پاکستان کے نجی ہسپتال و سکول

منگل 15 اپریل 2014

Hussain Jan

حُسین جان

یوں تو ہمارے پیارے دیس میں کسی بھی نجی ادارے میں حکومت کی طرف سے کوئی چیک اینڈ بیلینس نہیں ہے تمام ادارے اپنی من مرضی کرتے ہیں اور صارفین کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پوری دُنیا میں صارفین کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان میں اس جشن کو اخبارات میں اشتہارات کی حد تک لفٹ کروائی گئی لیکن سچ تو یہ ہے کہ عملی طور پر پاکستان میں صارفین کا کوئی حال نہیں۔

ویسے تو صارفین کی تعریف یہ ہے کہ اگر کسی نے کچھ پیسوں کے عوث کسی سے کوئی چیز خریدی ہو یا اُس کی سروسز لی ہوں تو وہ صارف کہلائے گا۔ پوری دُنیا میں صارفین کو بہت سے حقوق حاصل ہیں کوئی صارف کسی بھی وقت کسی بھی دُکاندار ، فیکٹری مالک، ہوٹل مالک ہسپتال ،سکولز وغیرہ کو عدال گھسیٹ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

صارف کو کوالٹی حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ پوری دُنیا کی معیشت کا دارومدار صارف پر ہے اگر صارف کسی بھی کمپنی کی بنی پراڈکٹ یا کسی گروپ کی سروسز لینا چھوڑ دیں تو ادارے دنوں میں دیوالیا ہوجائیں۔

نجی کاروبار کرنا بری بات نہیں لیکن نجی کاروبار کے نام پر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔ ابھی تو ہماری حکومت بہت سے سرکاری ادارے مزید نجی کمپنیوں کو دے رہی ہے پھر پتا نہیں یہ نجی کمپنیوں کے مالکان صارفین کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ ہمارے ہاں تو بہت سے کمپنی ملازمین کو صارف کے حقوق کا علم ہی نہیں ہوتا بلکہ صارف کو بھی خود کے حقوق کا علم نہیں ۔

یہاں تو یہ حال ہے ایک ان پڑھ غریب آدمی جب کسی بینک میں بل جمع کروانے جاتا ہے تو اُس کے ساتھ آجکل کے پڑھے لکھے لونڈے، لونڈیاں جو امیروں کے سامنے تو جھک جھک کے باتیں کرتے ہیں لیکن غریب صارف کے ساتھ کتے جیسا سلوک کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو ITجیسے شعبے کو بھی دیسی طریقے سے چلائے جانے کا رواج ہے۔ ٹا ئی لگا اگر تہذیب سیکھی جاسکتی تو ترقی یافتہ ممالک کبھی نئی آبادیاں نا بناتے اور نہ ہی لوگوں پر بم برساتے۔


اب آتے ہیں نجی سکولوں اور ہسپتالوں کی طرف جو شتر بے مہا کی طرح اپنی مرضی سے اُڑان بھرتے پھرتے ہیں۔ بڑئے بڑئے سرمایا کاروں اور جاگیرداروں نے لوگوں کا استحصال کرنے کے لیے نجی سکول بنا رکھے ہیں۔ جن میں بچوں کو تعلیم کے نام پر گمرہ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اتنی بھاری فیسیں بھی وصو ل کی جاتی ہیں اچھے خاصے گھرانے کے لوگوں کو پتا نہیں کہاں کہاں سے پسینہ آجاتا ہے۔

اس میں بھی سب سے زیادہ قصور وار ہماری حکومت ہے دانش کدے تو بن گئے کیا دو تین دانش کدے کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کر لیں گے۔ ہر نجی سکول کا اپنا سسٹم ہے جس کا جو دل کرتا ہے فیس وصولتا ہے۔ عجیب عجیب ڈھنگ سے والدین کو لوٹتے ہیں کبھی پیپر فنڈ، کبھی سوئمنگ فنڈ کبھی جنریٹر فنڈ کبھی سیر و تفریع فنڈ۔ اگر حکومت کی طرف سے ان پر کچھ شرائط عائد کی جائیں تو معاملات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر افسوس صد افسو س کے ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ شوگر مل مالکان کی طرح نجی سکولوں والے بھی الیکشنز لڑ کر اسمبلی میں براجمان ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ تعلیم کسی بھی حکومت کی پہلی تو کیا آخری ترجہی بھی نہیں رہی۔ گھوسٹ سکولوں کی خبریں موجودہ ترقی کے دور میں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ اگر حکومت موجودہ سرکاری سکولوں پر ہی توجہ دینا شروع کر دے تو پاکستانی قوم کو نجی سکولوں کے ڈاکووں سے نجات مل جائے گی۔ بچہ چاہے غریب کا ہو یا امیر کاوالدین سرکاری سکول میں داخل کروانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ سرکاری سکولوں میں فرنیچر، باتھ روم وغیرہ وغیرہ صرف کتابوں میں ہی پڑھایا جاتا ہے عملی طور پر اُن کا وجود نہیں ہوتا۔

سرکاری سکولوں کی اس حالت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھرتی کرواتے ہیں مگر وہ اُن سے فیسیں اتنی چارج کرتے ہیں کہ بڑھوں بڑھوں کی بس ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہماری حکومت نے کبھی ان سکولوں کے مالکان کو پوچھا ہی نہیں کہ وہ عوام سے کتنی فیس لے رہے ہیں پوچھیں بھی کیوں ، کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی انہی سکولوں کی پیداوار ہیں۔

چلیں مان لیا بڑھے بڑھے لوگ ان سکولوں کی فیسیں ادا بھی کر لیتے ہیں مگر مڈل کلاسیوں کا کیا قصور ہے وہ تو ان سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل نہیں کروا سکتے اور نا ہی سرکاری سکولوں کا رسک لے سکتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سفید پوشوں کی آدھی کمائی یہ سکول ہڑپ کر جاتے ہیں۔
یہی حالت ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی ہے جہاں پاکستان کی عوام کو صحت کی سہولتیں میسر نہیں روز خبریں آتی ہیں کہ فلاں ہسپتال میں دوائیاں کم پڑ گئیں کسی میں مشینیں خراب ہو گئیں کسی میں ایک بیڈ پر 3 3مریضوں کا ڈال رکھا ہے۔

اگر غلطی سے کوئی مریض داخل ہو گیا تو بس پھر وہ کیا پورا گھرانا ہی سمجھو داخل ہو گیا۔ ڈاکٹر سے لے کر چھوٹے عملے تک لواحقین اور مریض کو ایسے زلیل کرتے ہیں کو لوگ اپنے مریض کے مرنے کی دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ یہاں بھی سرکار صرف علانات تک ہی محدود ہے۔ دوسری طرف نجی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا یہ عالم ہے کہ بس ایک دفعہ کوئی ان کے ہتھے چڑھ گیا اُس کی خیر نہیں نجی سکول والے تو پھر بھی مہنے بعد فیس لیتے ہیں یہ روز روز لیتے ہیں۔

وہ ڈاکٹر جو سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں کسی مریض کو چیک کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہی ڈاکٹر جب کسی نجی ہسپتال میں بیٹھتا ہے تو 3000سے لیکر 5000تک فیس بھی لیتا ہے اور اپنا رویا اس حد تک نرم رکھتا ہے کہ مریض خود کو وزیر آعظم سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح دوائیوں کا بھی مسئلہ ہے کہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو مختلف آفر زکے زریعے لوگوں بیوقوف بنانے پر اکساتی ہیں۔

پھر یہ حضرات مریضوں کوکے بنڈل دوائیوں کا لکھ دیتے ہیں اور پھر فارما کمپنیوں سے اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ ہر ہسپتال نے اپنے میعار کے مطابق مختلف پیکچ دے رکھے ہیں اگر یہی سہولیات سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہوں تو مریضوں کو ان نجی ہسپتالوں کی طرف کبھی نا جانا پڑئے۔ یہ ہسپتال تو ایسے ہیں اگر امرجینسی میں کوئی مریض لے جائیں چاہے وہ راستے میں دم ہی کیوں نا توڑ جائے آ پ کا بل بن جائے گا۔ ایک ایک چیز کے الگ الگ پیسے مانگتے ہیں۔ پتا نہیں حکومتیں کب اپنے عوام کا سوچھیں گیں ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو بہتر سہولیات میسر ہیں اور وہ لوگ ترقی بھی اسی وجہ سے کر رہے ہیں کہ صحت مند معاشرہ ہی ترقی کی منازل طے کرتا ہے لولا لنگڑا معاشرہ خاک ترقی کرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :