کامیابی کا پیغام

پیر 7 اپریل 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہمارے ہاں صرف بھوک کے قحط کو ہی ایک عذاب سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ ظاہر ہے کہ بھوک سے لاکھوں لوگوں کا ہلاک ہو جانابہت سے لوگوں کے دلوں کو دہلا دیتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک معاملہ اس کے بر عکس ہے۔دنیا میں کئی قسم کے قحط پائے جاتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان قحطوں میں سے سے بڑا قحط ”کتب بینی کا قحط “ ہے جو افراد کو کئی کا نہیں چھوڑتا۔

پوری دنیا بالخصو ص پاکستان میں کتب بینی کا قحط اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسکی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد روحانی،ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ہمارے ہاں لوگ جسمانی غذا،اس کی قلت اور اس قلت کے نقصانات کو تو سمجھتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک کر نے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح زندہ رہنے کے لئے جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی،ذہنی اور نفسیاتی غذا بھی درکار ہووتی ہے اورکتب بینی اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔

(جاری ہے)

کتب بینی کا شوق انسان کو مرتب اور منظم انداز میں سوچنا اور اظہار کر نا سیکھاتا ہے۔اور انسان کی کند ذہنی اور گونگا پن دور کر تا ہے ۔میرا اپنایہ مشاہدہ ہے کہ کتب بینی کند ذہن شخص کو اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت عطا کر دیتا ہے اور اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت کے حامل انسان کو ذہین بنا دیتا ہے۔کتب بینی خود آگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں چیزوں کے بغیر انسان اپنی زندگی کی معنویت کا تعین کر نے میں نامراد ہی رہتا ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے ذہنی، نفسیاتی اور روحانی بیمار لوگوں کو کتاب سے قریب کیا جائے کیوں کہ کتاب انسان کو جینے کی جلا بخشتی ہے۔ طاقت فراہم کرتی ہے اور زندگی گذارنے کے نت نئے طور طریقوں سے آشنا بھی کراتی ہے ۔
پنجابی کمپلیکس میں منعقدہ ”کامیابی کا پیغام“ کی تقریب رونمائی بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ تھی جہاں اہل علم، دانشواران قوم اور سماجی و سیاسی شخصیات کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان جیسی تقریبات کی وجہ سے لوگ کتاب سے قریب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

قاسم علی شاہ کی کتاب ” کامیابی کا پیغام“ دراصل ایک نسخہ کیمیا ہے معاشرے کے ان لوگوں کے لئے جو صبح سے شام اور شام سے صبح نا امیدی اور مایوسی کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔یہ کتاب مردہ لوگوں کے اندر کامیابی کی روح پھونک کے انکے جذبوں اور ولولوں کو طاقت فراہم کرتی ہے ۔شاہ صاحب کے بقول دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو آپ کو یہ کہتا ہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی بڑے کام کے لئے تمہیں دنیا میں بھیجا ہے۔

مایوسی کے زہر میں لپٹے ایسے بہت سے لوگوں کوصدائیں لگا رہے ہوتے ہیں کہ تم لوگ ہر گز ہر گز نا کام نہیں ہو۔تمہارے بغیر دنیا نا مکمل تھی،تم آئے تو یہ مکمل ہوئی ۔کتنا بڑا جھوٹا ہو گا وہ شخص جو خدا تعالیٰ کو سچا نہیں مان رہا۔شاہ صاحب با عمل ہونے کے ساتھ اپنے سینے میں مخلوق کا درد رکھنے والے انسان ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا کہ جب یہ اس اس بات کی منادی لگاتے نظرنہیں آتے ” زندگی صدیوں،سالوں،مہینوں یا دنوں میں نہیں بدلتی ۔

زندگی اس لمحے میں بدل جاتی ہے جس میں آپ زندگی بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں“۔حالات کمزور لوگوں کو پیداکرتے ہیں جب کہ طاقتور لوگ اپنی مرضی کے حالات پیدا کرتے ہیں ۔
کامیابی کا پیغام کا ہر ہر لفظ انسان کے اندر اترتا چلا جاتا ہے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کو کچھ کرنے کے جذبے اور اس پر استقامت کی طاقت دے جاتا ہے۔لوگوں کی محرومیاں طاقت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

لوگوں کی سوچوں میں انقلاب بر پا کر تے ہوئے انہیں اس بات پر سوچنے اور اس پر عمل کر نے پر اکساتی ہیں کہ کامیاب اور امیر بننے کے لئے اگر آپ کو اپنے سوچنے کا انداز بد لنا پڑے تو یہ کام اتنا مہنگا نہیں ۔
قا سم علی شاہ صاحب جیسے لوگ اس دور میں جب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے قدرت کی طرف سے مخلوق کے لئے باعث رحمت بن کے آتے ہیں ۔یہ اپنی اخلاص سے بھری کا وشوں کا سہرا اپنے سر پر سجانے کی بجائے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:”ہم سب اپنے والدین ،اپنے اساتذہ اور اپنے دوستوں کے مقروض ہیں ۔

ہمیں یہ قرض دوسروں پر احسان کر کے اتارنے ہیں۔اور وہ یہ قرض معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو امید کے چند الفاظ،کسی کو تسلی کے چند فقرے دیتے ہوئے چکاتے ہیں۔ شاہ صاحب سے میری آشنائی کا دوارنیہ کوئی 10سالوں پر محیط ہے اور جب سے اب تک میں نے انہیں اندھیروں کا مسافر بنے لوگوں کو روشنی کی شاہراہ کا مسافر بنا نے کے لئے ہمہ وقت مصروف دیکھا ، کوئی دن، کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا ہو گا کہ جب جنون کی حد تک یہ شخص لوگوں کو کامیابی کے گُر سیکھانے میں مصروف دکھائی نہ دیتا ہو۔
قارئین! اعلیٰ مقاصد مد نطر ہوں تو انسان مطمئن ہی نہیں بلکہ طاقتور بھی ہو جا تا ہے۔ شاہ صاحب کی تحریروں میں جو طاقت میں نے محسو س کی ہے وہ قدرت کی عطا ہے اورقدرت یہ عطا اپنے خاص بندوں کودیتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :