میں مر گئی آں

ہفتہ 5 اپریل 2014

Hussain Jan

حُسین جان

بہت سے تماشبین طبیت کے قارئین کواس سے لگ رہا ہو گا کہ میں نرگس کا کوئی گانا پیش کرنے جا رہا ہوں۔ ویسے تو بہت سی" چیزیں" ہمارے فنکار خود پیش کر دیتے ہیں مگر ہمارا مقصد یہاں کسی کے عضاء کی شعری کو بیان کرنا نہیں بلکہ یہ الفاظ تو ہمارے پیارے پاکستان کے عوام کے ہیں جو دن بدن نرگسی کوفتوں کی مانند نرم پڑتے جارہے ہیں۔ ہماری اایک بڑی سیاسی جماعت کے دلنشین و حسین لچکتے مٹکتے کئی دلوں کی دھڑکن مستقبل کے لیڈر نے عرض کیا ہے کہ اُن کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں یہی نہیں بلکہ دشمنِ جاناں نے اب تو باقاعدہ ایک عدد "خط"بھی پوسٹ کر دیا ہے۔

لگتا ہے اس دلبہار کو کوئی مغالطہ ہوا ہو گا۔ خط لگنے کا مقصد باہمی "تعلقات"کو فروغ رہا ہو گا نا کہ "جان"کی جان لینا۔

(جاری ہے)

نازوں میں پلے ہمارے یہ محبوب جلد ہی عملی سیاست میں قدم رکھنے جا رہے ہیں یار دوستوں کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں قدم "بھاری"نا ہوجائے۔ یہاں پر قدم لکھنا غلطی نا تصور کیا جائے کیونکہ اگر ہم پاؤں لکھ دیتے تو لوگوں نے بات کا رُخ کسی دوسری طرف موڑ دینا تھا۔

حال ہی میں ہمارا پورا ملک "فیسٹولز"کی آماجگاہ بنا ہوا تھا مگر تھوڑی سی ہی گرمی نے ملک کے باسیوں کے کڑاکے نکال دیے ہیں کہ ابھی پنکھے چلنے شروع نہیں ہوئے کہ بہت سے لوگوں کو ہاتھوں کی مالش کرتے دیکھا پوچھنے پر پتا چلا ہے مالش کرنے کا مقصد ہاتھوں کو گرمی میں ہمت فین چلانے کے قابل بنانا ہے کیونکہ بجلی تو ہو گی نہیں۔ ہمارا میڈیا بھی بہت نکما ہے کہ آئے روز مرکزی و صوبائی حکومتوں کی نا اہلیوں کا رونا روتا رہتا ہے بندہ پوچھے یہ ناچ گانا کرنا کوئی اسان کام ہے اس کے لیے کتنے کتنے دن ریاض کرنا پڑتا ہے مگر میڈیا کے "دانشور"اس سے نابلد ہیں۔

ہاتھ میں ایک عدد کاغذ پکڑ کر پڑھ دینا اور بات ہے اور ناچ گانوں کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنا اور بات ہے۔ سنا ہے میڈیا والے شور مچا رہے ہیں کہ تھر میں کچھ غریب بچے بھوک سے مر رہے ہیں اب بھلا اس میں ہمارے دلہبار کاکیا قصور وہ تو قمیض کے کف کھول کر تقریر کرنے کا فن سیکھ رہے ہیں انہوں نے کسی کو زہر دے کر تھوڑی نا مارا ہے اگربارش نہیں ہورہی تو حکومت کیا کرسکتی ہے، "کرانچی"میں تو پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔

لوگوں کا کیا ہے وہ تو باتیں بناتے رہتے ہیں۔
لگتا ہے اللہ کی رحمت جوش مار رہی ہے جو اس موسم میں بھی بارش برسا کر پاکستان کے عوام کو باور کروا رہا ہے کہ ابھی ب وقت ہے "بندے"بن جاؤں ورنہ باریاں اسی طرح لگتی رہے گیں اور بار بار یہی دلبہار تم پر حکومت کرتے رہے گے۔ بادشاہی نظام میں بادشاہ کا تخم پیدائشی بادشاہ ہوتا تھا یہاں بھی کچھ یہی صورتحال ہے کہ لیڈر کا بچا پدائشی لیڈر ہوتا ہے۔

سیاست میں آئے جمہ جمہ چار دن ہوتے ہیں لیکن نام کے ساتھ راہنما کا دم چلا لگا دیا جاتا ہے۔ یوں تو ہمیں جوتے کھانے کی عادت سی پڑ گئی ہے مگر حکمران اس میں بھی سُستی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جوتے لگانے والوں کی تعداد نہیں بڑھاتے۔ ڈیرھ عرب ڈالر کا انعام تو مل گیا اور ڈالر کی قیمت بھی کم ہوگئی۔ سنا ہے پیٹرول بھی ایک روپیہ کم کر دیا گیا ہے۔ لیکن عوام کے طرز زندگی میں کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آرہا۔


دلچسپ صورتحال تو تب پیدا ہوتی ہے جب ملکی مسائل کا رونا میڈیا پر پیٹا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی آنکھ تب ہی کھلتی ہے، پھر ہر طرف بھاگ دوڑنظر آتی ہے کروڑوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر غریب کی کُٹیا میں جایا جاتا ہے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ ہماری حکومت کا بھی کرکٹ ٹیم جیسا ہال ہے کہ تمام کے تمام ٹُلے ہیں لگ گیا تو لگ گیا نہیں تو اللہ اللہ خیر صلہ۔

سنا ہے ہمارے پرائم منسٹر صاحب نے عارضی نوکریوں سے پابندی اُٹھا لی ہے اب وہ لوگ بھرتی کیے جائیں گے جن کو اگلی حکومت نکال باہر کرئے گی۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں میں ہمارے ملک کاریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ اللے تللوں کو نوازنا ہماری پرانی روایت ہے۔ ایک وقت تھا لوگوں کی نظریں سپریم کورٹ پر تھیں پر اب وہ بھی اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اب تو کالے کوٹ والے ہی عدالتوں کا کام سرانجام دیتے دیکھائی دیتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ پولیس کا کام بھی کر لیتے ہیں کسی کو پھینٹی لگانی تو اُن کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔


بچپن میں شیخ چلی کی کہانی پڑی تھی جس کی ماں کہیں سے قرض اُتھا کر اُسے انڈے دیتی ہے کہ مارکیٹ میں بیج آئے اور گھر کا خرچ چلائے مگر شیخ چلی کا بھی ہمارے جیسا ہال تھا ۔ کہ انڈوں کا ٹوکرا سر پر رکھے مستقبل کی پلانیگ کرنے لگا کہ انڈے بیج کر گھر بناؤں گا فیکٹری لگاؤں گا شادی کروں گا زندگی کی تمام سہولتیں حاصل کروں گا لیکن اس چکر میں قرض سے لیے ہوئے انڈے بھی توڑ بیٹھتا ہے۔

ہمیں بھی قرض ملتا ہے اور ہم مستقبل کی پلانینگ شروع کردیتے ہیں کہ اس سے عوام کو تمام سہولتیں دیں گے۔ ہسپتال بنائیں گے،سکول ہوں گے،مہنگائی ختم کریں گے،بیروزگاری ختم ہو جائے گی۔ بجلی پیدا کریں گے لیکن اس چکر میں قرض کی رقم ہڑپ کر لی جاتی ہے اور عوام یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ "میں مر گئی آں"
ہمارے اکثر بڑھے بوڑھے کہتے پائے جاتے ہیں کہ موجودہ دور بہت برا ہے ہمارا زمانہ ٹھیک تھا مگر تاریخ پڑھیں تو پاکستان کے حالات قائد کے بعد سے ایسے ہی ہیں رشوت ،ڈاکے،قتل وغارت جیسی لانعتیں تب بھی موجود تھیں۔

ہاں اب ان میں ایک طالبان نامی مخلوک کا اصافہ ہو گیا ہے جو کبھی ہمارے ماتھے کا جومر تھے آج ہمارے لیے سر درد بنے بیٹھے ہیں۔ ان کو بنانے والے بھی برئے ان کو مارنے والے بھی برے پتا نہیں سچا کون تھا مرد مومن مرد حق یا پہاڑوں پر بم گرانے والا کام دونوں ہی ہمارے بوٹوں والے سرکار نے کیے تھے۔ جن کی وجہ سے ہماری پاک فوج کو کئی قربانیاں دینا پڑیں۔


عوامی حالات تب ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں جب اس ملک میں کرپشن جیسی لعنت کو ختم کیا جائے یہاں تو یہ صورتحا ل ہے کہ بچہ پیدا ہو یا کوئی عدم سدھار جائے دونوں صورتوں میں رقم لگانی پڑتی ہے۔ اسی سے کام بنتے ہیں اور اسی سے کام بگڑتے ہیں۔ ویسے اگر عالمی منظرنامے پر نظر دوڑائی جائے تو پوری مسلم دُنیا مسائل کا شکار ہے کہیں فرقہ وارانہ فسادات تو کہیں آپس کی جنگ۔

کہیں اقتدار کا سرور تو کہیں بچوں کے مستقبل کی جنگ۔ پاکستان کا کیا ہے نا تین میں نا تیرا میں جس مرضی ملک کے ائرپورٹ پر چلے جاؤ ننگا کر کے رکھ دیں گے کہ بھائی پاکستانی ہو جلدی سے کپڑئے اُتاروں کہیں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نا اُڑا دینا۔ اچھے دن کے انتظار میں ایک نسل تو چل بسی اب اگلی بھی تیار ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں کوئی بہتری ہوتی نظر نہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :