‘ چونکہ پاکستان میں مردہ خوری کے حوالے سے قانون نہ ہونے کی بناپر یہ سزا محض ایک ہی سا ل سنائی گئی ۔ پولیس بھی بہت دن تک مغز ماری کے بعد طے نہ کرسکی کہ ان پردفعات کونسی لگائی جائیں اورپھر خوف وہراس پھیلانے ‘قبروں کی بیحرمتی اور نلکا چوری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو اتھا۔


‘واقعہ اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ اسے نظرانداز کردیاجائے ‘دور جدید میں ایسے واقعات کا تصوربھی محال دکھائی دیتاہے تاہم ایسامعاشرہ جہاں علم وشعور چھوکر نہیں گزرے‘ جہاں دن کی روشنی تو ہوتی ہے لیکن شعور کی روشنی کاگزران نہیں ہوتا ‘ جہاں عقل توہوتی ہے لیکن سوچ کے دائرے محدود ہوتے ہیں ا یسے معاشروں کو عموماً وحشی معاشرہ کانام دیا جاتا ہے ‘اس معاشرہ میں زندہ جانوروں‘ انسانوں کاگوشت کھانا‘ خون پینا معمول کی بات نظرآتی ہے۔

لیکن ایسے عوامل اگرمہذب معاشرے میں دکھائی دیں تو مورد الزام معاشرے کو نہیں ٹھہرایاجاسکتا یہ کسی فرد واحدکافعل ہو یا ایک گھرانے کا‘ ذمہ دارمعاشرہ نہیں ہوتا۔
انسانی فطرت کی بات بھی ہوجائے۔ ایک ایسا فعل جوکسی بھی انسان کے نزدیک قابل اعتراض ہو‘ تاہم اگر وہ اس فعل کو ایک بار انجام دے دے تو پھر وہ کم ازکم اس فرد کیلئے قابل اعتراض نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو وہ اس کا پرچارک بھی بن جاتاہے۔

گویا انسانی جبلت میں یہ بات ہے کہ جو چیز انسان خون میں شامل ہوجائے وہ بڑی مشکل سے ہی جان چھوڑتی ہے۔ اب دیکھئے کہ الحمدللہ ہم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں اس میں یہ تصور ہی نہیں کیاجاسکتاکہ کوئی بھی انسان کسی مردے یاجانور کاگوشت کھائے ۔اگرکوئی ایسا کرتابھی ہے تو اسے معاشرہ میں بسنے والے لوگ وحشی کانام دیتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظرکہ ایک بار انسانی خون وگوشت کاذائقہ چکھنے والا انسانیت یا آدمیت کے کس درجے پر فائز ہوتاہے اگر ہم اس فعل کی کراہیت پر نظرڈالیں تو عجب محسوس ہوتاہے کہ زمانہ جدید کے وحشی معاشرے بھی کم ازکم انسانی گوشت کھانے کاعمل ترک کرچکے ہیں لیکن بھکر ‘دریاخان کے وسط میں واقع چھوٹے سے قصبے کہاوڑ کلاں میں ایک ایسا واقعہ سامنے آچکا کہ دو سگے بھائی قبروں سے نکالے ہوئے مردہ انسانوں اور کتوں کاگوشت تک کھاتے ہیں۔

واقعہ کی تفصیلات تو اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں تاہم چند ایک باتیں ہم ضرورعرض کرناچاہیں گے کہ کہاوڑکلاں کی راجپوت فیملی کے دونوں بھائی عارف عرف اچھل اور فرمان عرصہ دراز سے تازہ قبروں سے مردے نکال کر کھارہے تھے ۔تین سال قبل علاقہ کی سائرہ پروین نامی نوجوان لڑکی کینسر کے مرض میں مبتلاہونے کے سبب انتقال کرگئی تدفین کے اگلے روز جب لواحقین قبر پرفاتحہ خوانی کیلئے گئے تو قبر کھلی ہوئی تھی اورمتوفیہ کی نعش غائب پائی گئی۔

اہل علاقہ اس فعل پر پریشان ہوگئے کہ یہ واقعہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ ایسے بے شمار واقعات گذشتہ کئی ماہ سے جاری تھی اہل علاقہ نے پولیس کو آگاہ کیا سیاسی ڈیروں پر پنچایتیں ہوتی رہیں لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ رفع دفع ہوگیا۔بہرحال جونہی سائرہ پروین کی نعش قبر سے غائب پائی تو ورثا نے تھانہ صدردریاخان کی پولیس کواطلاع دی۔

پولیس کی آمد پر قبرکے آس پاس موجود پاؤں کے نشانوں کاجائزہ لیاگیا پھر باقاعدہ ”کھرا“ لے کر پولیس اہلکاران اہل علاقہ کے ہمراہ کہاوڑکلاں کے خلیل احمد مہاجر کے گھر داخل ہوگئے جہاں ایک کمرے سے متوفیہ سائرہ پروین کی ادھڑی ہوئی نعش پائی گئی گھر میں موجود ملزم عارف سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے ابتدا میں اس حد تک تسلیم کہا کہ اس کابھائی فرمان قبروں سے مردے نکال کر کھاتا ہے اور ساجدہ کی لاش بھی وہی نکال کرلایا اور لاش کے کچھ حصے کاٹ کر اس نے باقاعدہ دیگچی میں سالن بھی تیارکررکھا ہے ۔

پولیس کی تفتیش جاری ہی تھی کہ اس نے ایک اورانکشاف بھی کیا کہ وہ اپنے بھائی فرمان کے ساتھ مل کر کتے مار کر کھاتے رہے ۔اس نے انکشاف کیا کہ وہ ایک بچے کو بھی قتل کرکے کھاچکے ہیں۔ وحشی درندوں کے والد ضعیف العمر خلیل مہاجر کا کہناتھا کہ وہ اپنے بیٹوں کے طرز عمل کا ذمہ دار نہیں ہے۔خلیل احمد مہاجر کا کہنا ہے کہ اس کی تیسری بیٹی نصرت گذشتہ ایک ہفتہ سے غائب ہے ‘خدشہ ہے کہ کہیں دونوں وحشی درندے بھائیوں نے اسے بھی قتل کرکے کھانہ لیاہو۔

جب خلیل احمد مہاجر میڈیا سے بات چیت کررہاتھا تو پریشانی اس کے ہرعضوسے جھلک رہی تھی ۔وحشی فرمان اورعارف کی بابت معلوم ہوا کہ دونوں شادی شدہ تھے تاہم ان کی بیویاں طلاق لے چکی ہیں ۔
یہاں چند اہم سوال بھی سامنے آتے ہیں کہ کہاوڑ کلاں شہر کے عین وسط میں خلیل مہاجر کا مکان ہے جبکہ ان کے مکان کے آس پاس بھی متوسط طبقے کے افراد رہائش پذیر ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ خلیل کے بیٹے فرمان اورعارف قبروں سے مردے نکال کر گھرلائیں تو آس پاس کے مکینوں کوخبر تک نہ ہو سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ پہلے بھی قبروں سے مردے غائب ہوتے رہے اس معاملے کو اتنی سنجیدگی سے کیوں نہ لیا گیا‘ سوال تو یہ بھی ہے کہ کہیں اسکے پیچھے کوئی سیاسی ہاتھ یا بااثرشخصیت درپردہ موجود تو نہ تھی۔

کہاوڑ کلاں ایک ایسا قصبہ یا علاقہ ہے جہاں سیاسی جاگیرداروں‘ وڈیرہ شاہی کاراج ہے‘ان ڈیروں پر قتل کے مقدمات کے فیصلے بھی ہوتے توپھر کیونکر ممکن تھا کہ قبروں سے غائب ہونیوالی لاشوں کی بابت ان وڈیروں‘ سیاسی رہنماؤں کو خبرتک نہ تھی؟
یہاں یہ نقطہ بھی توجہ کا طالب ہے آدم خور کسی غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ اچھا خاصامتمول گھرانہ ہے۔

بعض شواہد کے مطابق دونوں بھائی سفلی علم کرتے کرتے اس ذہنی نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک حلال حرام کی تمیز ختم ہوگئی۔ ہوسکتاہے کہ اوائل میں انہوں نے قبروں سے مردے نکال کر سفلی علم کے استعمال کئے ہوئے اسی دوران ذہنی توازن بگڑگیا اور پھر قبروں سے مردے نکال کر کھانا شروع کردئیے ہوں۔ہوسکتا ہے کہ دونوں بھائیوں کو بچانے والے ہاتھ ذہنی توازن بگڑنے کا ڈرامہ رچار ہے ہوں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ مہذب معاشرے کی پولیس ملزمان سے کیا سلوک کرتی ہے ۔

ہم نے ابتدامیں بھی کہہ چکے ہیں کہ نیکی بدی کی تمیز انسان کے ذہن میں ہوتی ہے اور ذہن اگر ایک بارکسی فعل بد کی طرف مائل ہوجائے تو پھر وہ فعل اس ذہن کیلئے برانہیں رہتابلکہ اچھائی کیلئے مخصوص خانوں میں شامل ہوجاتا ہے ۔ یہ واقعہ ہمارے ان الفاظ کی تائید کیلئے کافی ہے۔
یہاں یہ نقطہ بھی سوچ میں مبتلا کردیتاہے کہ آخر وہ کونسی سیاسی شخصیت تھی جو انہیں بچاناچاہتی تھی اوراس کے کیا عزائم تھے۔

تین سال قبل جب وقوعہ سامنے آیاتو اہلیان علاقہ شدید ترین احتجاج پرمجبور ہوگئے اور کئی گھنٹے تک مرکزی شاہراہ کو بند کردیاگیا اس وقت وہی سیاسی شخصیت سرگرم ہوئی اور پھر لوگوں کو وعدے ‘لارے پر ٹرخاکر منتشر کردیاگیا
اب ضرور ت بڑھ گئی ہے کہ حکومت پاکستان مردہ خوری کے حوالے سے بھی قانون میں ترامیم کرے تاکہ اگر کبھی کوئی ایسے قبیح فعل کامرتکب قرا ر پائے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاسکے۔‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :