ملکی عدم استحکام کی وجہ اور ہمارے کرنے کا کام

جمعرات 3 اپریل 2014

Muhammad Younas Qasmi

محمد یونس قاسمی

افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جو اندرونی وبیرونی ہرطرح کی خانہ جنگی کا شکار ہے۔کبھی وہاں استحکام پیدا نہیں ہوسکا۔افغانستان میں عدم استحکام کی بہت ساری وجوہات بیان کی جاتی ہیں مگر تمام وجوہات کی ماں ایک ہی چیز ہے اوروہ ہے بیرونی مداخلت۔ایک مداخلت وہ ہے جو ہمیں نظر آتی ہے اور ایک مداخلت وہ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی۔نظر آنے والی مداخلت تو امریکہ اور اس سے پہلے روس کی مداخلت ہے جبکہ نظر نہ آنے والی مداخلت سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے ممالک اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے افغانستان میں گھس کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔

افغانستان میں مشکل سے کوئی ایسا اخبار ملے گا جو وہاں کا مقامی اخبار ہو،اس کے چلانے والے پرنٹرز،پبلشرز،ایڈیٹرزوغیرہ تو مقامی ہوسکتے ہیں مگر جب آپ اس کے ذرائع آمدنی تلاش کریں گے تو کسی چھوٹے سے ملک کا کوئی ادارہ اس اخبار کی پشت پر کھڑا نظر آئے گا۔

(جاری ہے)

یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب ریاست اپنا کام چھوڑ دے اور ریاست دیوار سے لگا دی جائے۔جب ریاست اپنا کام چھوڑ دیتی ہے تو پھر افراد سامنے آتے ہیں جو ملکی نظم ونسق میں بھرپور مداخلت کرتے ہیں،جن ممالک کے مفادات ریاست سے متعلق ہوتے ہیں وہ ریاست کی نہیں بلکہ ان افراد کی مدد کرتے ہیں۔

یہ افراد اپنے سے زیادہ اس کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کررہے ہوتے ہیں۔یہی صورت حال ہمارے ملک میں جاری ہے۔ آج ہمیں یہ طعنہ دیا جارہا ہے کہ ہمارے اندر برداشت نہیں ہے،ہم تعلیم سے محروم ہیں،ہم کسی کی بات نہیں سن سکتے،ہم ڈائیلاگ اور مکالمے سے عاری قوم ہیں،سیاسی مذہبی رواداری سے محروم ہیں ،ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا پتہ نہیں ہے۔

سب سے بڑی چیز جو ہمیں بتائی جاتی ہے وہ یہ ہمیں اپنے قومی مفادات کا پتہ نہیں ہے جب ہمیں قومی مفادات کا پتہ نہیں ہوتا توہم قومی مفادات کا ادراک نہیں کرسکتے۔جب ادراک نہیں ہوگا تو تحفظ کیسے کریں گے۔یوں ہم عدم استحکام سے دوچار ہوجاتے ہیں۔افغانستان کی طرح پاکستان بھی وہ ملک جسے لوگوں نے سرائے عالمگیر بنا رکھا ہے جس کا جب جی چاہتا ہے وہ منہ اٹھائے آتا ہے اور یہاں اپنے مفادات کی جنگ لڑنا شروع کردیتا ہے۔

یہاں بہت سارے ادارے،بہت ساری سیاسی ومذہبی جماعتیں ایسی دکھائی جاسکتی ہیں جو باقاعدہ پڑوسی ممالک کے تعاون اور مکمل تائید کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔جب بیرونی ممالک یا بیرونی ہاتھ پاکستان میں اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ ہاتھ بٹائیں گے اور انکی پشت پناہی کریں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ لوگ پاکستان میں انہی ممالک کے مفادات کی جنگ لڑیں گے۔

ایسے جتنے بھی لوگ موجود ہیں جو ہمیں ناانصافی،عدم برداشت،جہالت اور مذہبی رواداری سے محروم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ برداشت کسے کہتے ہیں،انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ قومی مفاد کیا ہوتا ہے،انہیں مکالمے اور ڈائیلاگ کا فن بھی آتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ جب آپ کی سیاست اور مذہبی معاملات میں بیرونی مداخلت کا عنصر شامل ہواجائے تو پھر یہ سب چیزیں بے معنی سی ہو کے رہ جاتی ہیں۔


سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔میری ناقص رائے میں اسکی بنیادی وجہ یہ ہے ہماری ریاست نے اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھایا ہواہے۔انسان کی فطرت ہے کہ اسے تعلیم چاہیے،اسے روزگار چاہیے،اس کو صحت چاہیے،اس کو انصاف چاہیے۔یہ ساری وہ ضروریات ہیں جو ریاست کے ذمہ واجب ہیں کہ وہ اپنی رعایا کو فراہم کریگی۔ انسانی نفسیات ہیں اور پوری انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب انصاف نہ ملے تو وہ خود انصاف کرنے کیلئے نکلتا ہے۔

اگر ہماری ریاست اپنی رعایاکی تعلیم میں مخلص ہوتی تو پرائیویٹ سیکٹر نہ بنتے۔اگر لوگوں کے پاس روزگار ہوتا تو وہ موبائل نہ چھینتے اور ڈکیتیاں نہ ڈالتے،لوگ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ہاوٴس کے سامنے خودکشیاں نہ کرتے،مائیں اپنے بچے فروخت نہ کرتیں۔جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو قانون کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے اور اس گرفت کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ریاست وہ اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے جس کی بنیاد پر کسی کو کسی اچھے برے کام کے کرنے کاکہا یااس سے روکا جاسکے۔

جب ریاست سیاسی مذہبی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوچکی ہوتو پھر اس ملک کی جماعتیں ،ادارے اور افراد اپنے مفادات دوسرے ممالک سے وابستہ کرلیتے ہیں اور اس ملک میں اس وقت تک استحکام پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے اندرونی حالات میں بیرونی مداخلت بند نہ ہوجائے ۔یہ اسی وقت بند ہوسکتی ہے جب ریاست اپنے اندر اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرلے۔

آج پاکستانی ریاست سے ایک مطالبہ کیا جارہا ہے کہ یہاں ایسا لٹریچر موجود ہے جو صحابہ کرام وازواج مطہرات کی توہین پر مبنی ہے۔ہمارا کل بھی یہی مطالبہ تھا،آج بھی یہی مطالبہ ہے۔کل بھی ریاست سے یہ مطالبہ تھا آج بھی ریاست سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ کرام  وازواج مطہرات کی ناموس اور انکی عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی بنایا لیا جائے تو شیعہ سنی مسئلہ کے خاتمے کی ہم یقین دہانی کراتے ہیں۔

آج اگر شیعہ سنی مسئلہ ٹیڑھا ہے تو اسکی وجہ ریاستی ادارے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ہمارا مسئلہ یہ ہے ہم ایک ایسی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں کہ جس کے خدوخال بنانے کیلئے خلافت راشدہ سے استفادہ کیا جائے۔ہمیں پتھروں کا دور عزیز ہے مگر وہ دور ایسا دور ہو جس میں ایک عام انسان بھی خلیفہ وقت کا احتساب کرسکے۔وہ ایک ایسادور ہو جس میں قاضی کے ایک نوٹس پر بائیس لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والاحکمران عدالت میں پیش ہوجائے۔

دوسرا مسئلہ ہمارا یہ ہے اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس ملک جو اسلامی ریاست ہے میں کسی کو صحابہ کرام وازواج مطہرات کی عزت وناموس سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ہمارے صرف یہ دومسئلے ہیں جو انتہائی پر امن جدوجہد کے ذریعے ہم حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر ہمیشہ ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور دنیا کو بتایا یہ جاتا رہا ہے کہ اس زیادتی کا آغاز ہم نے کیا ہے۔

مظلوم ہم ہیں مگر دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے اس ظلم کا آغاز کیا ہے۔فتوے ہمارے بذرگوں پر لگے ہیں مگر دنیا کو یہ تأثر دیا گیا ہے کہ اس فتویٰ بازی کا آغازہم نے کیا ہے۔
ایسے حالات میں جب ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہ کررہی ہو اور دوسری طرف سرحد پار سے آئے ہوئے دہشت گرد ہمیں نشانہ بنا رہے ہوں،تیسری طرف ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اقلیت کی طرح جنگ لڑنے پر مجبور ہوں تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کرنے کاکام کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جلد یا بدیر جیت بالاخر دلیل کی ہوتی ہے۔ہمارے متعلق جو کنفیوژن پیدا کردی گئی ہے اسے دور کرنے کیلئے ہم اپنے آپ کو دلیل کے اسلحہ سے لیس کریں۔ہمیں پڑھنا چاہیے،مطالعہ وسیع کرنا چاہیے ،محض تقاریر اور جذباتی نعروں کے ذریعے سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو مضبوط دلائل سے مزین کریں۔پھر ہم اس طبقے میں جائیں جو ہمارے متعلق کنفیوژن کا شکار ہیں۔

انہیں بتایا جائے کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں،نظام خلافت راشدہ کیا ہے اورایک فلاحی ریاست کسے کہتے ہیں۔اسلام میں حضرات صحابہ کرام وازواج مطہرات کی حیثیت کیا ہے اوران کی عزت وناموس کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔جب ہم یہ کنفیوژن دور کرنے میں کامیاب ہوگئے توہمیں ریاست سے اپنامطالبہ منوانے میں آسانی ہوگی۔جب ریاست اپنے عوام کے مطالبات پر توجہ دے گی اور انہیں حل کرنے میں دلچسپی لے گی تو یقینابیرونی مداخلت کم ہوگی اور وطن عزیز مستحکم ہوگا۔
(کمالیہ کی جامع مسجد فاروقیہ میں ۳۰ مارچ کو منعقد ہونے والے” استحکام پاکستان سیمینار“میں کی گئی گفتگو)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :