جلتی پہ تیل

جمعرات 17 اپریل 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے یہ اعتراف تو کر لیا کہ کچھ بیانات کی وجہ سے حکومت اور فوج کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی لیکن اِس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اور فوج کا قبلہ ایک ہے اور جتنی بہتر ورکنگ ریلیشن شپ آج ہے ، پہلے کبھی نہیں تھی کیونکہ اُنہیں ادراک ہے کہ فوج ، حکومت تعلقات کی مضبوطی ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔

خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ اُن کی باتوں کا کچھ حلقوں نے بُرا منایا لیکن اقرار وہ بھی کرتے ہیں کہ ملکی ترقی و سلامتی کے لیے عدلیہ اور فوج کا احترام ضروری ہے البتہ خواجہ صاحب بضد ہیں کہ اُنہوں نے جو کچھ کہا ، درست کہا اور وہ اپنی باتوں پر اب بھی قائم ہیں ۔وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف البتہ بہ اندازِ حکیمانہ اپنی باتوں کی وضاحت کر چکے اور کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

سوال مگر یہ ہے کہ آخر حکومتی حلقوں کی جانب سے ایسا کیا کہہ دیا گیا جس نے افواجِ پاکستان میں ہلچل مچا دی اور عسکری قیادت کا کون سا بیان ایسا تھا جس کی بنا پر یہ سمجھا جائے کہ ”میرے عزیز ہموطنو! “ کی گونج ایک دفعہ پھر سنائی دینے والی ہے ؟۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں اور یہ سب کچھ ”رائی کا پہاڑ “بنا دینے والے میڈیا کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔


یہ بجا کہ خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق کے بیانات قدرے سخت تھے لیکن یہ افواجِ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اُس آمر کے خلاف تھے جس سے صرف ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کا جرم ہی سر زد نہیں ہوا بلکہ اُس کے جرائم کی فہرست تو اتنی طویل ہے کہ اُس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔اُس نے احساسِ تفاخر کے ساتھ اپنی ”خود نوشت“ میں جتنے جرائم کا اعتراف کیا ہے کہ انہی جرائم کی پاداش میں اُس کی اگلی ساری زندگی جیل میں گزرسکتی ہے ۔

اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہو جاتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرف صاحب نے میاں صاحب اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا کہ انسانیت مارے شرم کے مُنہ چھپانے لگے جبکہ اِس کے بر عکس مشرف صاحب اپنے پُر تعیش محل میں ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جس کے بارے میں کوئی عامی صرف سوچ ہی سکتا ہے ۔

پرویز مشرف صاحب کی حفاظت پر عوام کے خون سے نچوڑے گئے کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں اوروہ جب باہر نکلتے ہیں تو اُن کی حفاظت کا ایسا بندوبست ہوتا ہے جو امریکی صدر بارک اوباما کو بھی نصیب نہیں ۔دوسری طرف میاں نواز شریف صاحب کوجب ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا ہوتا تو جہاز میں بھی ہتھ کڑیوں سے باند ھ دیا جاتا ۔پرویز مشرف صاحب کے جرائم کی فہرست تو طویل ہے لیکن کیا دنیاکی کوئی بھی عدالت میاں برادران کا کوئی ایسا جرم ثابت کر سکتی ہے جس کی بنا پر اُن سے ایسا سلوک روا رکھا گیا کہ اُنہیں اپنے باپ کو لحد تک میں اتارنے کی اجازت نہ دی گئی؟ ۔

پرویز مشرف اور اُس کے حواریوں نے تو ہر اُس شخص کے ساتھ بھی انسانیت سوز سلوک کیا جس کا میاں برادران کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق تھا ۔خواجہ محمد آصف ، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید صاحب کے ساتھ کیے جانے والے بہیمانہ سلوک کا کیا جواز تراشا جا سکتا ہے ؟۔یہ سبھی انسان ہیں جن کے جذبات و احساسات مُردہ نہیں ہیں۔اگر جذبات کی رو میں بہہ کر اُن کی زبانوں سے پرویز مشرف کے خلاف کوئی ایک آدھ جملہ پھسل ہی گیا تو ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ۔

کیا مشرف صاحب اتنے ہی ”پَوتر“ ہیں کہ اُن کے بارے میں قومی زباں بندی کا حکم صادر کر دیا جائے ؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر قوم کو یہ بھی بتلا دیا جائے کہ یہ جمہوریت کی کونسی قسم ہے جس میں ”جمہور“ یہ کہتے نظر آئیں کہ
یہ کیسا دستورِ زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
وزیرِ داخلہ نے بالکل درست کہا کہ ”ایک مخصوص ٹولہ رات آٹھ سے گیارہ بجے تک
اشتعال انگیزی کے چکر میں لگا رہتا ہے “۔

ایسا کہتے ہوئے اُن کا لہجہ انتہائی نرم اورانداز مودبانہ تھا کیونکہ معاملہ ہمارے بے باک الیکٹرانک میڈیا کا تھا جس سے آجکل ہر کوئی پناہ مانگتا ہے ۔چوہدری نثار نے الیکٹرانک میڈیا سے مودبانہ درخواست کی کہ وہ اپنے نیوز چینلز پر اشتعال پھیلانے والے اصحاب کو بلانے سے گریز کریں ۔لہجہ نرم سہی لیکن اندرونی تلخی اور بے بسی بہر حال عیاں تھی کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ”ریٹنگ“ کا اسیر الیکٹرانک میڈیا اور کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے اینکرز اُن کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے ۔

ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو توبریکنگ نیوز جاری کرنے کا اتنا شوق ہے کہ وہ بریکنگ نیوز پہلے جاری کرتے ہیں ، تصدیق بعد میں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک افواہ کو لے کر اُٹھتے ہیں اور پھر اُس کی صداقتوں میں جُت جاتے ہیں ۔اُنہیں ایسے راندہ درگاہ مہمان انتہائی عزیز ہیں جو ”مُنہ پھَٹ “ ہوں ۔آپ کو یاد ہو گا کہ کسی زمانے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو ”قُرآنی پریس کانفرنس“ کرنے والا ذوالفقار مرزا انتہائی عزیز تھا اور اینکرز اُس کا انٹرویو کرنے کے لیے دھکے کھاتے پھرتے تھے ۔

آج وہی ذوالفقار مرزا اپنے گھر میں موجود ہے لیکن کوئی اُسے مُنہ لگانے کو تیار نہیں ۔انتہائی بد تمیز اور مُنہ پھٹ فیصل رضا عابدی محض اِس لیے الیکٹرانک میڈیا کو مرغوب رہا اور ایک حد تک اب بھی ہے کہ وہ تاریخ ساز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے خلاف بولتا ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب دینی علم کے لحاظ سے انتہائی محترم ضرور ہیں لیکن ”شخصی خامیوں “ سے مبرا ہر گز نہیں ۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب اسی الیکٹرانک میڈیا کی کرشمہ سازیوں نے اُنہیں آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پاکستان میں سوائے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اور کچھ باقی بچا ہی نہیں ۔آجکل الیکٹرانک میڈیا کے کاغذوں میں وہ بھی استراحت فرما رہے ہیں ۔سدا بہار شیخ رشید احمد صاحب ہمیشہ الیکٹرانک میڈیا کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں کیونکہ وہ جھوٹ اِتنے اعتمادسے بولتے ہیں کہ سچ کا گماں ہونے لگتا ہے ۔

جلتی پہ تیل چھڑکنے کے جتنے وہ ماہر ہیں اُتنا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔اُنہوں نے فرمایا کہ خواجہ محمد آصف افواجِ پاکستان کے نا پسندیدہ ہیں اور اُنہیں جان بوجھ کر وزیرِ دفاع بنایا گیا ہے جس کا خمیازہ میاں نواز شریف صاحب کو بھگتنا پڑے گا ۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ” حکومت تیزی سے 12 اکتوبر 1999ء کی طرف بڑھ رہی ہے ۔میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اپریل بڑا اہم ہے اور یہ سال میاں نواز شریف کی حکومت کے حوالے سے بڑا کٹھن ہو گا۔

وہ گھر چلے جائیں گے یا امیر المومنین بن جائیں گے “ ۔ایسی باتوں سے چونکہ الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ بڑھتی ہے اسی لیے شیخ صاحب ہر روز کسی نہ کسی چینل پر برا جماں نظر آتے ہیں ۔میڈیا سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس قسم کی تاریخیں شیخ صاحب دیتے ہی رہتے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے کیونکہ اُن کی سیاسی آڑھت میں فروخت کرنے کے لیے ایسی افواہوں اور پیشین گوئیوں کے سوا بچا ہی کیا ہے ۔

شیخ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ”سیاسی ہیجڑوں کے ذریعے فوج کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔یہ وزراء خود نہیں بول رہے بلکہ اُن کے اندر نواز شریف بول رہا ہے “۔میاں نواز شریف صاحب تو ”خواجگان“ کے بیانات پر اُن کی سرزنش کر بھی چکے البتہ قوم ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا”سیاسی ہیجڑے“ وہ ہیں جو ”پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ “ کی عملی تصویر ہیں یا وہ جو ڈال ڈال پہ پھدکتے نظر آتے ہیں ۔

شیخ صاحب نے نواز لیگ چھوڑی اور پرویز مشرف کے ہمنوا بن گئے ۔پھر قاف لیگ جوائن کر لی اور جب پرویز مشرف صاحب کو زوال آیا تو نواز لیگ کی منت سماجت کرتے پائے گئے ۔جب کسی نے گھاس نہ ڈالی تو اُس کی چھتری تلے پناہ لے لی جسے کسی زمانے میں وہ ”تانگے کی سواریوں“ والا لیڈر قرار دیا کرتے تھے ۔ہمیں تو اب بھی یقین ہے کہ نواز لیگ کے ایک اشارے پر وہ میاں نواز شریف صاحب کے قدموں میں بیٹھنے کو عین سعادت سمجھیں گے ۔اب پتہ نہیں ”سیاسی ہیجڑا“ کون ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :