سعودی عرب کی پاکستان کیلئے امداد

ہفتہ 5 اپریل 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

قسم کے دنیاوی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ حرمین شریفین کی برکات، مقدس مقامات پر رحمت خصوصی کی وجہ سے وہاں امن و امان کا دور دورہ ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ سمیت دیگر مقامات مقدسہ کی وجہ سے سعودی عرب کا پوری امت مسلمہ کا رشتہ انتہائی پاکیزہ ہونے کے ساتھ ساتھ روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔
دوسرا ملک جو لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر دنیا میں قائم ہوا وہ پاکستان ہے۔

14اگست1947ء کو اسلامی مملکت معرض وجود میں آنے تک مسلمان برصغیر نے بیش بہا قربانیاں دیں تاکہ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون جاری ہو سکے۔ اہل اسلام آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق گزار سکیں۔ بدقسمتی کہہ لیجئے کہ آج تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ نظریے کی بنیاد پر بننے والے دونوں ممالک سعودی عرب اور پاکستان کا پہلے دن سے یہی رشتہ تمام الائشوں سے پاک پاکیزہ بندھن میں بندھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کا قیام یقینا پاکستان کے قیام سے پہلے ہوا، مگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک سعودی عرب کے ساتھ دینی و روحانی برادرانہ گہرے تعلقات چلے آ رہے ہیں جس کی تاریخ شاہد ہے۔ سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے مملکت پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔
حقیقی بات یہ ہے کہ سعودی حکومت اور عوام کے دل اہل ِ پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مشکل حالات میں نہ صرف مدد کی، بلکہ اس کی پشت پر کھڑا ہوا۔


اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کا بچہ بچہ سعودی عرب کو مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ اس بات میں بھی شک نہیں ہونا چاہئے کہ سعودی عرب کی حکومت اور عوام بھی پاکستان کو ہر حال میں مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔

1971ء میں پاکستان پر مشکل وقت آیا، بدقسمتی سے پاکستان دو لخت ہوا، پوری دنیا جو پاکستان کا تماشا دیکھ رہی تھی اْس وقت بھی سعودی عرب نے بنگلہ یش کو تسلیم نہیں کیا۔
جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا تو سعودی عرب نے پاکستان کو بَری، بحری اور فضائی تربیت کا کام اس انداز میں سونپا جیسے سعودی عرب کے جوانوں کی تربیت ان کے اپنے بڑے بھائی کریں گے۔


1973ء میں سیلاب اور1975ء میں سوات کا تباہ کن زلزلہ متاثرین کی امداد سے سعودی حکومت نے تاریخ رقم کی ہے۔8اکتوبر2005ء کے المناک و تباہ کن زلزلے اور2011ء کے خوفناک و المناک سیلاب کے متاثرین کی امداد کے لئے برادر ملک سعودی عرب اور اس کی عوام نے جو کردار ادا کیا اس کو شک کی نگاہ سے دیکھنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ سعودی عوام اور سعودی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے حرمین شریفین کے سفیر محترم محمد بن ابراہیم الغدیر نے جس طرح خود سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے امدادی کام سرانجام دیئے ہیں ان کی مدد ہزاروں لاکھوں میں نہیں تھی، کروڑوں ریال کے ساتھ ساتھ متاثرین کی مکمل بحالی تک جاری رہی ان کا یہ احسان پاکستانی عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔


اہل پاکستان اور پاکستان کی مذہبی، سیاسی جماعتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ 28مئی 1998ء کو میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں جب امریکہ بہادر کے بار بار روکنے کے باوجود کامیاب ایٹمی دھماکے کئے گئے۔ پاکستان کو دنیا میں پہلا ایٹمی اسلامی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تو یورپی ممالک امریکہ کے اتحادی ممالک ان میں سے بیشتر جو پاکستان سے دوستی کا دم بھرتے تھے ، سب مخالف ہو گئے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں ایسے مشکل حالات میں بھی سعودی عرب نے یورپ اور امریکہ کی مخالفت کی پروانہ کرتے ہوئے پاکستان کو بھاری مقدار میں پٹرول کی مفت سپلائی شروع کی، جس سے مشکل ترین حالات میں پاکستان کو نہ صرف سنبھلنے کا موقع ملا، بلکہ پاکستان نے اقتصادی مشکلات پر بھی قابو پا لیا، پاکستان کے کامیاب ایٹمی دھماکوں کو سعودی عرب اور اس کے عوام نے اپنی کامیابی قرار دیا۔

خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ولی عہد کی حیثیت سے بھی پوری امت مسلمہ کے خیر خواہ رہے اور جب سے سعودی عرب کے بادشاہ بنے ہیں فلاح انسانیت میں مثالی خدمات کی وجہ سے دنیا کے مقبول ترین رہنما?ں میں نمایاں حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ کی امت مسلمہ سے محبت اور دین اسلام سے لگا? پرنظر ڈالتے ہیں تو عظیم رہنما کی خدمات پر دنیا کے ہر خطے میں موجود مسلمان فخر کرتے ہیں۔

غیر مسلموں کی اصلاح کے لئے مکتب جالیات دنیا کی81زبانوں میں لٹریچر شائع کررہا ہے۔ فہم قرآن پرنٹنگ کمپلیکس میں قرآن کریم کی طباعت پھر اس کی مفت تقسیم قرآن کریم کا 50سے زائد زبانوں میں ترجمے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سعودی عرب کو تیل اور دوسری معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مملکت سعودی عرب اسلام کی عظیم تبلیغ و اشاعت کا مرکز بن چکا ہے، پاکستان میں فیصل مسجد، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی پوری دنیا میں اسلام کے سفیروں کا تعین اور سعودی حکومت کی طرف سے ماہانہ ادائیگیاں حرمین شریفین کی اہل اسلام کی ضرورتوں کے مطابق توسیع، ہر سال مزید بہتری کے لئے اقدامات سعودی حکومت کے گراں قدر اقدامات ہیں۔

بحیثیت مسلمان کسی مرحلے پر بھی شک کی گنجائش نہیں، پاکستان کے سعودی ولی عہد اور دیگر ذمہ داران کے دوروں کے بعد ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کی وجہ سے شروع ہونے والے بلاوجہ کے پراپیگنڈے پر بات کروں گا۔ سعودی عرب کی ایک تاریخ ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ چہرے ضرور بدلتے ہیں، ضرورتیں نہیں بدلتی۔ سعودی عرب کی طرف سے خیر سگالی کے طور پر فراہم کئے جانے والے ڈیڑھ ارب کو جو ”رنگ“ دیئے جا رہے ہیں اس میں غیر مسلم تو یقینا خوش ہوں گے۔

امر یقینی ہے پاکستان کے مخالف ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر، بعض نام نہاد کالم نویس اور اینکر پرسن نے جس انداز میں سعودی امداد کو اوچھالا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کسی نے کہا بحرین فوج جا رہی ہے، کسی نے کہا فلاح ملک میں ہتھیار جا رہے ہیں، کسی نے کوئی معاہدہ قرار دیا، کسی نے کوئی معاہدہ قرار دیا۔ ایک بات یکسوئی سے کہی جا سکتی ہے۔

ان دانشوروں کے رویے اور کردار سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ افراد کن کے کہنے پر یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ پوری قوم آگاہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دورِ حکومت میں سعودی عرب سے امداد نہیں مانگی، کشکول نہیں پھیلایا، مشرف دور میں کیا ہوتا رہا تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ پاک فوج کے ترجمان اور بقلم خود وزیراعظم پاکستان کی طرف سے وضاحت کے بعد پاکستان کی محبت اور مضبوطی اور ملکی معیشت کی بہتری کے لئے یقین کر لینا چاہئے اور ہر بات کو ایشو بنانے کی بجائے اس مسئلے کو ختم کر دینا چاہئے۔

ان حالات میں جب ہنود و یہود اور نصاری مل کر مسلمانوں کے دینی اور باہمی ایثار، محبت کے رشتوں کو کمزور اور اختلافات پیدا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ اسلام کی شمع روز بروز روشن تر ہونے پر پریشان ہیں ایسے حالات میں پاک سعودی تعلقات کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ عالمی سازشوں سے باخبر رہتے ہوئے انہیں ناکام بنانے کے لئے متحد رہنا چاہئے یہی بیدار رہنے کا وقت ہے سازشوں کا حصہ بننے کا نہیں۔

بعض دانشور سعودی عرب میں عمرہ یا کاروبار یا ملازمت کرنے والوں کے ساتھ سعودی پولیس اہلکاروں کے رویے پر بات کرتے ہیں۔ اس پر ذاتی طور پر گواہ ہوں جو گند پاکستانی سعودی عرب میں جا کر ڈالتے ہیں جو مکروہ دھندہ شروع کر دیتے ہیں اگر یہی فعل ہمارے ملک میں کوئی کرے تو ہم ایک دن بھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہاں تو دس دس سال سے عمرہ ویزہ پر غائب ہونے والوں کو سعودی حکومت اگر پکڑ پکڑ کر پاکستان اپنے خرچے پر بھیج رہی ہے تو زیادتی کس بات کی؟ اہل ِ پاکستان کو دوسرے ممالک میں جا کر وہاں کے قوانین کی پاسداری کو اپنانا ہو گا، قانون پر عمل درآمد کرنا ہو گا ایسی کوئی مثال سامنے نہیں کہ سعودی حکومت نے قانون پر عمل درآمد کرنے والوں سے زیادتی کی ہو، ہماری تو خواہش ہوتی ہے سعودی عرب جیسے قوانین کی عمل داری پاکستان میں شروع ہو جائے۔


ہماری دْعا ہے سعودی عرب کی طرح پاکستان بھی جس نظریہ، جس مقصد کے لئے بنا ہے وہ مقاصد پورے ہو جائیں۔ سعودی عرب کی طرح پاکستان بھی امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بن جائے۔ دونوں ملکوں کے سعودیہ پاکیزہ رشتے کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :