انوکھا قانون

اتوار 6 اپریل 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

مجرم کا نام پکارا گیا ، تو ایک بزرگ آدمی کمرہ عدالت میں داخل ہوا جس کی گود میں نو ماہ کا ایک بچہ تھا۔ جج نے استفسار کیاکہ مجرم کون ہے تو بزرگ آدمی نے کہا سر مجرم یہ بچہ ہے جو میری گود میں ہے۔ بچہ بھی ایسا ہے نہ بول سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی اچھائی اور برائی کی تمیز رکھتا ہے۔ عمر ہی کیا ہے صرف 9ماہ۔ بچہ کمرہ عدالت میں اپنے من پسند ہتھیار کے ساتھ داخل ہوا وہ ہتھیار اسکے دودھ کا فیڈر ہے۔

اس انوکھے مجرم کو دیکھ کر اور اس کا جرم سن کر جج سمیت کمرہ عدالت میں بیٹھے تمام لوگ ششدر رہ گئے۔ جرم یہ تھا کہ ملزم نے پتھراؤ کیا تھا اور ساتھیوں سے مل کر پولیس کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن مجرم تو دیکھیں کتنا خطر ناک ہے جو دادا جی کی گود میں منہ میں فیڈر لیکر جج صاحب کے سامنے پیش ہوا۔

(جاری ہے)

اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے اس جگہ پر کیوں لایا، اس کا قصور کیا ہے۔

جج صاحب نے اس انوکھے مجرم کی ضمانت تو منظور کرلی لیکن پھر بھی اسے سارے قواعد و ضوابط سے گزرنا پڑا۔ جب انگوٹھا لگانے کی باری آئی تو مجرم کا انگوٹھا پکڑ کر دوات کے پیڈ میں ڈبویا گیا، تو مجرم نے رونا شروع کردیا، شائد سمجھا ہوگا ڈاکٹر صاحب ٹیکا لگانے لگے۔ اس کے بعد جب انگوٹھا کاغذ پر دبایا گیا تو ایک اور چیخ نکلی تو داداجی نے فوراً فیڈر مجرم کے منہ میں ڈالا تو تھوڑا سا چپ ہوگیا۔

کہا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے، انصاف کرتے ہوئے کسی بے گناہ پر بھی چھری چل جاتی ہے، لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ پولیس افسران بھی اندھے ہیں۔
پاکستان میں پولیس اہلکاروں کی کارکردگی بہت ہی مشہور ہے، کبھی کسی دہشت گرد کو پکڑ سکتے نہیں لیکن کسی بے گناہ شخص کی پیٹھ پر چھتر مارسکتے ہیں، اصل مجروں تک پہنچ سکتے نہیں لیکن 9ماہ کے بچے کے خلاف مقدمہ درج کرسکتے ہیں، کہیں فائرنگ ہو تو بھاگ کر خود کو بچانے میں مہارت دکھاتے ہیں لیکن پولیس اسٹیشن کے سامنے کوئی لڑکی سرعام خود سوزی کرنے کی کوشش کرے تو اسکو نہیں بچاسکتے۔

پاکستان میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ یہاں جس کے پاس پیسہ یا پاور ہو پولیس اسکی جیب میں ہے، وہ کسی کو گرفتار بھی کروا سکتا ہے، چھتر بھی پڑوا سکتا ہے اور عدالتوں کے چکر بھی لگوا سکتا ہے، اورکوئی بھی جرم کر کے خود کو بچا بھی سکتا ہے۔ بھئی یہاں تو ہر جگہ قائد اعظم چلتا ہے،،، نہیں سوری قائد اعظم نے پاکستان بڑی محنت سے بنایا تھا، ایسا پاکستان جہاں عدل ہو، انصاف ہو، مساوات ہو، برابری ہو۔

۔۔۔۔ لیکن یہاں تو قائد اعظم کی تصویر والے نوٹوں کی اہمیت ہے، جو یہ نوٹ لگائے وہ ہر جگہ کامیاب، جو اس نوٹ سے محرم وہ دھکے ہی کھاتا رہے گا۔ وہ جیل جائے تو باہر بھی نہیں آسکتا ہے۔
کہنے تو ہمارا ملک اسلامی بھی ہے اور جمہوری بھی، لیکن بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ادھر نہ اسلام نظر آتا ہے نہ ہی جمہوریت،،،، بھئی ایک روز پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکی نے مقامی بااثر لوگوں کے ساتھ زمین کے ایک ٹکڑے کے تنازعہ پر پولیس سے انصاف مانگنے کیلئے پولیس اسٹیشن کا رخ کیا تو اس پر اِن بااثر لوگوں نے خونخوار کتے چھوڑے جنہوں نے اسکے جسم کو چھلنی کردیا۔

اس لڑکی پر کسی اور جگہ نہیں بلکہ پولیس اسٹیشن کے احاطے میں کتے چھوڑے گئے جہاں ایس ایچ او نے اسے بلایا تھا۔ اس کے باوجود بھی لڑکی کو انصاف نہیں ملا بلکہ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ متعلقہ تھانے پہنچے اور لڑکی کا بیان ریکارڈ کرایا۔
ہمارے ملک میں ایسے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں ، لیکن اس کے بعد ہوتا کیا ہے، کسی ٹیلی وژن چینل پر ایک خبر نشر ہوتی ہے یا کسی اخبار کے
کونے میں کوئی سنگل کالم خبر شائع ہوتی ہے، کچھ لوگ پڑھ کر ہنس پڑھتے ہیں اور کوئی افسوس کا اظہار کرتا ہے، بات ختم۔

ہم اس قدر بے حِس ہوچکے ہیں کہ جرم کرنے والے کو بھی کوئی احساس نہیں ہے اور جرم دیکھنے والوں کو بھی اب کوئی بات انہونی نہیں لگتی کیونکہ انہونی تو تب کوئی چیز لگتی ہے جب اس سے پہلی مرتبہ دیکھا یا سنا ہو، لیکن یہاں تو خواتین پر کتے چھوڑنے، کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی، کسی کم عمر بچی کو ونی کرنا، کسی کی قرآن سے شادی کروانا، کسی کو انگاروں کے اوپر چلانا وغیرہ وغیرہ معمول کے واقعات ہیں۔

سنگ دل تو ایک عام بات ہے لیکن لگتا کچھ یوں ہے کہ ہمارے سینوں میں دل نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ یہاں تو کسی صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے، کسی محمد بن قاسم کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قوم میں ایسے لوگوں کا جنم لینا اب مشکل ہے، کیونکہ ہم اب برائی کو برائی نہیں سمجھتے ۔جب بھی کوئی انہونی پیش آئے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی یہاں تو سب ممکن ہے ، کیونکہ تو یہ پاکستان ہے۔ہاں، شائد سچ ہی کہا جاتا ہے، کیونکہ 9ماہ کے بچے کے خلاف کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان میں ایف آئی آر درج کی گئی اور عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ ہے ہمارے ملک کا انوکھا قانون!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :