خاموشی کی قیمت

اتوار 6 اپریل 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

حکومتیں عوامی بھلائی کے لئے بھی قانون سازی کرتی ہیں یا جن امور پر پابندی لگاتی ہیں یہ حکومت کا حق ہے کیونکہ اسے عوام نے ہی منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجا ہوتا ہے ،حکومت کی جانب سے کی گئی کوئی بھی قانون سازی اور اور پابندی اس وقت متنازعہ بن جاتی ہے جب اس میں عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا یا پھر چند افراد گروہ یا اداروں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے، ریاست کو اتنا وژنری ضرور ہونا چاہیے کہ وہ جو بھی فیصلہ عوامی مفاد میں کرے اس کے تمام پہلوں پر غور کرنے کے بعد کرے ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ پابندی کسی بھی مسلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ ان عوامل کو ختم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے جس کی بنا پر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہو۔

آج کا دور میڈیا کے انتہائی اثر پذیری کا دور ہے اس پر قد غن لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ افواہوں کے پھیلنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا کے ساتھ ایک بہت بڑی طاقت بن کر شوشل میڈیا بھی دنیا بھر میں اپنا مقام بنا چکا ہے جس کی اہمیت اور افادیت سے اب انکار ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اب یہ میڈیم دوسرے میڈیم مثلاً پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا سے بھی آ گے جا چکا ہے جس پر اگر کوئی ملک پابندی لگاتا ہے تو وہ اپنے ہی عوام کو معلومات،تعلیم اور تفریح کے ایک بڑئے ذرائع سے محروم کر دیتا ہے جیسا کہ اکثر مسلم ممالک میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں حکومت مخالف سرگرمیوں کا کہہ کر سوشل میڈیا پر پابندی لگادیتی ہیں لیکن عوام دیگر زرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس میڈیم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں یوٹیوب پر حکومتی سطع پر پابندی ہے لیکن عوام کی کثیر تعداد مختلف ذرائع استعمال کر کے اس تک رسائی رکھتے ہیں،ہماری دنیا میں سوشل میڈیا بہت تیزی سے داخل ہو رہا ہے اور وہ وقت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے جب آپ گھر سے نکل کر کسی چائے خانے یا مجلس میں گپ شپ کا لطف اٹھاتے تھے۔

(جاری ہے)

اب آپ بستر میں لیٹے دنیا کے کسی کونے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی بات چیت میں حصہ لے سکتے ہیں اور اپنے دوستوں کی حرکات و سکنات اور ان کے زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر گہری نظر رکھ سکتے ہیں۔اسی طرح اب دنیا کے قریب آنے سے واقعات اور خبروں کا سفر بھی محدود ہو گیا ہے جس کے باعث اب باتیں تیزی سے پھیلتی ہیں سوشل میڈیا تعیلم اور علم کا بہت بڑا مفت زریعہ بن کر سامنے آیا ہے، اب انسان پل بھر میں دنیا بھر کی کوئی بھی معلومات ایک بٹن دبانے سے حاصل کر لیتا ہے جبکہ اس سے پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔


یوٹیوب ایک وڈیو پیش کرنے والا ادارہ ہے اس پر صارفین اپنی وڈیو شامل اور پیش کر سکتے ہیں۔ پے پال کے تین سابق ملازمین نے فروری 2005ء میں یوٹیوب قائم کی۔ نومبر 2006ء میں گوگل انکارپوریٹڈ نے 1.65 ارب ڈالر کے عوض یوٹیوب کو خرید لیا، اور اب یہ گوگل کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ادارے کے صدر دفاتر سان برونو، کیلیفورنیا، امریکہ میں واقع ہیں۔

یوٹیوب صارف کے وڈیو مواد کو دکھانے کے لیے ایڈوب کی فلیش وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ یوٹیوب پر پیش کردہ بیشتر مواد انفرادی طور پر اس کے صارفین کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے البتہ سی بی ایس، بی بی سی، یو ایم جی اور دیگر ابلاغی ادارے بھی یوٹیوب شراکت منصوبے کے تحت اپنا کچھ مواد پیش کرتے ہیں۔غیر مندرج صارفین یوٹیوب پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں جبکہ مندرج صارفین کو لامحدود وڈیو پیش کرنے کی اجازت ہے۔

یوٹیوب کی شرائط کے تحت رسوائی کا باعث بننے والا، فحش، حقوق دانش کی خلاف ورزی کرنے والا اور جرائم پر ابھارنے والا مواد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مندرج صارفین کے کھاتے "چینلز" کہلاتے ہیں۔یوٹیوب انگریزی کے علاوہ 16 سے زائد زبانوں میں سہولیات فراہم کرتی ہے جن میں ہسپانوی، ولندیزی، چینی اور دیگر شامل ہیں۔گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب کو باقاعدگی سے استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔

گوگل نے اس سنگ میل کو عبور کرنے پر اپنے بلاگ میں کہا ہے کے سمارٹ فونز کے ذریعے ویب سائٹ استعمال کرنے سے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ہر ماہ ویب سائٹس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق’تقریباً انٹرنیٹ پر آنے والا ہر دوسرا صارف یوٹیوب استعمال کرتا ہے لاکھوں کی تعداد میں حصہ داروں نے اپنے چینلز، پیجز اور کاروبار بنائے ہیں، جہاں وہ سرگرم اور مصروف رہتے ہیں۔

‘ایک رپورٹ کیمطابق کاروباری جریدے اور سرفہرست سو بڑے برانڈز اب یوٹیوب پر موجود ہیں،انٹرنیٹ کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ مشہورِ زمانہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ پر روزانہ دو ارب سے زائد ہٹس آتی ہیں۔گوگل کے مطابق یہ تعداد امریکہ کے تین بڑے ٹی وی چینلز کے صارفین کی کل تعداد کے قریباً دوگنا کے برابر ہے۔
علم اور تعلیم کے اس زریعے پر پابندی کی بنا پر عوام کی اکثریت مفت تعلیم اور معلومات سے محروم ہے، ابھی حال ہی میں سینیٹر افرا سیاب خٹک کی سربراہی میں اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا ، اجلاس کے دوران چیرمین پی ٹی اے نے یو ٹیوب کی بندش کے حوالے سے بتایا کہ انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل پر 848 ویب سائٹس پر تنبہیہ موجود ہے، جس پر مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ صارفین کی یو ٹیوب تک رسائی نہ ہونا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کمیٹی نے معاملے پر غور کے بعد یو ٹیوب کھولنے سے متعلق قراردادسینیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا۔

واضح رہے کہ حکومت نے 17 ستمبر 2012 کو یو ٹیوب پر توہین آمیز فلم کی وجہ سے اس ویب سائیٹ پر پابندی عائد کردی تھی ، 29 دسمبر 2012 کو یو ٹیوب پر سے صرف 2 گھنٹے کے لئے پابندی اٹھائی گئی تھی جس کے بعد سے تاحال اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہے۔ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت کو یو ٹیوب یا دیگر انٹر نیٹ کے زرائع پر ہونے والی کسی بھی غیر اخلاقی سرگرمی یا توہین آمیز مواد یا ویڈیوز کو فلٹر لگا کر بند کرنا چاہیے اور اگر یہ ابھی تک نہیں ہو سکا تو اس میں متعلقہ نگراں ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیش اتھارٹی کی نااہلی ہے۔

ایک ایسی ویب سائٹ جو علم اور تعلیم کا ایک بہت بڑا زریعہ ہے اور جسے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے، پاکستان میں کیوں بند ہے اور کب تک رہے گی۔ یو ٹیوب پر پابندی لگنے کے ڈیڑھ سال بعد بھی اس خاموشی کا جواب ملنا مشکل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :