تحفظِ پاکستان کے بل میں ترمیم کی جائے

جمعرات 17 اپریل 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

تحفظِ پاکستان کے بل کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے لئے خصوصی عدالتیں قائم ہونگی ، مقدمات کی سماعت بھی تیزی سے ہوگی اور خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف پندرہ دن میں سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔ اس بل کے تحت کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کو 90دن کے لئے برائے تفتیش حراست میں رکھا جاسکے گا اگرچہ اس بل کو اگر عام شہری کی نظر سے دیکھاجائے جو ملک کی معیشت کی بحالی کا خواہشمند ہے اس آرڈیننس میں بظاہر اُس کو کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اُسے ہرصورت میں ملک میں امن و امان چاہئے اپنی اولاد کامستقبل محفوظ چاہئے لہذا اُن کے نزدیک اس قانون کونافذ کرکے ہی دہشت گردوں سے قلع قمع حاصل کیاجاسکتاہے مگر دوسری جانب اس بل کی مخالفت میں اپوزیشن جماعتیں ، ہیومن رائیٹس واچ اور علماء کی جانب سے تحفظِ پاکستان بل پر تنقید کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق اورآزاد ی کے خلاف قراردینے کے علاوہ پاکستان کو گوانتاموبے میں تبدیل کرنے کی سازش سے تعبیر کرنے کے علاوہ علمائے کرام کی جانب سے خدشات پیش کئے جارہے ہیں کہ ابھی یہ بل سینٹ میں پاس ہوا ہی نہیں مگر علمائے کرام اغواء ہوناشروع ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسی صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص پر دہشت گردی کا محض الزام لگ جائے یادہشت گردی کامحض معاون ٹھہرایاجائے تواُسے حراست میں لے لیاجائے گا۔ ایک ایسے نازک موقع پر قومی اسمبلی میں دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں نیاآرڈیننس اجلت کی حالت میں پاس کروالیاگیا اور دوسری جانب آرمی چیف کی جانب سے وفاقی وزراء کے بیانات کے سبب فوجی افسران میں بے چینی پائے جانے کے سبب یہ کہنا پڑا کہ فوج کے وقارکوہرصورت تحفظ کاجائے گا۔

ایسے موقع پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کاخطاب عوام کے لئے اطمینان بخش ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اب ریاست کے کسی بھی ادارے کو عوام کے آئینی حقوق کی پامالی کی اجازت نہیں دے گی نیز شہری آزادی کو ہرصورت میں یقینی بنائے گی لہذا ا س تسلسل کو قائم دائم رکھنے کے لئے انہوں نے ریاست کے ہر ادارے اوربحیثیت مجموعی پوری قوم کومتوازن رویہ اپنانے کی تلقین کی ۔

یہ درست ہے کہ جمہوری نظام کاتحفظ عدلیہ سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے اور کسی ادارے کو آئین میں جو حدیں متعین کردی گئیں ہیں اُس حد سے کسی ادارے کو تجاوز نہیں کرناچاہئے مگرحالات اور وقت کے لحاظ سے ملک و قوم کی سلامتی کے لئے ایسے اقدام کئے جاسکتے ہیں جس کے نتائج دوررَس برآمد ہوتے ہوں۔ بلاشبہ ملکی صورتحال دہشت گردی کے بادلوں تلے دبی ہوئی ہے حکمرانوں کو دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظردرست سمت میں اقدامات کرنے چاہئیں مگر یادرکھیں قومی سلامتی کے نام پر ایسے قوانین نہیں بنانے چاہئیں کہ آئینی حکومت اوردہشت تنظیم میں فرق ختم کردے ۔

ادراک کریں کہ قومی سلامتی اور بنیادی حقوق دونوں اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لہذا ایک کی خاطر دوسرے کو ترک نہیں کیاجاسکتا مگر ماضی کے دل سوز چند واقعات عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہیں جن کی بناء پر اس قانون کے ذریعے ذمہ داروں کو جابرانہ اقدامات منتقل کرنے ملک اورقوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جس کاوہ اکثرموقع پر ناجائز استعمال کرکے ٹی وی سکرین پر منظرکشی ہوتی نظرآتی ہے لہذا ان خدشات کی موجودگی میں جب حکومتی ذمہ داروں سے تحفظ پاکستان کے متعلق سوال کیاجاتا ہے کہ تحفظ پاکستان بل پر اتنی اُجلت کامظاہرہ حکومت کیوں کررہی ہے اوراپوزیشن کواعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا۔

آخر اس نقطے پر سیاسی دانشمندی اور بالغ نظری کامظاہرہ حکومت کی جانب سے کیوں پیش نہیں کیاگیا۔ ایسے سوالات پر حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے لہذا عدلیہ کی جانب سے انسانی حقوق کی حفاظت کااعلان نیز سینٹ میں اپوزیشن کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں تحفظِ پاکستان بل پاس ہوتادکھائی نہیں دیتا لہذا حکومت کو اس بل کی منظوری کے لئے اپوزیشن سے صلاح مشورہ کرکے اُن کے اعتراضات دور کرنے چاہئیں تاکہ ایک مفید آرڈیننس ملک کی بقاء کے لئے نافذ کیاجاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :