خط کون پڑھے

جمعرات 17 اپریل 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی کلا پر کاغذی لنگی پہنتے تھے اور شملہ آسمانی بناتے۔ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی کی شخصیت تو اس کا متقاضی ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جائے لیکن سر دست مجھے ان کی کاغذی لنگی کی وضاحت کرنی ہے۔ کلا پشتو میں اس ٹوپی کو کہتے ہیں جس کی شاید اہل زبان بھی وضاحت نہ کر سکیں۔بس یوں سمجھ لیں کہ ایک لمبے تربوز کو درمیان سے کاٹ کے اس کا گودا نکال لیا جائے اور اس پر پیلے رنگ کا ریشمی دہاگہ لپیٹا جائے۔

اور پہر سر پر پہن کر اس پر لنگی باندھی جائے۔ اب لنگی بھی تو ایک اور مسئلہ ہے کہ پٹھان سر پر لپیٹتے ہیں اور باقی لوگ ٹانگوں پر۔
آسمانی شملہ بھی کوئی کم وضاحت طلب معاملہ نہیں ہے۔۔
لنگی کی وضاحت کرتے کرتے کہیں ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی بیچ میں ہی رہ نہ جائے۔

(جاری ہے)

اس لیئے مختصر طور پر یوں سمجھ لیں کہ ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی ایک لمبی ریشمی ٹوپی والی پگڑی پہنتے جس کا طرہ کم از کم اپنے جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب جتنا لمبا تو ہوتا ہو گا۔

۔اس سے آپ ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی کی اپنی شخصیت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا ہونگے جس کا صرف شملہ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب جتنا تھا۔۔
تہذیبی روایتیں بعض اوقات بالکل مذہبی اقدار جتنے اہم ہو جاتے ہیں۔ اب شملہ کو بھی وہی حیثیت پٹھانوں میں حاصل ہے جتنی سکھوں میں پگ کو اور عربوں میں کندورے کو۔۔اس سے وہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح پانچے ٹخنوں سے اوپر رکھنا سنت ہو گئی۔

۔۔
خیر واپس آتے ہیں اپنے ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی کی طرف کہ بات اتنی گنجلک ہو گئی جتنی اپنے چوہدری شجاعت صاحب کی فصاحت اور بلاغت۔
انگریزوں نے جہاں اس قوم پر اور بہت سے احسانات کیے ہیں وہاں ان کا ایک عظیم احسان خصوصا قبائلی علاقوں میں اعزازی عہدے بانٹنا بھی تھا۔
جیسے آسمان سے کچھ عہدے قطب ،غوث، ابدال اور اوتاد عطا ہوتے ہیں ایسے ہی زمینی بادشاہوں نے اس کیٹگری میں نواب، سرداراور خان بنا بنا کے کھڑے کیے وہاں ملک جیسا عہدہ بھی کچھ لوگوں کو عطا ہوا۔

۔اس فہرست میں ملک بھی اس درجے پر فائز ہوتا ہے جس پر تصوف کا خلیفہ فائز ہوتا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی کے دادا صاحب کو بھی کسی خدمت کے عوض ملک کا خطاب ملا تھا۔۔
سو ہوتے ہوتے عبدالغفور بھی ملک ہو گئے۔ اب جب ملک ہو گئے تو کسی کم قوم سے ہونا ان کی شان کے خلاف تھا اس لیے خود کو احمدزئی کر دیا بروزن احمد شاہ ابدالی جو نسلا احمدزئی تھے۔

۔پیسہ جائیداد بہت تہی۔۔ملک بھی تھے اور شاہی نسل سے بھی اس لیے ایک عظیم ضیافت کے بعد کمشنر کوئٹہ نے ان کو کچھ وقت کے لیے مجسٹریٹ اعزازی قرار دیا۔۔۔ویسے قبائلی علاقوں میں جنگ و جدل اور خدائی فوجداری کو سمجھنا ہو تو اس تاریخ پر نظر ڈالنا بہت ضروری ہے جس کو کمشنری تاریخ کہتے ہیں یا آسان الفاظ میں بیوروکریسی کے قبائلی علاقوں میں چشم کشا تاریخ۔

۔۔
خیر اب عبدالغفور صاحب چونکہ ملک عبدالغفور احمد زئی مجسٹریٹ اعزازی تھے اس لیے اپنی شان برقرار رکہنے کے لیے وہ عظیم آسمانی شملے والی لنگی پہنتے تھے اور اور اس کو اپنی عزت گردانتے تھے۔
پہر وہ عظیم سانحہ ہوا جس کے لیے اتنی لمبی تمہید باندھنی پڑی۔ ہوا یوں کہ اپنے گاوں کے ماما قادر کا ایک خط آیا۔۔ماما قادر خط لے کے ملک صاحب کے پاس پہنچے کہ خود تو پڑھنا نہیں آتا تھا۔

۔اب ملک صاحب خود خط پڑھنا اتنا ہی سمجھتے تھے جتنا شیخ رشید صاحب امور خانہ داری۔۔۔۔۔
سو ملک صاحب نے طبیعت کا بہانہ بنایا، چشمہ نہ ہونے کا بہانہ بنایا ، لیکن ماما قادر کہاں ٹلنے والے تھے۔۔
آخر تنگ آ کر ملک صاحب نے کہہ ہی دیا۔۔
ماما جی۔۔مجھے پڑھنا نہیں آتا۔۔۔
ماما پہلے تو حیران ہوئے اور پہر غصہ کہ جب پڑھنا نہیں اتنا وقت کیوں برباد کیا۔

۔۔
ایک تاریخی حملہ کر دیا۔۔
" جب پڑھنا نہیں آتا تو اتنی بڑی پگڑی کیوں باندہی ہے"
بس پھرکیا تھا۔۔
ملک صاحب نے جھٹ سے پگڑی اتار کر ماما قادر کے سر پر رکھ دی اور کہا۔۔
"لو اب تم پڑھو"
بس یہی حال سارے ملکوں کا ہے۔۔۔۔سیاست کے ملک، مذہب کے ملک، لشکر کے ملک۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے صرف عبدالغفور ہوتے ہیں۔۔لیکن اپنی ذات کے لیے اور اپنی نسلوں کی بقاء کے لیے ملک بن جاتے ہیں احمدزئی بن جاتے ہیں اور مجسٹریٹ بن جاتے ہیں۔

۔
لیکن جب وقت آتا ہے خط پڑھنے کا۔۔۔
تو مشرف صاحب میاں صاحب کو پگڑی پہنا دیتے ہیں۔۔لو اب پڑہو۔۔
ذرداری صاحب مشرف صاحب کے کہاتے میں پگڑی ڈال دیتے ہیں۔۔۔لو اب پڑہو
میاں صاحب پھر سے آ کے ذرداری صاحب کے کھاتے میں۔۔۔لو اب پڑھو۔۔۔
میاں صاحب لوڈ شیڈنگ۔؟؟؟؟؟ اصل میں پچھلی اقتدار میں اس کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔۔اس لیے یہ پگڑی ذرداری کے سر۔

۔
بے روزگاری؟؟؟؟زرداری
امن وا مان؟؟؟؟؟پچھلی حکومت۔۔۔۔۔۔
گویا سب برا پچھلوں نے کیا اور آپ ابھی خود کچھ کرنے کے اہل نہیں۔۔
تو یہ عوام کہاں جائیں
لشکر نے بار بار ملک کے آئین کے بر خلاف اقتدار پر قبضہ ہی اس بنیاد پر کیا کہ ان کو خط پڑھنا نہیں آتا۔۔۔اور نتیجہ۔۔۔کچھ گلڈ، کچھ نئی روشنی سکول، کچھ نماز کمیٹیاں اور کچھ امپورٹڈ وزیراعظم۔۔۔
دوسری طرف اسلام کے ٹھیکیداروں نے مذہب کے نام پر سیاست اور دہشتگردی کے عظیم نیٹورک قائم کیے۔کچھ متحدہ محاذ بنائے، کچھ افغانستان میں جہاد کیے، کچھ لشکر پالے، کچھ ڈالر کھرے۔۔
۔اور اب طالبان کے موضوع پر پگڑی امریکہ اور انڈیا کے سر پر رکہ دیتے ہیں۔۔
اب خط کون پڑھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :